دیواروں کا جنگل اور قانون


میٹرک میں ہماری کلاس میں ایک لڑکی تھی۔ جس کے بارے میں یہ کہتے ہوئے اچھا نہیں لگتا کہ وہ پڑھائی میں نہایت لائق تھی۔ میٹرک میں بھی اسے لکھنے اور پڑھنے میں بہت مشکل پیش آتی تھی۔
وہ ہم سے عمر میں بھی بڑی تھی۔ کئی سال وہ اپنی تعلیم کسی وجہ سے جاری نہ رکھ پائی تھی۔ اُس کے والد محترم سکول کے پرنسپل کے دوست تھے تو اِس وجہ سے بغیر ٹیسٹ کے اُس سکول میں داخلہ مل گیا تھا۔

ایک دِن ہماری اردو کی ٹیچر نے اسانمنٹ دی کہ ہم محاوروں کا مطلب بیان کریں۔ جس لڑکی کا ذکر اوپر کیا ہے، ٹیچر نے اُس سے ’’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘ کے محاورے کا مطلب بیان کرنے کو کہا تو وہ کچھ یوں بتانے لگی کہ ’’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک دیہاتی لڑکے کے پاس ایک بھینس تھی جس کا رنگ کالا تھا۔ لڑکے نے بھینس کو بہت لاڈ سے رکھا ہوا تھا۔ لڑکے کے پاس ایک لاٹھی بھی تھی اور اُس نے کہا جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘۔

اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گئی۔ کلاس نے ہنسنا شروع کر دیا اور ٹیچر کا منہ اور آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی۔ ٹیچر نے اُسے سزا دی کہ وہ کلاس میں کھڑی رہے گی۔ باقی کی لڑکیوں سے اپنی ہنسی کنٹرول کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ ٹیچر نے اُس لڑکی کا غصہ ساری کلاس پر نکالا کہ ہم سب کو بھی کھڑا کر دیا۔ کلاس کے بعد وہ لڑکی کہنے لگی کہ تم لوگوں کے ہنسنے کی وجہ سے آج مجھے سزا ملی ہے۔

مجھے ڈاکومنٹری فلمیں دیکھنے کا شوق بچپن سے ہی تھا۔ بچپن میں ہی امریکہ کے کسی جنگل کی ڈاکومنٹری فلم دیکھی تھی۔ یہ فلم دیکھ کر اِس محاورے کی بھی کچھ سمجھ آ گئی کہ ’’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘ کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔ اُس وقت اخلاقی کہانیاں نصاب میں شامل ہوا کرتی تھیں۔ اِن کہانیوں میں ’’جنگل کا قانون‘‘ جیسے جملے بھی ہوتے تھے۔

میرے لئے ہمیشہ ہی ’’جنگل کا قانون‘‘، ’’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘ جیسے محارے دِلچسپی کا باعث ہوتے تھے۔ یہ وہ دَور تھا جب میں ہر بات کی اپنے تخیل میں منظر کشی کرتی تھی۔ مَیں اپنے تخیل میں جنگل کا قانون بناتی، اُسے لاگو کرتی اور یوں ایک مہذب جنگلی ریاست وجود میں آ جاتی۔ مَیں سمجھتی تھی کہ حقیقت میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔

امریکہ کے جنگل کی ڈاکومنٹری فلم میں دِکھایا گیا تھا کہ کس طرح طاقتور جانور کمزور جانوروں کا شکار کرتے ہیں۔ شیر چیتے کا شکار کرتا ہے تو چیتا بکری کا۔ سانپ چھوٹے رینگنے والے حشرات کا شکار کرتا ہے تو عقاب سانپ کا۔

زیادہ حیرت مجھے جانوروں کے گروہوں پر ہوتی۔ ایک ہی جنس کے جانور مل کر رہتے ہیں۔ جانوروں کے جھنڈ میں اُن کا ایک لیڈر بھی ہوتا ہے جو باقی کے جانوروں کی راہنمائی کرتا ہے۔ بھیڑیوں کے ایک گروہ کے بارے میں بتایا گیا کہ بھیڑیے جب گروپ میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے سفر کرتے ہیں تو لیڈر سب سے پیچھے ہوتا ہے کہ اگر کیوں دوسرا جانور حملہ کرے تو وہ دوسرے بھیڑیوں کو اطلاع کر دے کہ وہ محتاط ہو جائیں۔ کمزور اور بوڑھے بھیڑیے درمیان میں سفر کرتے ہیں جبکہ جوان طاقتور بھیڑیے آگے اور پیچھے رہتے ہیں۔

