پسماندہ سوچ کا فائدہ کسے ہے؟


انسان اور دیگر مخلوقات قدرتی عوامل کے تحت وجود میں آئے، سائنس قدرت کے قوانین کو جاننے اور دریافت کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ یہ دراصل وہی فکر ہے جس نے انسان کے بنیادی سوالات جو، کیا، کب، کیوں اور کیسے سے شروع ہوتے ہیں، کو سمجھنے میں مدد دی۔ ان کے جوابات کی تلاش کے دوران انسانی فکر نے جن طریقوں کو اختیار کیا، ان کو بحثیت مجموعی اگر کوئی عا لمگیر اصطلاحی نام دیا گیا تو وہ یقینا سائنس ہے۔ المیہ یہ ہے کہ انسان نے اپنی فکر اور کھوج کے نتیجے میں جس علمی سطح تک رسائی حاصل کی اسی کے مخالفت بھی کرتا ہے۔ اکثر صورت میں اس کیتردید کرتا ہے اور کئی قسم کے ابہام پیدا کرتا ہے۔ حالانکہ اس کے لئے یہ کسی اعزاز سے کم نہیں کہ اس نے نسل انسانی کی تاریخی اور ارتقائی پرتوں کو عبور کیا اور اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں قوانین فطرت کو نہ صرف دریافت کیا بلکہ اس کیعمل داری کو بھی وضاحت کے ساتھ آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کیا۔

اس طرح سائنسی علوم کی موجودہ ترقی دراصل اسی تسلسل کا حاصل ہے کہ جن کی وجہ سے ہر دور کا انسان علمی سمت میں آگے بڑھتا رہا ہے۔ پہلے اپنی آس پاس سے متعلق معلومات اور ان معلومات کی تصدیق کی، پھر ان کی روشنی میں ان حقیقتوں کو آشکار کیا جو کسی زمانے میں متفقہ طور پہ جھوٹ مانی جاتی تھیں۔ اچھے اور برے واقعات کو دیوتاؤں سے منسلک کر کے لوگ خود کو کسی درجہ مطمئن کرتے تھے۔ چونکہ سائنس کی دریافت اور پھر اس کے مطالعاتی طریقہ کار کے بارے میں آگہی اپنے انتہائی ابتدائی مراحل میں تھی، اس طرح زیادہ تر جواب تصوراتی اور محدود علمی بساط کے تحت دیے جاتے تھے۔ یعنی اس میں عقل سے اتنا ہی کام لیا جاتا تھا جتنا روایات اجازت دیتی تھیں۔ سوچ بچار کے نتیجے میں کوئی بھی ایسا انکشاف جو اجتماعی نظریے کی نفی کرتا اس پہ کڑی سے کڑی سزا دی جاتی،

جیورڈونو برونو ایک اطالوی فلاسفر اور ریاضی دان نے 1600 عیسوی میں ایسی ہی بھیانک سزا پائی، جب اس نے زمین سے باہر کے اجسام اور زندگی کے امکانات کے بارے میں اظہار کیا۔ کیتھولک نظریات کے حامیوں نے جب مذہبی رہنماؤں کی وہاں موجودگی کے بارے استفسار کیا، تو جیورڈونو بورنو کے ناقابل شمار اعدادو شمار اور تخمینے نے رجعت پسندوں کے متعین اور جامد نظریات کو ٹھیس پہنچائی۔ اس کے بدلے میں اس کو زندہ جلا دیا گیا، مگر اس سے جو در کھلا، اس نے روشنی کے لئے راستہ فراہم کیا اور یہی وجہ ہے کہ آج میشیو کاکو کے لئے اعلی خلائی مخلوق پہ مبنی تہذیب اور ان کی اقسام کے بارے میں کچھ بھی کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہو رہی۔ سائنس نے اپنا آپ منوانے سے زیادہ لوگوں کی زندگیوں کو ایک سے بڑھ کے ایک حیرت انگیز اور دلچسپ مرحلے سے گزارا اور نتیجتا شعوری بڑھوتری کے عمل کو مزید تیز کیا۔ انسان کے ذہنی عوامل اور رویوں کے بارے میں اہم نوعیت کے سوالات اس وقت واپس لوٹا دیے جاتے ہیں، جب وہ رسمی تعلیم کے اداروں اور ان کے کمرہ جماعت میں سر اٹھاتے ہیں۔ سائنس کو پڑھنا، حقائق کو از بر کرنا ایک حد تک مفید ہے مگر سائینس کا بڑا مطالبہ سائنسی طرز فکر ہے اور سا ئینسی طریق کار کے تحت کا ئنات کا مطالعہ ہے۔

