میاں بیوی میں جھگڑا کیسے روکا جائے؟


’ہم سب‘ پر جب میرے محبت‘ جنس اور شادی کے بارے میں دو کالم چھپے تو چند دوستوں نے مشورہ دیا کہ میں ایسے میاں بیوی کے بارے میں کالم لکھوں جنہیں غصہ بہت آتا ہے اور وہ آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ ایسے جوڑے پرامن اور صحت مند مکالمے سے کیسے اپنے مسائل کا حل تلاش کر سکتے ہیں۔۔ ہم اپنے کلینک میں مریضوں کی مدد کے لیے گرین زون فلسفہ استعمال کرتے ہیں جس سے انہیں اپنے غصے پر قابو پانے اور اپنی ازدواجی زندگی کو بہتر‘ خوشحال اور صحتمند بنانے میں بہت مدد ملتی ہے۔ میں اس کالم میں آپ کو گرین زون فلسفے کی کہانی سنانا چاہتا ہوں اور یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وہ آپ کی انفرادی‘ ازدواجی اور خاندانی زندگی میں آپ کی کیسے مدد کر سکتا ہے۔

آج سے بیس برس پیشتر ایک ڈاکٹر نے ایک جوڑا میرے پاس بھیجا۔ اس جوڑے کی شادی کو بارہ برس ہو گئے تھے اور ان کا دس برس کا بیٹا بھی تھا۔ شوہر کو غصہ بہت آتا تھا اور وہ غصے میں بیوی کی ہتک کرتا تھا اور اسے جلی کٹی سناتا تھا۔ ہتک کرنے کے چند گھنٹے بعد وہ شرمندہ ہوتا تھا معافی مانگتا تھا لیکن اس معافی کا اثر صرف تین چار دن رہتا تھا۔ اس کے بعد اسے پھر غصہ آ جاتا تھا۔ ایک دن بیوی نے شوہر سے کہا ’میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔ اب ہمارا بیٹا بڑا ہو رہا ہے۔ میں نہیں چاہتی کہ اس کے سامنے اس کی ماں کی تذلیل ہو۔ تم یا تو ایک تھیریپسٹ سے علاج کروائو اور یا میں تمہیں طلاق دے دوں گی۔‘

تھیریپی کے پہلے انٹرویو میں شوہر نے مجھے بتایا کہ وہ اپنی بیوی سے محبت کرتا ہے لیکن وہ اپنے غصے پر قابو نہیں پا سکتا۔ اگلے انٹرویو میں اس نے یہ بتایا کہ اس کا باپ‘ اس کا بچپن کا رول ماڈل‘ شراب پی کر اس کی ماں کو مارا کرتا تھا۔ میرے مریض کو فخر تھا کہ اس نے کبھی اپنی بیوی پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔

تیسرے انٹرویو میں میرا مریض اپنے بیٹے سے اپنی محبت کا اظہار کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا ’تم کیا چاہتے ہو تمہارا بیٹا بڑا ہو کر کیا بنے‘

’ایک شہزادہ‘ اس نے کہا

میں نے کہا’ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا بیٹا شہزادہ بنے تو تمہیں اس کی ماں کا ملکہ کی طرح خیال رکھنا چاہیے۔ تم اس سے کنیزوں جیسا سلوک کرتے ہو اور کنیزوں کے بیٹے شہزادے نہیں بنا کرتے۔‘ میری یہ بات سن کر وہ گہری سوچ میں ڈوب گیا۔

اگلے ہفتے جب وہ مجھے اپنے غصے کے بارے میں بتا رہا تھا تو میں نے پوچھا ’جب تم گاڑی چلا رہے ہوتے ہو اور ٹریفک کا اشارہ yellow ہو جائے تو تم کیا کرتے ہو‘

’میں ایکسلریٹر پر پائوں رکھتا ہوں‘

’وہ کیوں؟‘

’میں ہمیشہ جلدی میں ہوتا ہوں مجھے ہمیشہ دیر ہو رہی ہوتی ہے‘

میں نے کہا’ عقلمند انسان بریک پر پائوں رکھتا ہے۔ جب تم غصے میں آنے لگتے ہو تو تم yellow zone میں ہوتے ہے۔ تمہیں اسی وقت غصے کی بریک پر پائوں رکھنا چاہیے اور کمرے سے باہر نکل جانا چاہیے اور جب تک تم green zone میں نہ آ جائو تمہیں اپنی بیوی سے بات نہیں کرنی چاہیے۔‘

