بد نیّت درخواست گزار اور صادق و امین عمران خان


پانامہ لیکس کیس فیصلے کے بعد سپریم کورٹ نےعمران خان اور جہانگیر ترین کی نا اہلی سے متعلق حنیف عباسی کی درخواستوں کا فیصلہ بھی سُنا ہی دیا۔ جسمیں عمران خان صادق اور امین جبکہ جہانگیرترین نا اہل قرار پائے۔

سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ مکمل طورپر خلافِ توقع نہیں تھا۔ بلکہ سوشل میڈیا پر بیٹھے خود رو تجزیہ کار بھی اُمید سے تھے کہ سپریم کورٹ سے ایسا فیصلہ آئے گا کہ سانپ بھی مرجائے گا، لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔

جمعہ کے روز ہی سپریم کورٹ نےحدیبیہ پیپرز ملز کیس کودوبارہ سے کھولنے کی نیب کی درخواست کوبھی رد کر دیا۔ جس کے کچھ دیر بعد ہی عمران خان کو صادق اور امین اور جہانگیر ترین کو نا اہل  قرار دینے کے فیصلوں نے اس تاثر کو تقویت بخشی کہ سپریم کورٹ سب کو راضی رکھنا چاہتی ہے۔

سپریم کورٹ کو ایک ہی دن دونوں کیسز کا فیصلہ سنانےاورخاص کر شریف خاندان کے حق میں حدیبیہ پیپرزملز کا فیصلہ پہلے، پھر عمران خان کے حق میں اور پھر جہانگیر ترین کے خلاف فیصلہ بعد میں سنانے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا اس سے سپریم کورٹ کا تاثر خراب نہیں ہوا؟

حیران کُن طورپر سپریم کورٹ نے عمران خان کو صادق اور امین قرار دیتے ہوئے یہ تفصیلات بھی دیں کہ عمران خان نے اپنی آف شور کمپنی لندن فلیٹ کی قانونی ملکیت کے لیے بنائی۔ اس کے علاوہ عمران خان لندن فلیٹ کے بینیفشل اونر تھے اور عمران خان نیازی سروسز کے نا ڈائریکٹر تھے اور ناہی شیئر ہولڈر۔ مزید یہ کہ سپریم کورٹ نے باور کروایا کہ چونکہ نیازی سروسز کا پیڈ اپ کیپیٹل صرف 9 پونڈ تھا۔ لہزا عمران خان نیازی سروسز کی ملکیت کاغزات نامزدگی میں ظاہر کرنے کے پابند نہیں تھے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب عمران خان خود تسلیم کرچکے کہ انھوں نے لندن فلیٹ خریدنے کے لئے آف شور کمپنی بنائی تو پھر وہ ڈائریکٹر ہوں یا نا ہوں، کیا فرق پڑتا ہے؟ اس کے علاوہ اگر کمپنی عمران خان کی نہیں تھی تو لندن فلیٹ کو فروخت کرکے پیسہ نیازی سروسز کو کیسے مل گیا؟ نیازی سروسز کا پیڈ اپ صرف 9 پونڈ تھا۔ لیکن اس کو کاغزات نامزدگی میں ظاہر کرنا تو لازمی تھا نا۔

علاوہ ازیں نواز شریف کو اپنے بیٹے کی کمپنی سے ناوصول کردہ تنخواہ ظاہر نا کرنے پر نا اہل کردیا گیا۔ لیکن عمران خان کو آف شور کمپنی ظاہر ناکرنے پر صادق اور امین قرار دے دیا گیا۔ واہ۔
فیصلے کے مطابق جہانگیر ترین کو اپنی آف شور کمپنی کا مالک اپنا بیٹا ظاہرکرنے پر نا اہل کردیا گیا۔ لیکن عمران خان کو اپنے نام پر بنی کمپنی کو ظاہر ناکرنے پر صادق اور امین قرار دے دیا گیا۔
یہاں تک کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے پانامہ لیکس کیس فیصلے کو بھی جھٹلا دیا اور اعلی عدلیہ میں روایت قائم کردی کہ پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کو تین رکنی بینچ رد کر سکتا ہے۔

پانامہ لیکس کیس اور عمران خان و جہانگیر ترین نا اہلی کیس دونوں کیسز کے فیصلے دیکھ کر مسلم لیگ نواز کے کارکنان کو یہ الزام لگانے کا موقعہ دیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے دونوں بینچزنے سابق وزیراعظم نوازشریف اور سیکریٹری جنرل تحریک انصاف جہانگیرترین کو نا اہل کرنے اور عمران خان کو صادق اور امین قرار دینے کے فیصلے پہلے کیے تھے اور دلائل و ثبوت بعد میں دیکھے اور سنے۔

