لاہور کا نام ”بدھو کا آوا“ رکھا جائے


ظالم انگریزوں اور ان غیر مسلموں، جن کا میں نام بھی نہیں لینا چاہتا، کے راج سے آزادی کے بعد بجا طور پر تمام غلط نام درست کیے جانے لگے ہیں۔ مثلاً رام کی گلیاں اب رحمان کی گلیاں ہیں، کرشن نگر اور سنت نگر اور اسلام پورہ ہیں، گڑھ مہاراجہ اب گڑھ بغداد قرار پایا ہے، للیانی کا مصطفی آباد بن گیا ہے۔ بھارتی بھی ہماری نقل کر رہے ہیں۔ وہ مدراس کو چنئی، بنگلور کو منگلور، بمبئی کو ممبئی وغیرہ کر رہے ہیں لیکن ہم ان سے کئی قدم آگے ہیں۔

اب یہی دیکھ لیں کہ ہم نے غیر مسلم ناموں کے علاوہ ان ناموں کو بھی بدلنا شروع کر دیا ہے جو ہمارے ریت رواج یا قومی امنگوں کے خلاف ہیں۔ مثلاً لائلپور دور غلامی کی یاد دلاتا تھا، اسے فیصل آباد کر دیا ہے (یاد رہے کہ ہم سعودیوں کے غلام نہیں ہیں)۔ کیمبل پور اب اٹک ہو گیا ہے۔ بھائی پھیرو اب پھول نگر ہے۔

لیکن کچھ نام قومی امنگوں کی خاطر بھی بدلے گئے ہیں۔ مثلاً پیپلز یونیورسٹی اب علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کہلانے لگی ہے۔ پیپلز کا بھلا تعلیم سے کیا لینا دینا؟ ویسے بھی یہ گمراہ کن نام ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کی یاد دلاتا تھا۔ اسلام آباد یونیورسٹی اب قائداعظم یونیورسٹی کہلاتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ نام کا شخصیت پر اثر پڑتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے یہ یونیورسٹی اسلام سے دور ہٹ کر مزاج میں کچھ سیکولر سیکولر سی ہو گئی ہے۔ دیانند اینگلو ویدک کالج اب محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کہلاتا ہے۔ ویسے علما کو اس کا نام مزید درست کرنا چاہیے۔ محمڈن تو انگریز کے دور میں مسلمانوں کو کہا جاتا تھا۔ بہتر ہے کہ اس کا نام مسلم قادری کالج کر دیا جائے۔

گنگا رام ہسپتال کا نام تبدیل کر کے اسے داتا صاحب ہسپتال کیا جا سکتا ہے، جیسے گنگا رام کے بنائے ہوئے بالک رام میڈیکل کالج کا نام فاطمہ جناح میڈیکل کالج رکھ دیا گیا تھا۔ دیال سنگھ کالج اور دیال سنگھ لائبریری کا نام بھی داتا صاحب کالج اور داتا گنج بخش لائبریری کرنا چاہیے۔

ان درخشاں روایات اور اپنے ماضی پر شرمندگی کو دیکھتے ہوئے ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ ہندو دیوتا رام چندر کے بیٹے لوہ کے نام پر آباد لاہور کا نام کیوں نہیں تبدیل کیا جاتا؟ لاہور تو پاکستان کا قلب ہے۔ کیا یہ مناسب ہے کہ قلب ہی مسلمان نہ ہو؟

یہ سوچنا ہو گا کہ لاہور کا نیا نام کیا ہو سکتا ہے۔ لاہور کو ہندوستان کا دارالحکومت بنانے والا مغل بادشاہ اکبر تھا، مگر اس کے عقائد کی وجہ سے اکبر آباد نام رکھنا ممکن نہیں ہے۔ جہانگیر نے بھی ادھر بیٹھ کر حکومت کی۔ بلکہ اسے تو لاہور اتنا پسند تھا کہ اس نے یہی دفن ہونا پسند کیا۔ لیکن جہانگیر آباد نام رکھا گیا تو کوئی پتہ نہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت آنے پر اسے جہانگیر ترین کو الاٹ کر دیا جائے۔ احتیاط بہتر ہے۔

جہانگیر کے دور کی اسٹیبلشمنٹ یعنی ملکہ نور جہاں بھی لاہور کی عاشق تھی۔ اس نے جہانگیر پر کسی وجہ سے عشقیہ شاعری کرنا مناسب نہیں سمجھا تو لاہور پر کرنے لگی۔ ”لاہور را بجاں برابر خریدہ ایم۔ جاں دارہ ایم و جنت دیگر خریدہ ایم“۔ کہ لاہور کو ہم نے اپنی جان کے عوض خریدا ہے۔ جان دی ہے اور اس کے بدلے ایک جنت خرید کی ہے۔ لیکن نور جہاں پورہ رکھنا بھی غلط ہو گا۔ لوگ یہ سمجھ لیں گے کہ ملکہ ترنم نور جہاں کے نام پر رکھا گیا ہے اور لاہوریوں کو اللہ وسایا کہنے لگیں گے۔ ملکہ ترنم کا اصلی نام تو اللہ وسائی ہی تھا۔

شاہ جہاں اور اورنگزیب وغیرہ کو لاہور سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ رنجیت سنگھ کشیر اور درہ خیبر سے لے کر ملتان تک کی بڑی پنجابی سلطنت کا حکمران تھا مگر وہ مسلمان نہ ہوا۔ اس کا نام تو لینا بھی نہیں چاہیے۔ ویسے بھی رنجیت نگر سے یہی تاثر ابھرے گا کہ یہاں ”رن کی جیت“ ہوتی ہے۔ ایسا عورت راج یہاں کے غیور عوام برداشت نہیں کر سکتے۔

لاہور کا نام قائد اعظم ٹاؤن رکھا جا سکتا تھا۔ مگر اس کے ہجے مشکل ہیں۔ اقبال ٹاؤن پر بھی غور کیا جا سکتا تھا مگر لاہور کے اندر پہلے ہی ایک اقبال ٹاؤن ہے۔ مدینہ شاہ سلمان رکھنے کا اب کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ سعودیوں کے پاس ڈالر ختم ہو گئے ہیں۔ مناسب یہی ہے کہ لاہور کی تاریخ سے ہی کچھ دریافت کر لیا جائے۔

تاریخ دان اس بات پر متفق ہیں کہ لاہور کی بیشتر عظیم مغلیہ عمارات کی تعمیر بدھو نامی کمہار کی سلگائی ہوئی اینٹوں سے ہوئی تھی۔ بدھو کا آوا، یعنی بھٹا ابھی بھی لاہور میں موجود ہے اور ظاہر ہے کہ یہ لاہور کا قدیم ترین علاقہ ہی ہو گا۔ ہماری رائے مانیں تو لاہور کا ہندوانہ نام تبدیل کر کے اسے ”بدھو کا آوا“ کہا جانا چاہے۔ امید ہے کہ لاہور کے قابلِ فخر فرزند میاں نواز شریف اور عمران خان ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے اس تجویز سے اتفاق کریں گے۔ یہ قابلِ افسوس بات ہے کہ ایسے دو عظیم لیڈر یہاں موجود ہوں لیکن لاہور کا نام نہ بدلا جائے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar