آپ نااہل ہونے والے ہیں؟ ٹھہریے!


آج کل ملکِ عزیز میں ’خلقِ خدا‘ راج کر رہی ہے (ہم پیار سے جمہوری حکومت کو خلقِ خدا کہتے ہیں) اور نااہل ہونے کی ہوا چل رہی ہے، چونکہ طبعیت، درویشی پہ مائل ہے اس لیے سوچا کہ اس بیماری کا توڑ بتائیں، جو ہمیں ہمالیہ کے ترائی میں ایک جوگی نے بتایا تھا۔

جوگی کے پاس ایک گیدڑ سنگھی بھی تھی جو اس نے بصد اصرار ہمارے ہاتھ، بعوض، پانچ ہزار روپیہ فروخت کی، گیدڑ سنگھی خریدنے کے بعد ہمارے حالات میں خاطر خواہ فرق پڑا اور اب ہفتے کے پانچ دن، نو گھنٹے کام کرنے کی بجائے، صرف 45 گھنٹے فی ہفتہ کام کرنا پڑتا ہے۔

جہانگیر ترین کو نااہل قرار دے دیا گیا کیونکہ وہ صادق اور امین نہیں۔ چند ماہ پہلے، ملک کے وزیرِاعظم محمد نواز شریف کو بھی نااہل قرار دیا گیا کیونکہ وہ بھی صادق اور امین نہیں تھے۔

میاں صاحب، ماشأ اللہ خوش شکل انسان ہیں اور ان کے چہرے مہرے، چال ڈھال اور گفتگو سے ایک معصومیت ٹپکتی ہے۔ اس فیصلے کے بعد جس طرح انھوں نے سوال کیا کہ مجھے کیوں نکالا؟ اس سے ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ وہ واقعی بہت معصوم ہیں اور ان سے جو خطائیں سر زد ہوئیں، ان میں ان کا اتنا قصور نہیں تھا۔ ان کو معلوم ہی نہ تھا کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ غلط ہے۔

میں منتظر رہی کہ جہانگیر ترین صاحب بھی یہ سوال کریں گے۔ لیکن انھوں نے ثابت کر دیا کہ زمیندار، بزنس مین سے زیادہ سیانا ہوتا ہے اور جب پکڑا جاتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا کر کے آیا تھا۔

جہانگیر ترین صاحب، میاں صاحب کی طرح ہی ایک جادوئی شخصیت ہیں۔ انگریزی محاورے کے مطابق ان کے پاس ’ہرا انگوٹھا‘ ہے۔ اب یہ ہرا انگوٹھا کیا ہے، پتا لگانے کے لیے آپ کو ترین صاحب کی لگا تار کامیابیوں پہ نظر ڈالنی ہو گی۔ کہانی میاں صاحب سے بہت ملتی جلتی ہے۔ ان کے کارخانوں میں نوٹ اگتے تھے اور ان کے کھیتوں میں۔

پنجاب میں ہونے والی کئی زرعی اصلاحات کے باوجود ترین صاحب کے پاس ہزاروں ایکڑ اراضی مو جود ہے۔ کہنے والے کہیں گے، ثابت کریے کہ یہ سب اراضی ترین صاحب کی ہے۔ بولنے والے اپنا سا منہ لے کر رہ جائیں گے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ جب ان کو معلوم تھا کہ بڑے مزرعوں کے ذریعے ہی خوش حالی اور پر ایکڑ پیداوار بڑھائی جا سکتی ہے تو یہ سہولت صرف اپنے لیے کیوں؟َ

ملکی سیاست کا ایک اہم کردار ہونے کے باوجود، ترین صاحب نے کبھی کاشت کاروں کے حق میں کھل کر بات نہیں کی۔ روسی انقلاب سے کشید کردہ گھسے پٹے اور دور ازکار نظریات کے تحت آج کاشتکار موت کے منہ میں پہنچ چکا ہے، لیکن اسی ملک میں جہانگیر ترین صاحب اسی کاشتکاری کے بل پہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔

