خداوندان ارضی سے نجات کا لمحہ


خداوند ہونے کا احساس ایک ایسی بیماری ہے جس کا علاج میں نے دریافت کر لیا ہے مگر مریضوں کے نسخے میں طبیب یہ علاج تجویز ہی نہیں کر رہے اور ناانصافی کا مرض چیچک کی طرح معاشرے کے چہرے کو بدنما داغ دے رہا ہے، سڑاند بھی باہر آ رہی ہے اور بس مریض کو موت نہیں آ رہی۔ آ بھی گئی تو کیا ہو گا، خداوندی کا یہ مرض ان کی نسلوں میں ٹرانسفر ہو جائے گا۔

خاک مٹھی میں لیے سوچتا ہوں

انسان جو مر جاتے ہیں

غرور کہاں جاتا ہے

غرور وہ مرض ہے جو انسان کے اندر یہ وہم پیدا کر دیتا ہے کہ وہ مطلق العنان ہے، عظیم ہے اور باقی تمام انسان کیڑے مکوڑے، قانون خدا نخواستہ ان کی رکھیل ہے اور یہ غرور ہماری برداشت نے ہی ان کی رگوں میں گھولا ہے۔ اس کے نتیجے میں جو حالات سامنے آتے ہیں پھر اس پہ ماتم نہیں بنتا۔

آئیں نظر ڈالتے ہیں ڈیرہ اسمعیل خان میں ہونے والی شریفاں بی بی کے ساتھ ہونے والے حادثے پر، یہ اپنی طرح کا واحد حادثہ نہیں ہے، مردوں کی ذاتی تسکین کا باعث عورت بنتی آئی ہے اور بنتی رہے گی۔ گالی تک تو عورت کے نام سے دی جاتی ہے۔ مردوں کا یہ رویہ خواتین کے ساتھ ایسا کیوں ہے کہ ونی، بدلہ، غیرت سب میں شکار عورت ہو رہی ہے۔ ہمارے گھروں میں عورت کو جب برابری کا دعوی کرنے کا حق ہی حاصل نہیں تو گلیوں بازاروں میں اس کی کیاعزت ہو گی۔ حالاں کہ ہر میدان میں عورت اور مرد برابر کام کر رہے ہیں مگر عزت صرف مرد کی کیوں؟ دراصل یہ ایک ذہنی پستی اور پسماندہ ڈھانچہ اور سانچہ ہے جو مذہب اور معاشرے کے نام پر عورت کو پستی میں دھکیل رہا ہے۔

بات ہو رہی تھی شریفاں بی بی کی کی تو میری دلیل کے طور پر آج سے تیس دہائیاں پہلے ہونے والے ایک حادثے پہ نظر ڈالتے ہیں۔

تاریخ کے اوراق ہر تیس سال پہلے ملتان کے نواحی علاقے نواب پور میں چند خواتین کو طاقت کے زور پر برہنہ کر کے جانوروں کی طرح ہانکتے ہوئے مشہور جلال چوک تک لایا گیا۔ غیور عوام نے اپنی دکانوں کے شٹر گرا دئیے اور گھروں کے دروازے بند کر لیے۔ کسی نے اتنی ہمت نہ کی کہ اپنی بہنوں بیٹیوں پر چادر ڈال دے گو کہ عوام کی تعداد ان چند ظالمین سے زیادہ تھی۔

وقوعہ عین تھانے کے سامنے پیش آیا تھا۔ خبر میڈیا تک پہنچی عوام نے شور مچایا اور ملزمان گرفت میں آ گئے۔ مگر بہت دیر ہو چکی تھی۔ ان بے گناہ خواتین کا دامن داغدار ہو چکا تھا۔ سانپ گزر چکا تھا اب صرف لکیر پیٹی جا رہی تھی۔ چلیں سزا ہونے کے بعد باقی لوگوں کے لیے ملزمان کو نشان عبرت تو بنایا جا سکتا تھا۔ مگر سات برس کی سزا اور الیکشن میں نااہلی کی سزا کے بعد نامزد ملزم اقبال شیخانہ بھرپور زندگی گزار رہا ہے۔ کیا یہ سزا کافی تھی۔ اگر کافی ہوتی تو آج کوئی گنڈا پوری کا دست راست وہی حرکت نہ دہراتا۔ یہاں مجھے سزا کے قانون میں بہت بڑا سقم نظر آ رہا ہے۔ ہم ان بنیادوں کو ختم نہیں کرتے جن بنیادوں پر ظلم ہو رہا ہے۔ ظالم وقت اور دولت کا ناجائز استعمال کرتے ہیں۔ ظالموں سے ان کی تمام دولت چھین کر مظلومین کو دے دی جاتی تو ان کی عقل ٹھکانے آ جاتی۔ اس جڑ کو کاٹنا چاہئیے جس پر ظلم کا مضبوط تنا کھڑا ہوتا ہے۔ میں معذرت چاہتی ہوں کہ میں نے بے حس مردوں کے لیے کوئی نازیبا لفظ استعمال نہیں کیا کیونکہ میرا دین تو کسی کو برے نام سے پکارنے کے بھی اجازت نہیں دیتا اور ظالم سماج جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ کسی عورت کی تذلیل کر سکتے ہیں تو بتاتی چلوں کہ عورت کی عزت بہت قیمتی ہے نہ اسے چھینا جا سکتا ہے اور نہ ہی لوٹا جا سکتا ہے۔ عزت دراصل سوچ کی ہے، تقوی کی ہے باقی تو ہڈیاں اور ماس ہیں۔ حکومت اور انصاف دلانے والے اداروں سے التماس ہے کہ پست اور عفت و عصمت کے کونسیپٹ سے عاری ملزمان کو اب کے ان کی خدائی سے محروم کیا جائے تمام جائداد ضبط کی جائے۔ ان کی فرعونیت کا تختہ الٹ جائے تاکہ کوئی دوسرا اپنے جاہ و منصب اور دولت کے نشے میں مست نہ ہو۔

معاشرے کی ذہنی تراش کے لیے بہت لکھا جا چکا۔ اب عمل کا وقت ہے اور ارباب اختیار اور عوام بے اختیار سے گزارش ہے کہ اس غنڈہ راج اور خدائی کی دعوے داروں کو بزور سزا ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ دوسرا کوئی سافٹ راستہ نہیں ہے۔ مانیں یا نہ مانیں، بات سچ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).