یہ جانور ٹیم ورک بھی کرتے ہیں۔ شہید کی مکھیاں بہت دلچسپ زندگی گزارتی ہیں۔ ساری مکھیاں انڈے نہیں دیتی بلکہ چند مکھیاں ہوتی ہیں جو افزائش نسل کرتی ہیں۔ اِن مکھیوں کو ملکہ مکھی کہا جاتا ہے۔ کسی بھی چھتے کی باقی کی مکھیاں اِس ملکہ مکھی کی خدمت پر معمور ہوتی ہیں لیکن اگر یہ ملکہ مکھی انڈے دینے سے قاصر ہو تو باقی کی مکھیاں اُس کی خوب دھلائی بھی کرتی ہیں۔

ایک اَور دلچسپ بات یہ کہ جنگل میں کوئی بھی جانور اپنی ضرورت سے زیادہ شکار نہیں کرتا۔ حتیٰ کہ خون خوار جانور بھی اگر اُن کا پیٹ بھرا ہوا ہو گا تو وہ کسی جانور پر حملہ نہیں کرتے بشرطیکہ اُن کو کسی سے خوف لاحق نہ ہو جائے، کیونکہ دفاع کے لئے وہ جوابی حملہ کرتے ہیں۔ لیکن بھرے پیٹ سے خوانخوار جانور بھی ایک حد تک بے ضرر ہوتا ہے۔

جنگل میں قانون نافذ کرتے کرتے میں یونیورسٹی پہنچ گئی۔ یونیورسٹی گھر سے دُور تھی اور بس یا وین کا سفر کرنا ہوتا تھا۔ اِس سفر کے دوران میں نے اپنے اِرد گرد ایسا قانون نافذ دیکھا جس کا تصور میں نے اپنی جنگلی ریاست میں بھی نہیں کیا تھا۔ وین والے کا ٹریفک وارڈن بغیر کسی غلطی کے چالان کر رہا ہے اور اگر وین والا دلیل بازی کرے تو اُسے گالیاں سُننے کو ملتی ہیں۔ اِسی طرح وین والا سواری سے مقرر کرائے سے زیادہ کرایہ لے رہا ہے۔ اِس پر اگر سواری دلیل بازی کرے تو اُسے وین سے اُتر جانے کا کہا جا رہا ہے۔ اِس صورتِ حال میں بزرگوں اور خواتین کا لحاظ بھی نہیں کیا جا رہا۔ اگر شہری سواری کے ساتھ کوئی دیہاتی سواری بیٹھ جائے تو شہری سواری کرایہ زیادہ دینے کا غصہ اُس پر نکال رہی ہے۔

مَیں نے دیکھا کہ ہر کوئی اپنی ضرورت سے بڑھ کر ایک ہی بار جمع کر لینا چاہتا ہے۔ کرنٹ افئیرز کی کلاس میں اپنے ملک کے امرا و شرفا کی بے شمار دولت جمع کرنے کے سکینڈل پڑھتی تو حیران ہوتی کہ جتنی دولت اُنہوں نے جمع کر رکھی ہے وہ اُن کی کم از کم دس نسلوں کے لئے بھی کافی ہے۔ اپنے آنے والی نسلوں کی فکر کرنا اچھی بات ہے لیکن دولت کی ہوس میں دوسروں کو پاؤں تلے روند دینا میری سمجھ میں نہ آیا۔

مَیں نے اُن لوگوں کو دیکھا جن کے لیڈر اُن کو دھوکا دیتے ہیں لیکن بجائے لوگ اِن لیڈروں کا احتساب کرنے کے اُن کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔

مجھے ایسا لگا جیسے میں کسی ایسے جنگل میں ہوں جہاں ’’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘ والا قانون رائج ہے۔ کیا یہ واقعی مہذب انسانی ریاست ہے؟ یا پھر ’’دیواروں کا جنگل ہے آبادی جس کا نام‘‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).