پاکستان کا محنتی کسان آج بھی ان ہی مسائل کا شکار ہے جو 70 سال پہلے اس کے گلے میں بندھے ہوئے تھے۔ آزادی صرف ان کو حاصل ہوئی جنھوں نے کسی نہ کسی طرح، سیا ست یا دیگر شعبوں میں ٹانگ اڑائی، اپنے لیے سہولیات لیں اور خاموشی سے ایک طرف ہو کے بیٹھ گئے اور بقول شخصے، باقیوں کو صلح بھی نہ ماری کہ آ ؤ تم بھی فیض اٹھا لو۔

بے شمار بیورو کریٹس، ایک مقدس ادارے سے ریٹائرڈ لوگ، پولیس اور دیگر اداروں سے تعلق رکھنے والے، بڑی بڑی ڈیریز اور زرعی مزرعوں کے مالک ہیں۔ کیونکہ قانون ان کے لیے وہ جال ہے، جسے وہ بڑے آ رام سے توڑ کر نکل جاتے ہیں۔

ان لوگوں کو زراعت سے اتنی ہی دلچسپی ہے، جتنی کہ سیاست سے۔ یہاں کا پیسہ لے کر جب یہ سیاست میں جاتے ہیں تو حلق پھاڑ کے نعرے لگانے والے ورکرز کو پرے کر کے بڑے بڑے عہدے ان کے حوالے کر دیے جاتے ہیں، کیونکہ یہ استحصال اور جگاڑ کے قومی کھیل میں ماہر ہوتے ہیں۔

ان جگاڑؤں کی کامیابیاں دیکھ کر ہم جیسے چھوٹے اور ناکام لوگ ،حسرت سے مرے جاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ہم بھی کوئی ایسا ہی جوگاڑ کر کے دنیا میں نام پیدا کریں۔ نتیجتاً یا تو اپنی آ مدن، بڑھا چڑھا کے بتاتے ہیں، یا جھوٹا کروفر دکھانے کو اپنی رہی سہی پونجی بھی پھونک دیتے ہیں۔

ہوتا یہ ہے کہ چندہ لینے والی ادبی جماعتیں اور، قرض مانگنے والے شاعر پیچھے لگ جاتے ہیں۔ ارے! یہ کیا باتیں لے کر بیٹھ گئی، ارادہ خلقِ خداکی خدمت تھا، وہی خلقِ خدا، جس کے راج کرنے کے خواب شاعروں نے دیکھے تھے، خاکم بدہن اس خلقِ خدا کو نااہلی کا روگ نہ لگ جائے۔

ترین اور میاں صاحب کی نااہلی سے باقی ‘خلقِ خدا’ ایک سبق لے کہ جھوٹ بولیں مگر، ثبوت نہ چھوڑیں، بچوں کی عمریں غلط لکھوائیں مگر انہیں کھانا بھی کم دیں تاکہ وہ اپنی عمر سے بڑے نظر نہ آئیں۔

ٹیکس چرائیں مگر خرچ ایسی جگہ کریں جہاں کسی کی نظر میں نہ آئیں، یہ انگلینڈ والے تو اکثر مروا دیتے ہیں۔ آئندہ ایسا کچھ ارادہ بنے تو ٹانگا نیکا یا کلی منجارو شریف میں انویسٹ مینٹ کریں، ایک تو نام بڑے غیر شاعرانہ ہیں، دوسرے لوگ ڈھونڈھتے ہی رہ جائیں گے اور آپ کے عہدے کی معیاد ختم بھی ہو جائے گی۔

اس کے علاوہ بھی ہمارے پاس بہت سے مشورے ہیں، کیونکہ ہم تو کاشتکاری میں بھی کوئی کمال نہ دکھا سکے اور ترین فارم سے خریدی دو گائیوں کے نخرے اٹھا اٹھا کر یوں بھی آدھے ہو گئے۔

کالم بھی یوں ہی سا لکھتے ہیں، ڈرامے ہمارے کسی کی سمجھ میں آتے نہیں ناول پڑھنے کا کسی کے پاس وقت ہی نہیں، شاعری لڑکپن میں ہی چھوڑ دی تھی، افسانے لکھ کر منٹو والی زندگی گزارنا ہمیں منظور نہیں، نقادوں کی دنیا میں کوئی منہ نہیں لگاتا اس لیے سوچا ہے باقی عمر خلقِ خدا کو مفت مشورے دیتے میں گزار دیں گے، وہی خلقِ خدا، جو ہم بھی نہیں اور تم بھی نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).