کیا آنگ سوچی پر روہنگیا نسل کشی کے الزام میں مقدمہ چلے گا؟


میانمار،آن سان سوچی

رادالحسین نے میانمار میں تشدد کے واقعات سے چھ ماہ پہلے ہی مس سوچی سے روہنگیا مسلمانوں کے تحفظ کی درخواست کی تھی لیکن کچھ نہ کیا گیا

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے نگراں ادارے کے سربراہ زید رادالحسین روہنگیا افراد کے خلاف ہولناک جرائم میں مصروف عمل لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے پرعزم ہیں۔

اپنے عہدے کی وجہ سے ان کی رائے وزن رکھتی ہے۔

وہ اس امکان کو مسترد نہیں کرتے کہ سویلین رہنما آنگ سانگ سوچی اور مسلح افواج کے سربراہ جنرل آن من لائینگ مستقبل میں کسی وقت اپنے آپ کو نسل کشی کے الزام میں انصاف کے کٹہرے میں کھڑے ہوں۔

اس ماہ کے آغاز میں زید رادالحسین نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو بتایا کہ میانمار میں روہنگیا کے خلاف بڑے پیمانے پرمنظم نوعیت کے ظلم وستم کا مطلب ہے کہ نسل کشی کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔

اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز میں بی بی سی پینوراما کے لیے جب ہم ہائی کمشنر سے ملے تو انھوں نے کہا کہ ‘فوجی آپریشن کے پیمانے کو دیکھا جائے تو یہ واضح ہے کہ یہ فیصلے اعلیٰ سطح پہ لیے گئے۔’

نشل کشی ایک ایسا لفظ ہے جو بہت زیر بحث آتا ہے۔ یہ لفظ خوفناک محسوس ہوتا ہے جسے سب سے بڑا جرم کہا جاتا ہے لیکن آج تک چند ہی لوگوں کو اس جرم پر سزا سنائی گئی ہے۔

ہولوکوسٹ کے بعد اس جرم کی وضاحت کی گئی۔ اقوام متحدہ میں شمولیت اختیار کرنے والے ممالک نے ایک قرار داد پر دستخط کیے جس میں نسل کشی کی وضاحت ایک ایسے جرم کے طور پر کی گئی جو کسی ایک خاص گروپ کو ختم یا تباہ کرنے کی نیت سے کیا جائے۔

یہ زید رادالحسین کا کام نہیں ہے کہ وہ نسل پرستی کی کارروائیوں کو ثابت کریں، صرف ایک عدالت کے ذریعے ہی ایسا ممکن ہے۔ لیکن انھوں نے ان جرائم کے خلاف بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کردیا ہے جنھیں وہ میانمار کی ریاست رخائن میں مسلمانوں کے نسلی گروہ کے خلاف ‘حیران کن سفاکانہ حملے’ قرار دیتے ہیں۔

لیکن ہائی کمشنر نے تسلیم کیا ہے کہ یہ کیس بنانا مشکل ہوگا۔ ‘اس کی وجوہات واضح ہیں کہ اگر آپ نسل کشی کا ارتکاب کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں تو ایسا آپ کاغذ پر نہیں کرتے اور آپ ہدایات فراہم نہیں کرتے ہیں۔’

انھوں نے کہا کہ ‘ثبوتوں کے لیے تشویش بہت زیادہ ہے۔ لیکن مجھے حیرانی نہیں ہوگی اگر مستقبل میں ایک عدالت اس بنیاد پہ ایسا کوئی فیصلہ دیتی ہے۔’

اگست میں فوجی آپریشن کے بعد سے لے کر دسمبر کے آغاز تک میانمار میں روہنگیا آبادی کا دو تہائی حصہ یا تقریباً چھ لاکھ 50 ہزار رونگیا افراد ملک چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور ہوگئے۔

سینکڑوں دیہات جلا دیے گئے اور ہزاروں افراد کی ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں۔

وہاں قتل عام، قتل، بڑے پیمانے پر ریپ جیسے خوفناک مظالم کے ارتکاب کے ثبوت موجود ہیں جو اس بحران کے آغاز پر پناہ گزینوں کے کیمپوں میں میں نےخود سنے۔

روہنگیا پناہ گزین

مسٹرزید نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کاؤنسل کو بتایا کہ میانمار میں روہنگیا کے خلاف بڑے پیمانے پرمنظم نوعیت کے ظلم وستم کا مطلب ہے کہ نسل کشی کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا

اقوامِ متحدہ میں انسانی حقوق کمیشن کے چیف کو جو بات زیادہ تکلیف دہ محسوس ہوتی ہے وہ یہ کہ انھوں نے اگست میں میانمار میں تشدد پھوٹنے سے چھ ماہ پہلے ہی آنگ سانگ سوچی سے درخواست کی تھی کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کے تحفظ کے لیے اقدامات لیں۔

انھوں نے کہا کہ فروری میں ان کے دفترکی ایک رپورٹ کے بعد انھوں نے سوچی کو ٹیلیفون کیا تھا جس میں اکتوبر 2016 سے شروع ہونے والی تشدد کی لہر کے دوران کیے گئے مظالم پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ ‘میں نے ان سے اپیل کی تھی کہ وہ فوجی آپریشن بند کریں۔ میں نے جذباتی انداز میں بھی اپیل کی تھی کہ وہ اسے ختم کرنے کے لیے جو بھی ہو سکے کریں۔ اور مجھے افسوس ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔’

سوچی کے اختیارات محدود ہیں لیکن زید رادالحسین کا ماننا ہے کہ انھیں فوجی کارروائی روکنے کے لیے مزید کوشش کرنی چاہیے تھی۔

انھوں نے سوچی کی جانب سے روہنگیا کی اصطلاح استعمال نہ کرنے کرنے پر تنقید کی اور سخت الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے کہا ’ان سے ان کا نام چھین لینا اس حد تک غیر انسانی ہے جہاں آپ یہ سمجھنا شروع کردیتے ہیں کہ کچھ بھی ممکن ہے۔’

میانمار کی حکومت کا کہنا ہے کہ فوجی آپریشن اگست میں سکیورٹی فورسز پر دہشت گرد حملوں اور اس میں 12 اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد شروع کیا گیا۔

لیکن بی بی سی پینوراما نے شواہد جمع کیے ہیں جس سے ظاہر ہے کہ رونگیا پر حملوں کی تیاری اس سے کہیں پہلے شروع ہوئی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp