انصاف کی دلیل اور منصف کی نیت


 ” آپ فیصلے پر تنقید کر سکتے ہیں، کہہ سکتے ہیں کہ فیصلے میں دی گئی دلیل کمزور ہے، نیت پر شبہ نہ کریں” یہ بات نہ میں نے کہی ہے نہ آپ نے یعنی کسی ہما شما کے منہ سے نہیں نکلی بلکہ یہ ملک کے سب سے زیادہ چھپنے والے اردو اخبار کی شہ سرخی کی ذیلی سرخی ہے جسے پاکستان کی سپریم کورٹ کے منصف اعلٰی میاں ثاقب نثار سے منسوب کیا گیا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر شک ہے کہ کوئی منصف وہ بھی منصف اعلٰی ایسی بات کہہ سکتا ہو۔ شک کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم آپ جیسے گاؤدیوں نے بارہا یہی سنا ہے کہ اایک تو انصاف اندھا ہوتا ہے، دسرے فیصلہ دلائل اور ثبوتوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ فیصلہ کرنے میں فیصلہ کرنے والی کی نیت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔

سابق وزیر اعظم کو نااہل کیوں کر دیا اور کئیوں کے نزدیک مستقبل کے وزیر اعظم کے خلاف نااہل کیے جانے کی درخواست کیوں مسترد کر دی گئی، یہ ہمارے سوال نہیں ہیں کیونکہ یہ سوال تو وہ کریں جو عدالت کی نیک نیتی پر شک کرتے ہوں۔ ہم نیت پر بالکل شک نہیں کرتے لیکن مضبوط دلیل نہ ہونے کی بنیاد پر کیے گئے دونوں فیصلوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنے پر یقیناً حق بجانب ہوں گے۔ منصف اعلٰی سے منسوب کردہ بیان سے اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ فیصلے کے حق میں دی گئی دلیل ممکنہ طور پر کمزور ہو سکتی ہے۔

 کیا ہمیں یہ سوال پوچھنے کا حق ہے کہ نیت کی بنیاد پر فیصلے کیے جانے کا اختیار کس قانون کے تحت ہے۔ جتنا عام لوگ جانتے ہیں اور جتنا پیشہ ور قانون دان بتاتے ہیں اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی مقدمے کا فیصلہ کرنے میں نیت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ اس کے ثبوت میں ایک عملی اقدام کی نظیر بھی پیش کی جا سکتی ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ ایک سال سے دہشت گردی کرنے کے جرم میں شامل مجرموں کے فیصلے سنانے کی خاطر ملک میں عارضی فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ بھی اسی لیے کیا گیا تھا کہ ایسے مجرم عام سول کورٹس سے ثبوتوں کی کمی اور کمزور دلائل کے سب صاف بچ نکلتے ہیں۔

ایک اور بات جو موجب پریشانی ہے وہ یہ کہ سیاست دانوں کو میلا یا صاف ثابت کرنے کی خاطر عدالتوں بلکہ براہ راست عدالت ہائے عالیہ اور عدالت عظمٰی کا سہارا عام لیا جانے لگا ہے یوں آئین اور آئین ساز ادارے یعنی اسمبلیاں اور سینیٹ بے اثر ہوتے دکھائی دینے لگے ہیں۔ اصولی طور پر تو ارالکین پارلیمان کے اخلاقی معاملات کو سب سے پہلے قانون ساز اداروں کے اندر ہی جواب دہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔ اس کے بعد اگر متعلقہ شعبہ مناسب خیال کرے تو معاملے کو عدالت تک لے جانے کی اجازت دے بلکہ بہتر ہو کہ پہلے متعلقہ رکن اسمبلی و سینیٹ کو معطل کرے پھر مقدمہ عدالت کو بھجوائے۔ یقین کیجیے قانون ساز اداروں میں بھی چھان پھٹک کی خاطر نیت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ وہاں بھی طے شدہ ثبوت اور مستند دلائل ہی کسی کے ساتھ مثبت یا منفی انداز اختیار کیے جانے کی بنیاد ہوتے ہیں۔

 ممکن ہے منصف اعلٰی سے منسوب بیان کا مطلب یہ ہو کہ عدالت کی نیت کسی کی پاسداری یا کسی کی مخالفت کرنا نہیں ہوتی۔ یہ بہت صائب بات ہے مگر اس بات کی صیابت تب ہی ناقابل تشکیک ہوگی اگر کسی کے حق میں یا کسی کے خلاف کیے گئے فیصلے کی مد میں دی گئی دلیل یا دلائل مضبوط ہونگے۔ کمزور دلیل یا دلائل اس فیصلے کو ہی نہیں بلکہ اس سے متعلق نیت کو بھی دھندلا دینے کا موجب بن سکتے ہیں۔

 ہم تو عدالت کو مشورہ دینے کی حیثیت میں نہیں ہیں مگر یہ ضرور جانتے ہیں کہ عدالت کو فیصلہ سنا دینے کے بعد نہ تو جواز تراشنے چاہییں اور نہ ہی ایسا کوئی بیان دینا چاہیے جو کبھی سیاسی بیان اور کبھی محض آئیں بائیں شائیں کرنے کے مترادف لگے۔ ہم اس معاملے پر بات کرنے والے کوئی نہ ہوتے اگر انہوں نے یہ بات پاکستان بار کونسل کے زیر اہتمام ’’حصول انصاف کیلئے سائلین کو درپیش مسائل اور انکے حل‘‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے نہ کہی ہوتی۔ ایسے فورم میں جہاں دلائل دینے والے لوگ ہوں کم و بیش کمزور دلیل کو فیصلے کی کم و بیش بنیاد بنائے جانے سے متعلق بیان یہ تاثر دے گا کہ کمزور دلائل کی بنیاد پر اچھی نیت کے تحت اچھے یا برے فیصلے کیے جانا ممکن ہو سکتا ہے۔

 ویسے تو کچھ لوگ اور کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کا نام بھی لیا جانا پسندیدہ نہیں ٹھہرتا جیسے انہیں دو سیاستدانوں سے متعلق مختلف فیصلے یا انہیں دو سیاستدانوں سے متعلق ایک سے فیصلے ایک کا بالکل دوسری بنیاد پر اور دوسرے کا بالکل اور بنیاد پر مگر بات نیت کی ہے اس لیے ہم کسی کا نام لینا پسند نہیں کرتے۔ ایسا کرنے میں واقعی ہماری نیت کا دخل ہے اور جو بات منصف اعلٰی نے سیمینار میں کہی اس میں بھی ان کی نیت شامل تھی جس پر ہمیں کسی بھی قسم کا کوئی شک نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).