باجا، بچے اور شکاری


ولیم گولڈنگ کا مشہور تشبیہاتی ناول ”لارڈ آف دی فلائیز “ ایک ویران جزیرے پر کچھ نہ بالغ لڑکوں کی خود پر حکومت کرنے کی بھونڈی کوشش کے بارے میں ہے۔ برطانیہ کا طیارہ ایک غیر آباد جزیرے میں گر جاتا ہے مگر جہاز میں موجود تمام لڑکے معجزاتی طور پر بچ جاتے ہیں۔ رالف نامی ایک لڑکے کو سیپ کا بنا ہوا ایک کونچ یا باجا ملتا ہے جس کی مدد سے وہ جزیرے کے مختلف کونوں میں بکھرے ہوے بچوں کو ڈھونڈ لاتا ہے اور ایک جگا اکٹھا کر لیتا ہے۔ لڑکے جن کی عمریں پانچ سے چودہ سال کے درمیان ہوتی ہیں، اس نتیچے پر بہت جلد پہنچ جاتے ہیں کے جزیرے میں زندہ رہنے کے لیے صبح و روز کچھ اھم فیصلے کرنا ہوں گے اور یہ فیصلے کچھ مخصوص لوگوں کو کرنا ہوں گے ورنہ جزیرے میں انتشار پھیل جاے گا اور کسی بھی طرح کا نظام چلنا نہ ممکن ہو جاے گا۔ سب بچے، متفقہ طور پر رالف کو اپنا حکمران منتخب کر لیتے ہیں کیونکے رالف نے ہی ایک بکھرے ہے گروہ کو اکٹھا کیا ہوتا ہے اور وہ اپنے پاس باجا ہونے کی وجہ سے تمام لڑکوں کو یکجا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔

رالف اپنی رعایا کو حکم دیتا ہے کے زندہ رہنے کی کوشش کریں، اچھا وقت گزاریں مگر ساتھ ساتھ لکڑی جلا کر دھویں کے بادل بھی بناتے رہیں تاکے اگر کوئی بحری جہاز جزیرے کے قریب سے گزرے تو دھواں دیکھ کر بچوں کی مدد کو ا سکے۔ جزیرے پر پھلوں کے ساتھ ساتھ وافر مقدار میں جنگلی سوربھی موجود ہوتے ہیں جن کا شکار کرنے کا بیڑا جیک اٹھا لیتا ہے۔ جیک اور اس کا گروہ، جو اس کیطرح کے بہادر اور لڑاکا لڑکوں پر مشتمل ہوتا ہے، لکڑی کے نیزے بنا کر دن رات شکار میں لگ جاتا ہے۔ یہ شکاری گروہ، رالف کے اقتدار کو قبول تو کر لیتا ہے مگر اس کے اکثر فیصلوں سے اتفاق نہیں کرتا۔ رالف اپنے عقلپند دوست پگی کے ساتھ مل کر جزیرے سے نکلنے کے نت نیے پلانز بناتا ہے مگر جیک اور اس کا شکاری گروہ ہر مسئلے کا حل زیادہ سے زیادہ شکار کرنے کو سمجھتا ہے۔ اسی دورران ایک بچہ جزیرے پر بھوت دیکھ لیتا۔ شروع میں تو اس بھوت پر کوئی یقین نہیں کرتا مگر بتجریج اس ان دیکھے دشمن کا خوف جزیرے بھر کے بچوں میں پھیلنا شروع ہو جاتا ہے۔ ایک خطرناک دشمن بھوت کی جزیرے پر موجودگی کا فائدہ جیک اور اس کے شکاری دوستوں کو ہوتا ہے کیونکے بھوت بھگانے کے لیے باجے کی نہیں، نیزے کے ضرورت ہوتی ہے۔

اور یوں ایک ایک کر کے بچے باجے والے رالف سے دور ہو کر نیزے والے جیک کے قریب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ شکاری گروہ آخرکار رالف سے باجا مانگ لیتا ہے کیونکے ان کی نظر میں اس باجے کے مستحق اب صرف شکاری ہی ہو سکتے ہیں۔ رالف، جیک کو وہ عہد یاد کراتا ہے جس میں رالف کو واضح اکثریت نے اپنا لیڈر منتخب کیا گیا تھا اور باجا دینے سے انکار کر دیتا ہے۔ جیک بچوں کی بھوت سے خوفزدہ اکثریت کو لے کر الگ بستی بسا لیتا ہے اور باجا، رالف اور پگی اکیلے رہ جاتے ہیں۔ اس اکیلے پن میں بھی رالف کو امید ضرور رہتی ہے کے ایک دن سب بچے اس کیطرف کھچے چلے آیں گے کیونکے باجا اس کے پاس ہے مگر یہ امید اس دن دم توڑ جاتی ہے جس دن جیک رالف سے اس کا بےوقعت سا باجا بھی چھین لیتا ہے۔

اس مملکت خداداد کے بالغ بچوں نے بھی ستر سال سے وہی تماشہ لگایا ہوا ہے جو گولڈن کے ناول میں برطانوی بچوں نے لگایا تھا۔ ایسے کھیل اور یہ کشمکش تو پتھر کے زمانے کے اور دنیا سے کٹےہوے معاشروں میں چلا ہی کرتی ہے، مگر افسوس اس بات کا ہے کے یہ کھیل ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہی لے رہا۔ باجے والوں کے پاس جب باجا اتا ہے تو وہ نیزہ بھی دوسرے ہاتھ میں پکڑنا چاہتے ہیں اور نیزے والے، باجے کو جیب میں رکھ کر نیزہ چلانا چاہتے ہیں۔ باجے والے اپنے باجے میں آج تک اتنی اخلاقی قوت نہیں پیدا کر سکے کہ لوگ اس کو طاقت کا سرچشمہ سمجھیں اور نیزے والوں نےجانور شکار کرنا چھوڑ کر صرف باجے توڑنا اپنا مقصد بنا لیا ہے۔ رہے ہم سب تماشبین تو ہم اسی انتظار میں ہیں کہ جب ان کا کھیل ختم ہو جاے تو کوئی ہمیں یہ بتاے کہ آگ جلا کر دھواں اڑانا ہے یا بارش سے بچنے کے لیے کسی سائبان کا انتظام کرنا ہے ۔ پھل کھا کر گزارا کرنا ہے یا جانوروں کا بھی کچھ بندوبست ہو گا۔ جب باجے کی آواز آیے تو دوڑے چلے جانا ہے یا نیزے والوں کی آواز پر لبیک کہنا ہے۔

اور ہان، گولڈن کے بچوں کی جان اسوقت چھوٹی جب برطانیہ کے فوجی جزیرے پر پہنچ گئے سب بچوں سے باجا اور نیزے چھین لیے۔ اپنے سے بڑے اور طاقتور مرددوں کو دیکھ کر تمام بچے دھاڑیں مار مار کر رونےلگے اور چپ چاپ جہاز میں بیٹھ کر فوجیوں کے ساتھ اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔ خدا نہ کرے مگر ہماری لڑائی بھی کچھ اسی طرح نہ ختم ہو جب آس پاس کے یا دور دراز کے بڑے لڑکے اور مرد، یہ فیصلہ کر لیں کے ہم سے باجا اور نیزے دونوں چھین لینے چاہیں۔

میرے منہ میں خاک!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).