پانچویں صدی قبل مسیح میں ڈیموکریٹس نے جب ہماری کہکشاں میں روشن ستاروں کی موجودگی کے امکان کو ظاہر کیا تو یقینا اس کی اس بات کو تسلیم کرنے والے افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہو گی۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ یونانی فکر جن خطوط پہ آگے بڑھ رہی تھی، وہ سماج کو عقلی ارتقاء کے میں داخل کرنے کی ایک ابتدا تھی۔ اسی طرح ارسطو نے ہماری کہکشاں کےبننے کے پیچھے جو عمل کار فرما تھا، اس کے بارے میں انکشاف کیا، گویا یہ اس نقطہ نظر کی کی یقین دہانی تھی جو دیموکرٹس کا تھا۔ مگر اس میں انفرادیت یہ تھی کہ چوتھی صدی قبل مسیح میں لوگ کہکشاں کے معرض وجود میں آنے کے متعلق ابتدائی جانکاری حاصل کر چکے تھے۔ یہ ایک اور بہت بڑی پیش رفت تھی، انسانی سوچ لگاتار ترقی کی طرف بڑھتی رہی۔ اس میں تسلسل اس بات کی ترجمانی کرتا ہے کہ انسان کا فکری ارتقاء درست ترین بنیادوں پہ مبنی تھا۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ روشن کائنات کی یہ مشعل فارسی ماہر فلکیات عبدالرحمن الصوفی کے ہاتھوں تک پہنچتی ہے، یہ منکشف ہوتا ہے کہ اس کائنات میں ہماری اس کہکشاں سے ہٹ کے دوسری کہکشائیں وجود رکھتی ہیں۔

مظاہر فطرت کے مطالعے میں جس بات نے بہت اہمیت اختیار کی وہ دراصل امکانات کے بارے میں سوچنے کی ذہنی آمادگی تھی۔ متجسس انسانی طبیعت نے مسلسل سوالات پہ کام جاری رکھا، کھوجنے اور جاننے پہ انسانی یقین کو ماضی کی حاصلات سے ہمیشہ ایک نئی توانائی ملتی ہے، یہیں سے انسانی تہذیب آگے بڑھتی ہے۔ تخلیق اور تغیر ہر قدم پہ ایک نئے سنگ میل کے طور پہ ظاہر ہوتا ہے۔ البتہ تعلیم میں تحقیق کے لازمے کو شامل کیے بغیر انسانوں کا اکٹھ ایک ریوڑ کی طرح ہانکا جاتا ہے۔ سماج کی غالب قوتیں متواتر انسانی وسائل کا استعمال اپنے مفادات کے لئے کرتی ہیں۔ انسانی شعور کی اثر انداز ہونے کی حیثیت بے خبری یا کم علمی سے گھٹتی نہیں، بلکہ ہر دور اور ہر طرح کے حالات میں مزید طاقت حاصل کرتی ہے۔

سوچ کو دانستہ پسماندہ رکھنے کے فوائد صرف ایک خاص طبقے کو ہی ہوتے ہیں جبکہ وہ باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے اس فریضے کو ادا کرتا ہے۔ لوگوں کو ان کی جذباتی وابستگیوں کے ذریعے ہمیشہ کھوجنے، سوال کرنے سے دور رکھا جاتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ سالوں صدیوں سے بنے اس معاشرتی سانچے میں لوگ خود کو ڈھال کر تحفظ کے احساس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ حالانکہ کہ یہ جاننے کے لئے کچھ زیادہ دقت درکار نہیں کہ جن ضوابط کے تحت انسانی جیون جاری ہے ان کی عمل داری سے خاطر خواہ افادیت نہیں ہو رہی اور عملی طور پہ ہم دہشت اور خوف کے تابع زندہ ہیں۔ قومیت پرست سوچ نے ہر قوم کو دوسری قوم سے دھمکا رکھا ہے۔ تمام تر انسانی پیش رفت نے کتنا معتدل اور موذوں سماج تشکیل دیا ہے، اگرعالمی امن کو ہی کسوٹی بنا لیا جائےتو تاریخی تقابل سے جائزہ لیا جا سکتا ہے کہ ہمارا ماضی زیادہ غیر محفوظ تھا یا ہمارا آج؟

ان تمام پہلووں پہ غور کرنے کو شجر ممنوعہ سمجھنے کی بجائے، ان کا تنقیدی جائزہ لینا درست ہے۔ ہم کسی بھی نقطہ نظر کے حامی ہوں، مگر کسی بھی مخالف نظریے کو بغیر استدلال کے رد کرنے سے ہم نظریاتی ترقی کی طرف نہیں بڑھ سکتے۔ مروجہ اخلاقیات پہ مبنی معاشرت کے پس منظر میں موجود جبری دباؤ کی اصلیت کیا ہے، یہ سوال ہمارے تصورات کی از سر نو تعمیر کریں گے۔ ہمارا خوف ہمیں جب تک رہا نہیں کرتا، ہم بہت ساری حقیقتوں سے یونہی بے خبر رہیں گے۔ موجودہ دور کی سب سے بڑی آزمائش یہی ہے کہ متشدد رویے کو جانا جائے اور اسے تربیت کے ذریعےانسانی نسل سے علیحدہ کیا جائے۔ سماج کے کسی ایک طبقے کا دوسرے طبقے پہ، ایک جنس کا دوسری جنس پہ، یا پھر کسی ایک فرد کا کسی دوسرے فرد پہ اجارہ نہیں، ہم ایک دوسرے سے تعاون کا حق رکھتے ہیں مگر ایک دوسرے کے حکمران نہیں۔ ہم بے شک اس بات سے جزوی یا کلی اختلاف کریں مگر جیسے ہی وقت بدلتا ہےوہ زندگی کو اپنے انداز سکھاتا ہے۔ تغیر زمانے کی بڑی سچائی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).