مثال کے طور پر جہانگیر ترین کو حنیف عباسی کی درخواست میں لگائے گئے الزامات جیسے اختیارات کا غلط استعمال اور قرضے معاف کروانے، خاندان کے افراد کے درمیان اندرونی تجارت کرنے، زرعی آمدنی ظاہر نا کرنے اور لندن فلیٹ خریدنے سےمتعلق سرمائے کی منتقلی کے ثبوت فراہم نا کرنے پر نا اہل نہیں کیا گیا۔ بلکہ ججز کے سامنے لندن کے ٹرسٹ ڈیڈ کی درست تشریح نا کرنے اور آف شور کمپنی سے متعلق غلط بیانی پر نا اہل کیا گیا۔

دوسری طرف سابق وزیراعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ میں دائر کردہ پانچ درخواستوں پر نا اہل نہیں کیا گیا۔ بلکہ سابق وزیراعظم کو ایسی تنخواہ لینے پرنا اہل کیا گیا۔ جوکہ انھوں نے اپنے بیٹے کی کمپنی سے کبھی وصول نہیں کی۔ حالانکہ کسی بھی درخواست گزار کی طرف سے یہ استدعا کی ہی نہیں گئی تھی۔  (عدالت کے لئے لازم ہوتاہے کہ درخواست گزاروں کی استداعات کے مطابق سماعت کرے اور ہٹ کرکوئی فیصلہ نا دے)۔

اگر دیکھا جائے تو سابق وزیراعظم کو نا اہل کرنے کے لئے جے آئی ٹی کے اراکین سے زیادہ محنت ججز نے کی اور سابق وزیراعظم کا ایسا جرم تلاش کیا۔ جس کو مدعی یعنی کہ سابق وزیراعظم بھی جھٹلا نا سکیں۔ حالانکہ اگر معزز ججز سابق وزیراعظم کو کرپشن کے الزامات میں نا اہل کرتے تو سابق وزیراعظم یہ ڈھنڈورا ناپیٹتے ہوئے پائے جاتے کہ ”مجھے کیوں نکالا“۔

عمران خان کو صادق اور امین قرار دینے کے لئے معزز بینچ کے تین ججز نے 143 صفحات پر اس یادگار فیصلہ کرنے کی وجوہات بیان کیں۔ جبکہ جہانگیر ترین کو نا اہل قرار دینے کے لئے 80 صفحات ہی کافی سمجھے۔ اس کے علاوہ فیصلے میں ناصرف عمران خان کی ناظاہر کردہ آف شور کمپنی کو حلال یاجائز گردانا۔ بلکہ درخواست گزار حنیف عباسی کو بد نیّت بھی قرار دیا۔

ججز نے عوام کی رہنمائی اور بد نیّت درخواست گزار کو اس کی اوقات بتانے کے لئے باورکروایا کہ عمران خان ہمیشہ سے ہی صادق اور امین تھے اور کاغزات نامزدگی میں نیازی سروسز کو ظاہرنا کرنا ان کی بدنیتی نہیں تھی جس کے ذریعے عمران خان نے اپنی خون پسینے کی کمائی سے لندن فلیٹ خریدا۔ جسے بیچا بعد میں اور اپنی سابقہ بیوی سے ادھار لے کر بنی گالا کا بنگلہ خریدا۔ جس کے لئے جمائما خان نے رقم عمران خان کے کسی دوست راشد کےنام منتقل کی۔ جوکہ بعد ازاں لندن فلیٹ بیچ کر سابق اہلیہ کو واپس کی گئی۔ جس کی منی ٹریل جمائما خان نے ایسے بنک سے حاصل کرکے عمران خان کو بھیجیں جوکہ اب بند ہوچکا ہے۔

اسکے علاوہ عمران خان کو صادق اور امین قرار دیتے ہوئے تین رکنی بینچ نےتحریک انصاف کو پارٹی فنڈنگ  کی تحقیقات کے لئے الیکشن کمیشن کو تحقیقات کرنے کا حکم دیا۔ بالکل ویسے ہی جیسے سابق وزیراعظم پر پانامہ لیکس میں نام آنے اور اپنے دو ادوار میں کرپشن کرنے کے الزامات کی تحقیقات کرنے کے لئے سپریم کورٹ نے نیب میں ریفرنسز بھی بھجوا دیے اور معزز ججز نے نواز شریف کو ایسے جرم کی پاداش میں نا اہل کردیا۔ جس کی استدعا پانچ درخواست گزاروں میں سے کسی نے کی بھی نہیں تھی۔ اتنا بھی انتظار نہیں کیا کہ نیب ریفرنسز میں اگر میاں صاحب کرپٹ ثابت ہوگئے تو خود بخود نا اہل ہوجائیں گے۔

سپریم کورٹ کی طرف سے نواز شریف اور جہانگیر ترین کو نا اہل اور عمران خان کو صادق اور امین قرار دینے کے فیصلوں کو دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ،
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکرنہ تھا
وہ بات ان کوبہت ناگوار گزری

یاد رہے کہ 2013 کے عام انتخابات میں راولپنڈی کے حلقہ این اے 56 سے عمران خان نے درخواست گزار حنیف عباسی کو تقریباً 13 ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).