انڈین رہنما آپس میں فیصلہ کرلیں کہ پاکستان کا اصل یار کون ہے


بات اتنی پرانی نہیں ہے لیکن 24 گھنٹے چلنے والے میڈیا اور اس سے بھی زیادہ سپیڈ سے چلنے والے سوشل میڈیا نے ہمارے حافظے کمزور کر دیے ہیں۔

اس لیے یاد دلاتے چلیں کہ ایک زمانہ تھا کہ پاکستان کے انتہائی اہل وزیراعظم نواز شریف ہوا کرتے تھے، وزیر خارجہ بھی خود ہی تھے۔ بھاری بھرکم مینڈیٹ ان کے پیچھے تھا۔

ایک دن خبر ملی کہ چھپن کی چھاتی والے وزیراعظم نریندر مودی ان کے گھر ایک تقریب میں پہنچ گئے۔ ساڑھیوں اور دوپٹوں کے تبادلے ہوئے۔ ایک شام کے لیے لگا کہ کچھ دعوت ڈپلومیسی جیسی چیز شروع ہونے جا رہی ہے۔

شام ابھی ڈھلی بھی نہیں تھی کہ ایک ٹی وی چینل پر ایک لاہوری رپورٹر نمودار ہوا۔ کانوں کو ہاتھ لگا کر اللہ سے معافی مانگتا جاتا تھا اور ہمیں بتاتا جاتا تھا کہ دیکھو اتنے ہندوستانی لاہور ایئرپورٹ پر اتر گئے۔ ان کو ویزے کس نے دیے، ان کا کسٹم کس نے کیا۔

رپورٹر کی بےتابیاں اور اللہ میاں سے معافیاں دیکھ کر یوں لگا کہ جیسے ایک ملک کا وزیراعظم ہمسایہ ملک کے وزیراعظم کے گھر دعوت پر نہیں آیا بلکہ مریخ کی کسی مخلوق نے لاہور پر حملہ کر دیا ہے اور لاہور والوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ انھیں شاہی قلعے میں بند کر دیں یا فوڈ سٹریٹ کا چکر لگوا لائیں۔

اس دن کے بعد سے ہمارے میڈیا میں، ہمارے دھرنوں میں اور ہمارے محب وطن تجزیوں میں نواز شریف کو مودی کا یاد ٹھہرایا جانے لگا۔ دیکھو نواز شریف کے خلاف جب بھی کوئی تحریک اٹھنے لگتی ہے، جب بھی کوئی کیس بننے لگتا ہے، مودی سرحد پر ایک نیا محاذ کھول دیتا ہے۔

نواز شریف کو گھر پہنچانے کے لیے مودی کی یاری کے الزام کی ضرورت نہیں تھی اس کے لیے ان کے اپنے اکاؤنٹنٹ اور وکیل ہی کافی تھے۔

مودی نے کبھی پیچھے مڑ کر بھی اپنے جاتی امرا کے میزبانوں کی طرف نہیں دیکھا اور پوری دنیا میں نئے یار بنانے چل پڑا۔ دنیا کا کون سا ایسا بڑا لیڈر ہے جو اس کی چھپن کی چھاتی والی جپھی میں نہیں کسمسایا۔

کاش دنیا کے رہنماؤں نے منا بھائی ایم بی بی ایس دیکھی ہوتی تو انھیں سمجھ آتی کہ مودی جادو کی جپھی ڈال کر دنیا کے سارے مسئلے حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ادھر یہاں پاکستان میں نواز شریف پہلے لیڈر نہیں جن پر دشمن سے یاری کا الزام لگا ہو۔ بےنظیر بھٹو تو بچپن سے ہی سکیورٹی رسک تھیں۔ پختونخوا، سندھ اور بلوچستان میں سے سارے قوم پرستوں کی ازل سے را پرورش کرتی رہی ہے۔ اب عمران خان کے ناقد بھی ان کے سابق سسرال کے ذریعے صیہونی رابطے تلاش کرتے ہیں۔ ہمارے مذہبی رہنماؤں پر بھی کبھی سعودی عرب تو کبھی ایران اور کبھی اپنے طالبان بھائیوں کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگتا رہتا ہے۔

وزیر اعظم مودی لگتا ہے صرف چند گھنٹوں کی لاہوری مہمان نوازی سے اپنے سیاسی مخالفین کو غدارِ وطن بنانے کا ہنر سیکھ گئے ہیں۔

جس ریاست گجرات کو لیبارٹری بنا کر اپنے دشمنوں کو بھسم کرنے کا گُر انھوں نے سیکھا تھا وہاں پر ایک مشکل الیکشن کا سامنا کرنا پڑا تو الزام لگا دیا کہ کانگریس اور انڈیا کے سابق آرمی چیف پاکستان کے ساتھ مل کر انھیں الیکشن ہرانے کی سازش کر رہے ہیں۔

مودی پہلے بھی اپنے سیاسی مخالفین کے لیے کافی رنگین زبان استعمال کرتے رہے ہیں۔ راہل گاندہی کو ولایتی بچھڑا اور ان کی والدہ کو ناقابل اشاعت القابات سے نواز چکے ہیں۔ زبان کی چاشنی کےمعاملے میں وہ کبھی کبھی اپنے امیرالمجاہدین خادم رضوی کی طرح لگتے ہیں۔ لیکن لگتا ہے یہاں بھی انڈیا ہم سے بازی لے گیا ہے۔ ہمارے امیرالمجاہدین ایک استعفے اور ایک ہزار کے نوٹوں والے لفافے پر راضی ہو گئے تھے۔

مودی مہاتما گاندھی کے نظریات کو تو کب کے دفن کر چکے اب اندرا گاندھی کی اگلی نسلوں تک کو گھر تک پہنچانے کے در پے ہیں۔

ایک دفعہ غدار کہنے کی بیماری شروع ہو جائے تو یہ اتنی تیزی سے پھیلتی ہے جیسے مرغیوں میں کوئی وبا پھیلتی ہے۔ مودی کے الزامات کی گونج ابھی تک ختم نہیں ہوئی تھی کہ بھارت کے سابق وزیراعظم من موہن سنگھ نے یہ بیان داغ دیا کہ یہ بتاؤ کے نواز شریف کے گھر دعوت اڑانے کون گیا تھا۔ پٹھان کوٹ میں پاکستانی خفیہ اداروں کو رسائی کس نے دی تھی۔ یعنی اصلی پاکستانی ایجنٹ تو مودی بنے۔

مودی نے اپنے الزامات میں کسی سابق فوجی کے فیس بک پوسٹ کا بھی حوالہ دیا ہے۔ ان سے یہی عرض کی جا سکتی ہے کہ حضور اگر قوم کی تقدیر کے فیصلے ریٹائرڈ فوجیوں کی فیس بک پر لکھی تحریروں سے ہیں تو ذرا مشکل ہو سکتی ہے، کیونکہ ان کے مطابق لال قلعہ تو آج فتح ہوا یا کل ہوا۔

پاکستان کی وزارت خارجہ نے اپنے فرائض کی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے بیان دے دیا ہے کہ بھارت پاکستان کو اپنے اندرونی معاملات میں نہ گھسیٹے۔ ہم سے اپنے معاملات ہی نہیں سنبھالے جاتے۔

کاش بیان میں یہ بھی کہہ دیتے کہ ہندوستانی رہنما آپس میں فیصلہ کرلیں کہ پاکستان کا اصل یار کون ہے، تاکہ اگلی دفعہ غلط بندے کو دعوت پر نہ بلایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).