بھوتوں کے سائے طویل ہو رہے ہیں


بھٹو صاحب کی حس مزاح تیکھی تھی۔ خاص طور پر انگریزی میں سطوت بیان سے کام لیتے تھے۔ اس پر حافظہ غضب کا پایا تھا۔ لاہور کے انٹرکانٹی نینٹل ہوٹل میں پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ ایک جملہ لڑھکا دیا، ’میں بھوتوں کے سائے سے بھی پرے کی بات کر رہا ہوں‘۔ پاکستان ٹائمز کے صحافی خالد حسن مرحوم اگلی صف میں بیٹھے تھے۔ لقمہ دیا؛’معاف کیجئے گا، بھٹو صاحب بھوتوں کا کوئی سایہ نہیں ہوتا‘۔ بھٹو صاحب سمیت سب لوگ کھلکھلا کے ہنسے لیکن بھٹو صاحب بات بھولے نہیں۔ حکومت میں آنے کے بعد خالد حسن بھٹو صاحب کے پریس سیکرٹری بن گئے ۔ بھٹو صاحب کی حکومت میں مولانا کوثر نیازی کو بہادر شاہ ظفر والے مرزا الہی بخش کا منصب حاصل تھا۔ مولانا نیازی نے بھٹو صاحب سے شکایت کی کہ خالد حسن ان کی وزارت میں مداخلت کرتے ہیں۔ بھٹو صاحب نے فائل پہ خالد حسن کے لیے تادیبی نوٹ لکھا،’دوبارہ ایسی شکایت نہیں ملنی چاہئیے…. اور تمہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ بھوتوں کے سائے ہوتے ہیں‘۔ بظاہر تو خالد حسن کو ان کی شوخ چشمی یاد دلائی تھی لیکن مولانا کوثر نیازی کا قافیہ بھی بھوت سے ملا دیا تھا۔ ایک تیسرا زاویہ بھی جملے میں موجود تھا۔ بھٹو صاحب اندرون ملک اور بیرون ملک بھوتوں کو پہچانتے تھے۔ ابھی برادر محترم سہیل وڑائچ نے سیاست کی بساط پر سیانوں اور بھولوں کی صف بندی کی ہے۔ کیسا بولتا ہوا کالم لکھا ہے، مگر یہ کہ شاطر کا ذکر نہیں کیا۔ برادر محترم بتاتے بھی کیسے؟ اقبال نے کہہ رکھا ہے، فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ…. فیض صاحب نے کہا تھا، اس طرح ہے کہ پس پردہ کوئی ساحر ہے….

دیکھیے، کل کے سیانوں کو بھولا بننے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے اور جو آج کے سیانے ہیں، بالآخر انہیں بھی بھولا بننے کی آزمائش دیکھنا ہو گی۔ وہ ترے حسن کا جادو ہو کہ میرا غم دل/ ہر مسافر کو اسی گھاٹ اتر جانا ہے۔ اور ہماری سیاست تو ایسی پھسلواں ڈھلوان ہے کہ سیانے اور بھولے ایک اذیت ناک یکسانیت کے ساتھ فنا کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ شاعر غریب پکارتا رہ جاتا ہے، کوئی جا کے جہاں سے آتا نہیں، اس دیس نہ جاؤ انشا جی۔

پرانے بزرگ کہتے تھے کہ جنگلوں اور ویرانوں میں بھوتوں کا بسیرا ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں بھوت اترے تو انہیں بستیوں میں ٹھکانہ کرنے کی سوجھی۔ پندرہ برس تک کراچی میں ایک بستی آباد تھی۔ مشرقی پاکستان کے بھولے وہاں آسانی سے آ جا سکتے تھے۔ ادھر شاطروں، ساحروں کا ٹھکانہ ملک کے شمال وسط میں تھا۔ الف لیلی کی شہر زاد کو یہ مسافت گراں گزرتی تھی۔ چنانچہ دل زدگاں کی فتح پور سیکری کو اٹھا کے سطح مرتفع پوٹھو ہار کے ٹیلوں میں رکھ دیا۔ غلام عباس کا افسانہ آنندی تو ہم سب نے پڑھ رکھا ہے۔ اس افسانے میں شہر کو برائی کے آسیب سے پاک کرنے کے لیے بھوتوں کا کارخانہ مضافات میں منتقل کر دیا تھا۔ تجربے سے معلوم ہوا کہ یہ قضیہ مکان کا نہیں، مکینوں کا ہے۔ اہل دل جہاں جائیں گے، جادو کی چھڑی، سامری کا بچھڑا اور نظر پوش ٹوپی ہمراہ جائے گی۔ جہاں پڑاو¿ ڈالا جائے گا، بھوت نگر آباد ہو جائے گا۔

تین روز قبل قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق گویا ہوئے، صورت حالات کو کس صراحت سے کھول کے رکھ دیا۔ نپے تلے الفاظ تھے، درد کا بیاں تھا، یاس کا لہجہ تھا، یہاں تک کہہ دیا کہ میری آنکھ دیکھ سکتی ہے…. ایاز صادق کو خبر نہیں تھی کہ ’بیان غم سے ہو گا غم آرزو دو چنداں….‘ محترم سہیل بھائی نے بھولوں کی فہرست گنواتے ہوئے سردار ایاز صادق کو بھی شامل کر دیا۔ اس میں کسی نیک شگون کا اشارہ نہیں۔ ہمارے ملک کے بانی رہنما بھی بھولے تھے۔ قائد اعظم، لیاقت علی خان، عبدالرب نشتر اور خواجہ ناظم الدین بھولے تھے۔ بھٹو صاحب کبھی سیانے تھے، پھر اس قدر بھولے ہوئے کہ صادق قریشی، سردار حیات تمن اور کوثر نیازی کے ہاتھوں میں پہنچ گئے۔ ہم نے ایک سے زیادہ دفعہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو بھولا بنتے دیکھا۔ اہل دانش کہتے ہیں کہ سیاست دان اپنی اصل میں بھولا یا سیانا نہیں ہوتا، سیاست کی بساط پہ بھوت قبضہ کر لیں تو سیاہ و سفید مہروں کا کھیل بھولے اور سیانے کی صف بندی بن جاتا ہے۔ ہم نے تو یہ بھی دیکھا کہ پوری بساط ہی اٹھا کے اغیار کی دہلیز پہ رکھ دی۔ یہ کھیل تو اپنے دیوان خانے میں سفید چاندنی پر شرافت کی بہار دیتا ہے۔ اس کھیل کے آداب سے منہ پھیر لیا جائے تو منشی پریم چند کی کہانی ’شطرنج کے کھلاڑی‘ سے برآمد ہونے والے بھوت کھیل کا انجام بدل دیتے ہیں۔ اگر آپ کو کچھ تفصیل جاننا ہو تو جمعے کے روز امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے واشنگٹن میں ’2017 اور اس کے بعد خارجہ پالیسی کے چیلنجز‘ پر ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے حقانی نیٹ ورک اور پاکستان کے بارے میں بات کی ہے۔ اس گفتگو میں ریکس ٹلرسن نے یہاں تک کہہ دیا کہ کہ پاکستان کا علاقہ دہشت گردوں کے قبضے میں جا سکتا ہے اور وہ اپنی خود مختاری سے محروم ہو سکتے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ کا یہ انتباہ بے حد خوفناک ہے۔ اس پر غور کرنا چاہیے۔

مشکل یہ ہے کہ اگر سارا ملک ہی بھولوں اور سیانوں میں بٹ جائے تو قوم کی نفسیات بادشاہ لوگ ہو جاتی ہے۔ اگر ہم ملک کی قسمت دھرنوں، عدالتی فیصلوں اور بے کار کی رسہ کشی ہی سے طے کرنا چاہتے ہیں تو لاہور اور پشاور میں دو جلوس اور نکال لیں۔ جنوری میں اسلام آباد جا بیٹھیں، حلقہ بندیوں کے قانون پر سر پھٹول کریں۔ فاٹا کے انضمام پر طلسم ہوشربا کی نئی جلد لکھیں۔ وسطی پنجاب کے پیران خود آگاہ کی اقتدا میں صفیں باندھ لیں۔ اور اس حقیقت سے چشم پوشی فرمائیں کہ سی پیک پر ہماری امیدوں کے مرکز دوست ملک کا لہجہ تبدیل ہو رہا ہے۔ اور اگر طبع رسا کو منظور ہو تو سیانوں کو بھولا اور بھولوں کو سیانا قرار دیں۔ پھر بھی طبیعت میں ترفع کے آثار پیدا نہ ہوں تو لاہور کے کسی خوش بیاں مولانا صاحب کو اذن خطاب دے دیں۔ اس سے قید حیات اور بند قبا کے راز افشا ہوں گے، تاہم اس سے وہ حالات درست نہیں ہو سکتے جن کی طرف محترم ایاز صادق نے اشارہ کیا ہے۔ بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ ہماری زمین پہ بھوتوں کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ دیوانی کا مقدمہ یہ ہے کہ اگلے برس مارچ میں ایوان بالا اور اس کے آس پاس قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بھلے مثالی طور پہ بھی منعقد ہو جائیں یہ جھگڑا طے نہیں ہو گا کہ نامعلوم افراد کو حقیقی سیاسی قوتوں کا مستحکم حکومت بنانا پسند ہی نہیں۔ اس دیوانی مقدمے سے فوجداری کٹا چھنی کی شاخیں پھوٹنے کے خدشات بھی موجود ہیں کیونکہ مقامی بھوتوں کے سائے ملک سے باہر تک پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ بلوچستان اور ملک کے دوسرے حصوں میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ایک مہینے میں پولیس کے متعدد اعلی افسران شہید ہوئے ہیں۔ فوجی جوانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، چرچ پہ خود کش حملہ کیا گیا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ گذشتہ برسوں میں خود کش حملہ کرنے والوں کی مزاحمت کرنے کی درخواست پر فرمایا جاتا تھا کہ یہ ہماری جنگ نہیں ہے۔ اور اب ہم نے ان عناصر کو بھی اپنے لوگ قرار دے دیا ہے جو بارود باندھ کے نہیں آتے، اشتعال کی دھمکی سے لیس ہوتے ہیں۔ یہ محض 2018 کے انتخابات کا قضیہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بھوتوں کے سائے ایک مدت سے مسلط ہیں اور اب یہ سائے طویل ہو رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).