میرے مریض کو میری بات سمجھ میں آ گئی اور اس نے میرے مشورے پر عمل کرنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد اسے جب بھی غصہ آنے لگتا وہ کمرے سے باہر چلا جاتا۔ چند ہفتوں کی تھیریپی کے بعد اس کی بیوی نے مجھے بتایا کہ اس کے رویے میں مثبت تبدیلی آ رہی ہے اور وہ غصے پر قابو پانا سیکھ رہا ہے۔

چند مہینوں کی گرین زون تھیریپی سے شوہر گرین زون میں رہنے لگا اور کچھ عرصے کے بعد شادی بھی گرین زون میں آ گئی۔ اب کئی برسوں سے وہ جوڑا خوشحال اور پر سکون زندگی گزار رہا ہے۔

اس جوڑے کے علاج کے بعد میں نے کئی اور مریضوں اور خاندانوں کو یہ فلسفہ سکھایا اور جب انہوں نے گرین زون فلسفے پر عمل کرنا شروع کیا تو انہیں بھی بہت فائدہ ہوا۔

آہستہ آہستہ ہم نے گرین زون فلسفے پر کئی کتابیں لکھیں جو اب AMAZON KINDLE پر دستیاب ہیں۔ گرین زون فلسفے کے مطابق ہم سب نفسیاتی طور پر تین EMOTIONAL ZONES میں رہتے ہیں۔

GREEN ZONE/YELLOW ZONE / RED ZONE

1۔ جب ہم خوش ہوتے ہیں مسکرا رہے ہوتے ہیں تو ہم اپنے گرین زون میں ہوتے ہیں

2۔ جب ہم تھوڑے سے پریشان اور فکرمند ہوتے ہیں یا غصے میں آنے لگتے ہیں تو ہم اپنے ییلو زون میں ہوتے ہیں

3۔ جب ہم آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔ بہت زیادہ غصے میں ہوتے ہیں یا بہت یاسیت کا شکار ہوتے ہیں تو ہم اپنے ریڈ زون میں ہوتے ہیں۔

4۔ میاں بیوی کے گرین زون مکالمے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں گرین زون میں ہوں اگر ایک غصیلے ریڈ زون میں ہے تو دوسرے کو انتظار کرنا چاہیے۔ ورنہ غصے والا انسان دوسرے کو بھی ریڈ زون میں لے جا سکتا ہے۔

5۔ ہم جوڑوں سے کہتے ہیں کہ وہ ہر ہفتے گرین زون میٹنگ کریں جس میں وہ ہفتے بھر کے مسائل پر تبادلہِ خیال کریں اور الجھے ہوئے مسائل کو سلجھائیں۔

6۔اگر میاں یا بیوی اتنے غصے میں ہیں کہ بات چیت نہیں کر سکتے تو میں مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنے خیالات اپنے شریکِ سفر کو خط لکھ کر دیں تا کہ دوسرا شریکِ حیات اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کر سکے۔

7۔ ہم ہر شخص کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ہر روز ایک گھنٹہ گرین زون میں گزارنا شروع کرے۔ یہ گھنٹہ کتاب پڑھنے، موسیقی سننے یا کسی مخلص دوست سے بات کرنے سے کیا جا سکتا ہے۔ گرین زون کا سفر ایک گھنٹے سے شروع ہوتا ہے پھر وہ دو گھنٹے بنتا ہے اور آہستہ آہستہ لوگ زیادہ سے زیادہ گھنٹے گرین زون میں گزارنے لگتے ہیں۔

8۔ جب دونوں فریق گرین زون میں رہنے لگتے ہیں تو ان کا مکالمہ بھی گرین زون میں آ جاتا ہے اور آہستہ آہستہ شادی بھی گرین زون میں آ جاتی ہے۔میاں بیوی ایک دوسرے کو بتاتے ہیں کہ کون سی چیزیںTRIGGER کر کے انہیں ریڈ زون میں لے جاتی ہیں اور وہ ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ وقت گرین زون میں رہنے میں مدد کرتے ہیں۔ دونوں شریکِ حیات ایسے مشاغل اپناتے ہیں جن سے وہ اپنے گرین زون میں زیادہ وقت گزارتے ہیں۔

9۔ گرین زون جوڑے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی گرین زون فلسفے کے بارے میں بتاتے ہیں اور ان سے بھی گرین زون مکالے کرتے ہیں۔ اس طرح لوگ اپنی ذہنی صحت کا خود خیال رکھتے ہیں۔

10۔ جوں جوں انسان اور جوڑے گرین زون میں رہنے لگتے ہیں ان کے خاندان اور کام کے دفتر کے لوگ بھی گرین زون کو اپنا لیتے ہیں۔ اس طرح سب لوگ اپنی ذہنی صحت کو بہتر بنانے میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور گرین زون سسٹم تخلیق کرتے ہیں۔

گرین زون فلسفے میں YELLOW ZONE بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس میں آپ آسانی سے واپس گرین زون میں آ سکتے ہیں۔ ایک دفعہ آپ ریڈ زون میں چلے گئے تو آپ کچھ ایسی حرکت کر سکتے ہیں جس کا آپ کو بعد میں پچھتاوا ہو سکتا ہے۔

جب سے گرین زون فلسفے کی کتابیں چھپی ہیں بہت سے دوستوں‘ رشتہ داروں‘ مریضوں اور ان کے عزیزوں نے گرین زون فلسفے سے اپنی ذہنی صحت اور اپنے محبت بھرے رشتوں کو بہتر بنایا ہے۔ میں آپ سے صرف چند واقعات شیر کرنا چاہتا ہوں تا کہ آپ کو گرین زون کے فلسفے کی افادیت کا اندازہ ہو سکے۔

کئی سال پہلے کی بات ہے کہ میرے ایک شاعر دوست رشید ندیم نے ایک دن فون کیا اور مجھے بتایا کہ ان کی پانچ سالہ بیٹی افروز اور سات سالہ بیٹا امروز کمرے میں لڑ رہے تھے۔ پھر انہیں افروز کے رونے کی آواز آئی۔ وہ کمرے میں گئے اور پوچھا’ بٹیا میں کیا مدد کر سکتا ہوں؟‘ افروز نے کہا

DADDY I AM IN MY RED ZONE. I CANNOT TALK

رشید ندیم واپس آ گئے۔ چند منٹ کے بعد افروز لونگ روم میں آئی اور اپنے ابو سے کہنے لگی

DADDY NOW I AM IN MY YELLOW ZONE I CAN TALK

رشید نے پوچھا بٹیا میں کیا مدد کر سکتا ہوں۔ افروز نے کہا

MY BROTHER BROKE MY DOLL. IF YOU PROMISE TO BUY A NEW DOLL I WILL COME TO GREEN ZONE IF NOT I WILL GO BACK TO MY RED ZONE

رشید نے اسے گلے لگایا نئی گڑیا کا وعدہ کیا اور افروز کو خوش کر دیا۔

رشید نے کہا کہ اگرچہ افروز نے گرین زون کو اپنے مطلب کے لیے استعمال کیا ہے لیکن وہ اس فلسفے کو سمجھ گئی ہے۔

گرین زون فلسفہ جہاں اتنا SIMPLE ہے کہ بچے سمجھ جاتے ہیں وہیں COMPLEX بھی ہے۔ ہمارے ایک دوست روفی نے ‘جو ساٹھ ورکرز کے مینیجر ہیں‘ بازار سے ساٹھ چھوٹے چھوٹے گرین ‘ییلو اور ریڈ جھنڈے خریدے اور دفتر کی میز پر رکھ دیے۔ اس دفتر میں جب لوگ آتے ہیں تو وہ ایک جھنڈا اٹھا کر اپنی میز پر رکھ دیتے ہیں تاکہ ان سے بات کرنے والے کو اندازہ ہو کہ وہ کس زون میں ہے۔ دن میں ان کا موڈ بدلتا ہے تو جھنڈا بھی بدل جاتا ہے۔

گرین زون فلسفے پر عمل کرنے والے چاہے وہ میاں بیوی ہوں ‘دوست ہوں یا رفیقِ کار مکالمے سے پہلے جان لیتے ہیں کہ نہ صرف وہ خود کس زون میں ہیں بلکہ جس شخص سے مکالمہ کر رہے ہیں وہ کس زون میں ہے۔ اس آگہی سے نہ صرف غصے پر قابو پانے بلکہ اور بھی بہت سے نفسیاتی مسائل حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔

ہمارے کلینک میں ایک سکول کے سوشل ورکر ہر چند ماہ کے بعد آتے ہیں اور چند گرین زون کتابیں خرید کر لے جاتے ہیں۔ وہ کینیڈا کے سکولوں میں سیمیناروں کا اہتمام کرتے ہیں اور پرنسپل کو گرین زون کی کتابیں دیتے ہیں تا کہ اساتذہ اور طالب علم اس سے استفادہ کر سکیں۔ان کا خیال ہے کہ اگر بچے بچپن میں ہی ذہنی صحت اور گرین زون کے بارے میں جان جائیں گے تو وہ فلسفہ ساری عمر ان کی مدد کرے گا۔

مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ گرین زون فلسفے سے بہت سے خاندان‘ سکول اور دفاتر غصیلے اور پریشان حال ریڈ زون سے صحتمند اور خوشحال گرین زون میں آ گئے ہیں اور اب پرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔

گرین زون کا فلسفہ میرا دکھی انسانیت کے نام محبت بھرا تحفہ ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail