ایک شام کا احوال، ایک رات کی کہانی


کچھ عرصہ ہوا ہے کہ اسلام آباد میں ہم سب کی کہکشاں کے ستارے باقاعدگی سے ایک جھرمٹ بناتے ہیں۔ شام ڈھلے یہ جھرمٹ نمودار ہوتا ہے اور رات کے پچھلے پہر تک روشنی بکھرتا ہے۔ کل یہ جھرمٹ ہمارے گھر اترا۔ دعوت تو لاہور کے دوستوں تک بھی پہنچی پر حسنین، عدنان، تنویر اور وجاہت دور بہت ہیں تو ہم ان کی صحبت سے کبھی کبھی ہی فیض یاب ہو پاتے ہیں۔ عثمان قاضی کے آنے کی خبر کسی کو نہ تھی تو ہم ان سے بھی محروم رہے۔ حسن معراج تو ہیں ہی دور دیس۔ ہاں ڈاکٹر اختر علی سید آئر لینڈ سے ادھر اترے، ادھر ہم نے ان کو قابو کر لیا کہ ایسا موقعہ روز روز ہاتھ نہیں آتا۔ انجمن سجی تو صرف گفتگو ہی نہیں ہوئی، عرصام ہراول حاشر کی فلم کی سکریننگ بھی ہوئی۔ علی زریون اور عاصم بخشی کی شاعری بھی سنی گئی، وجیہہ نظامی کے ستار سے راگ بھی بہتے رہے اور تیمور رحمان کی خوبصورت آواز میں غزلیں بھی تصویر ہوتی رہیں۔ تمام قصے کی روداد لف ہے کہ سند رہے۔

میر محفل ڈاکٹر اختر علی سید اور یار من جمشید اقبال بولتے ہوں تو سب پھر صرف سنتے ہیں۔ وہ الگ بات کہ وسی بابا نے اسے ایک عبرت ناک علمی بحث قرار دیا اور عبرت اپنے توشے میں ڈال کر اسی بہانے جلدی فرار ہو گئے۔ نوید تاج غوری کل کم اداس تھے بلکہ ایک آدھا لطیفہ بھی سنا بیٹھے۔ اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں۔

ہمیں لگا کہ علی حمید پچھلی تین ملاقاتوں میں اپنی بیٹری خرچ کر چکے ہیں اس لیے پہلے ہاف میں خاموش ہیں تاہم انٹرول کے بعد کھانے کے سر پر وہ مکمل چارج پائے گئے اور مکالمے کی نئی جہات عدم سے وجود میں آتی رہیں۔

سلیم ملک صاحب کے کچھ شکوے اس لیے دور نہ کیے جا سکے کہ ہمارا گھر لینہ کے حکم کا پابند رہتا ہے اور کچھ اس لیے کہ ان کی اپنی نصف بہتر بھی ہمراہ تھیں۔ باقی راوی کے مطابق وہ اس خشک سالی میں جتنا محظوظ ہو سکتے تھے سو ہوئے

ظفر اللہ خان کی بات تو گھر کی بات ہے۔ کل وہ اور ہم عبرت ناک علمی بحث میں لقمے دینے تک محدود رہے تاہم کھانے کی میز پر ظفر نے اپنے لقمے خوب پورے کیے۔ ان کی یاد آئی جب تیمور میاں نے اقبال کی غزل کا مصرع اٹھایا کہ ”ید بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں“۔ اک جہان حیرت ہو گا جہاں اس قبیل کی آستینیں دستیاب ہوں گی

علی زریون بہت دور سے بطور خاص آئے۔ ان کی شاعری سنی۔ لینہ کے لیے لکھی گئی نظم عنایت ہوئی جو اب بھی علی کی خوبصورت آواز میں دیواروں میں رچی ہوئی یے۔ علی، تم خوش رہو، مست رہو اور ہوں ہی جان محفل بنے رہو۔

امام بخشی سے توقع تو یہ رکھی گئی کہ وہ علمی بحث کے عبرت ناک تسلسل کو وقفے کے بعد قائم رکھیں گے پر وہ امام ہی کیا جو مقتدی کو ایک نئی دنیا میں نہ لے جائے۔ کل ان کی شاعری نصیب ہوئی اور کیا خوب نصیب ہوئی۔ ابھی تک اس کا نشہ باقی ہے

زنیرہ کو دعوت پر کھینچ لانا خان صاحب کو نا اہل قرار دینے سے زیادہ غیر ممکن تھا۔ لیکن اس مقابلے میں بالآخر جیت خان صاحب کی ہوئی۔ یہ تصاویر بھی زنیرہ ہی کی مرہون منت ہیں۔

وجیہہ کے بارے میں یہ بتانا اب مشکل ہو گیا ہے کہ اس کی گفتگو زیادہ سریلی یے یا اس کے ستار سے بہنے والے سر۔ ہم ہر دو صورت مبہوت ہی رہے۔

تیمور جب تان اٹھاتا ہے تو ہر بار لفظ کو نئے معنی ملتے ہیں اور ہر بار احساس کا ایک نیا در وا ہوتا ہے۔ جیتے رہو دوست۔ اس بے رنگ فضا میں یوں ہی بولڈ سٹروک لگاتے رہو۔

مودودی صاحب نے تفصیل سے تو نہیں لکھا لیکن بین السطور پتہ لگتا ہے کہ قریش کو محض خلافت ہی نہیں، وقار بھی سونپ دیا گیا تھا۔ ہم قریش کے اس حق پر کبھی کبھی ڈاکہ ڈالتے ہیں کہ ایسی خوبصورت صحبت پر چوری کا سہی، کچھ حق تو ہمارا بھی ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ وقار بھی اقبال کی طرح ہمیشہ دیر سے آتا ہے۔ پر ہم یہی سوچ کر چپ رہتے ہیں کہ نہ آنے سے تو بہتر ہے۔

فرنود کی گمشدگی کی رپٹ لکھا دی گئی ہے۔ اگرچہ اس میں ان پر خدا کا نام لینے کا الزام عائد نہیں کیا گیا۔ باقی ایف آئی آر کا متن شئیر کرنے کے قابل نہیں ہے۔

عتیق دوست بھی ہے۔ بھائی بھی۔ آثار یوں ہیں کہ ہمارے باعث گھر سے نکالا بھی جائے گا پر ابھی دہی بھلوں کا بند باندھ کر ہونی کو کچھ عرصے کے لیے ٹال دیا گیا ہے۔

کل عرصام بھی شریک رہا۔ اس کے بنائی گئی فلم سب نے دیکھی۔ محبت میں گندھی ستائش سے قیمتی کیا ہو گا بھلا۔ ہم اس کے ہنر پر نازاں ہیں۔ رہتے ہیں۔

یہ جو یہاں کچھ دیوانے، کچھ فرزانے اکٹھے ہو جاتے ہیں اس میں سارا کمال لینہ کا ہے۔ ہماری تین بٹا چار بہتر کی محنت اور محبت کے طفیل ہمارے دوست کشاں کشاں چلے آتے ہیں۔ ہم تو انگلی بھی نہیں کٹاتے پر شہیدوں میں نام لکھائے بیٹھے ہیں تو وہ بھی لینہ ہی کے دم سے۔ کہیں روز حشر آ ہی گیا وہ وہاں بھی ترازو میں لینہ سے ہی ادھار ملی نیکیاں ڈالنی ہوں گی وگرنہ بس تہی دامن ہیں اور کیا۔

شرابِ شوق می نوشم، بہ گردِ یار می گردم
سخن مستانہ می گویم، ولے ہشیار می گردم

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad