پیپلز پارٹی اور نوجوان ووٹ بینک


جس طرح آج ترقی کے بڑے بڑے مونومنٹ تعمیر کر کے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ بس کچھ ہی دن کی بات ہے کہ پاکستان دنیا کی چند بڑی معیشتوں میں شمار ہونے لگے گا۔ بالکل اسی طرح اب سے پچاس برس پہلے بھی بتایا جا رہا تھا کہ پاکستان ایشیا کی سب سے تیز رفتار صنعتی و زرعی معیشت ہے۔

ثبوت کے طور پر ایوب خان نے دس سالہ عظیم الشان ترقی کی ٹرین بھی چلوائی تھی۔ یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہوا  کیونکہ سرکاری میڈیا کے مطابق ایوب خان نے سیاست کو کرپشن سے پاک کر کے ایماندارانہ ترقی کی بنیاد رکھ دی تھی۔ قوم خوش قسمت تھی کہ اسے ایوب خان جیسا لیڈر ملا ہے وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔

اگر یہ سب باتیں درست تھیں تو پھر انتالیس سالہ ذوالفقار علی بھٹو نامی شخص کہ جو سال بھر پہلے ہی حکومت کا حصہ تھا اس کا سیاسی چراغ تو چھ فٹ کے جہاندیدہ مدبر ایوب خان کے سامنے بالکل بھی نہیں جلنا چاہیے تھا۔ کوئی قابلِ ذکر جاگیردار بھی تب بھٹو کے ساتھ نہیں تھا۔

بائیس طاقتور صنعتی خاندانوں سے اسے ویسے ہی اللہ واسطے کا بیر تھا۔ ایوب خانی اسٹیبلشمنٹ بھی اس کے درپے تھی۔ویسے بھی اس کے ساتھ چند کنگلے مزدور لیڈر ، کچھ پیدل صحافی اور ٹیچر ، پانچ چھ وکیل ، درجن بھر دانشور اور کچھ جوشیلے طالبِ علم رہنما ہی تھے۔ مگر بھٹو اور اس کے ساتھیوں کے پاس کچھ خفیہ ہتھیار تھے جن کی سیاسی ڈائنوساروں کو نہ خبر تھی نہ شعور۔پہلا یہ کہ بھٹو نے اپنے وقت کے مقامی ، علاقائی اور بین الاقوامی تقاضوں کو سمجھا۔ اور یہ تجزیہ کیا کہ اکثریتی مگر بے آواز طبقے کے مسائل کی حقیقی نمایندگی کوئی سیاستداں نہیں کر رہا۔

یہ طبقات تب تک سیاست کو اجنبی سمجھتے رہیں گے جب تک انھیں زندگی کی امید نہیں دلائی جاتی۔چنانچہ بھٹو نے اپنے جواں سال ساتھیوں کی مدد سے ایک ایسا سماجی سیاسی نظریہ وضع کیا جس کے ذریعے پہلی بار پاکستان میں کسی نے کھل کے اپنی جماعت کی بنیاد اس لائن پر رکھی کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔

یہ وہ مقناطیس تھا جس نے نہ صرف مزدوروںاور ناخواندہ کسانوں بلکہ پڑھے لکھے مگر مستقبل سے ناامید نیم متوسط اور متوسط نوجوانوں کو اپنی جانب بے تحاشا کھینچا۔ انھیں لگا کہ یہ لیڈر اپنے طبقے سے باہر نکل کے نہ صرف ان کی بلکہ انھی کی زبان میں بات کر رہا ہے۔جو کنگلے بھٹو کے ساتھ تھے بھٹو کو ان سب کے نام ذاتی مسائل ، خوبیوں اور خامیوں سمیت یاد تھے۔یہی ایک ادا کسی بھی سیاسی کارکن کو جان دینے کے لیے آمادہ کرنے کے لیے کافی تھی۔ سیاسی ملائیت تب بھی خونخوار تھی۔

کس کس نے اسے کافر، دھریا، کیمونسٹ ، سی آئی اے اور بھارت کا ایجنٹ  قرار نہیں دیا، حتی کہ ولدیت تک مشکوک بتائی گئی۔مگر بھٹو نے کوئی معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کیا۔اس نے کہا ہاں میں مولوی نہیں ہوں ، میں مساوات اور سوشلزم پر یقین رکھتا ہوں ، میں کوئی نظریاتی کمپرومائز نہیں کروں گا۔میں تم سب کے ساتھ یا تم سب کو ساتھ لے کر چلنے پر یقین نہیں رکھتا ورنہ الگ جماعت بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ہاں میں عوام کو ضرور تمہاری سوچ کی مخالف سمت میں لے کر چلنا چاہتا ہوں۔ جب کارکن کو یقین ہوجائے کہ لیڈر پیچھے کھڑا ہوا ہے، کچھ بھی ہوجائے لیڈر پیچھے کھڑا رہے گا تو پھر ورکر کا سینہ ہمالیہ سے بھی چوڑا ہوجاتا ہے۔

آپ آج بھی اپنے اپنے شہر، قصبے اور گوٹھ میں جا کر ان پرانے کارکنوں سے اس کی گواہی لے سکتے ہیں۔ مگر لیڈر بھی انسان ہوتا ہے۔اس میں وہ تمام خوبیاں اور خامیاں ہوتی ہیں جو ہم سب میں ہیں۔عام آدمی اور لیڈر میں بس یہ فرق ہے کہ لیڈر کے فیصلوں اور ذاتی کردار کے اچھے برے اثرات کروڑوں لوگوں پر پڑتے ہیں جب کہ ایک عام فرد کا فعل اسے یا پھر زیادہ سے زیادہ اس کے خاندان کو متاثر کرتا ہے۔

لیڈر رول ماڈل ہوتا ہے۔ قدآور ہوگا تو ساتھ والے کا قد بھی اونچا ہو جائے گا۔بونا ہوگا تو ساتھ کھڑے چھ چھ فٹے بھی بالشتئے لگنے لگیں گے۔رول ماڈل میں سب سے اہم بات یہ دیکھی جانی چاہیے کہ ذاتی زندگی میں وہ کس قدر ایمان دار ہے۔اگر ہے تو پھر اس کی دس دیگر خطائیں بھی نقصان نہیں پہنچا سکتیں۔اگر نہیں ہے تو ایک خطا بھی اپنے یا دوسروں کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔

اب آپ کہہ سکتے ہیں کہ دو ہزار سترہ میں پچاس سال پہلے کی مثالیں دینے کا کیا فائدہ۔کل دھشت گردی نہیں تھی آج ہے، کل نظریاتی سیاست تھی آج نہ لیفٹ ہے نہ رائٹ ہے اگرہے تورائٹ یاالٹرا رائٹ ہے، موقع پرستی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ پہلے سے زیادہ سفاک ہے۔سیاسی و فرقہ پرست مولوی صرف زبان سے نہیں ہتھیار سے بھی مسلح ہے اور اب تو ریاست کو بھی اپنے قدموں پر جھکانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔بھلا اس سے ہم کیسے نظریاتی ٹکراؤ مول لے سکتے ہیں۔سمجھوتے نہ کریں گے تو سیاست میں کیسے جئیں گے۔

ہاں یہ سب باتیں اور وجوہات اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔لیکن اگر بھٹو کو بھی پچاس برس پہلے کم و بیش ایسے ہی حالات میں روائیتی سیاست کرنی ہوتی تو آج میں اس کا ذکر نہ کر رہا ہوتا۔سیاست تو نام ہی آرٹ آف امپاسیبلز کا ہے۔ اگر آپ اپنی ایک علیحدہ ناقابلِ سمجھوتہ شناخت کھو کے بھی سیاست کرنے پر یقین رکھتے ہیں تو پھر یہ سیاست نہیں کاروبار ہے۔وہ بھی ایسا کاروبار جس میں نفع بھی فوری ہے اور نقصان بھی فوری۔

اگرچہ آج کی سیاست اس طرح سے نظریاتی نہیں مگر بنیادی مسائل تو وہی ہیں۔بنیادی راگ بھی سات ہی ہوتے ہیں مگر ان سے نئی دھنیں بنانے والوں کو ہی موسیقار کہا جاتا ہے۔ورنہ تو نقلچی لاہوری بابو بینڈ ہر گلی میں بج ہی رہا ہے۔

بھٹو اس لیے مختلف تھا کہ اس نے دستیاب راگوں سے ایک الگ سمفنی بنائی۔دستیاب محروم افرادی قوت کو ایک نئے نعرے کی ڈور میں باندھ کر طاقت میں بدل دیا۔ سودے بازی بھی کی تو عوام یا کارکن کی قیمت پر نہیں۔لیڈر شپ ایک شخص کے ہاتھ میں تھی ، مختلف ہاتھوں میں بٹی ہوئی نہیں تھی۔کوئی نابینا بھی بتا سکتا تھا کہ یہ بھٹو ہے اور اس کے بعد یہ بے نظیر ہے۔آج کس پر ہاتھ رکھ کے ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں ؟

سیاست رسک کا گیم ہے۔لہذا یہ رسک لینا بے حد ضروری ہے کہ اگر ایک پارٹی ہے تو اس کا لیڈّر بھی کوئی ایک ہونا چاہیے۔ایک لیڈر ہوگا تب ہی قدِ آدم عکس بنے گا۔اور قدِ آدم لیڈر شپ کے بغیر کوئی بھی پارٹی سسک سسک کے زندہ تو رہ سکتی ہے آگے نہیں بڑھ سکتی۔بصورتِ دیگر اسے اسٹیبلشمنٹ کی نوکری بھی کرنا پڑ جاتی ہے۔

پچاس برس میں دنیا بدل چکی۔جو ظلم و ستم پارٹی یا اس کی لیڈر شپ نے سہا وہ ماضی بنتا جا رہا ہے۔کیا آج کا بیس تیس سال کا لڑکا یا لڑکی جو کہ اس ملک کا سب سے بڑا ووٹنگ بلاک ہے۔آنکھ بند کر کے پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں میں اتنا فرق محسوس کر سکتا ہے کہ وہ نواز شریف کا ترقی کا نعرہ اور عمران خان کا اینٹی کرپشن نعرہ چھوڑ چھاڑ کر پیپلز پارٹی کے ساتھ چلنے پر آمادہ ہوجائے ؟ پیپلز پارٹی کے پاس اگر آج کے حساب سے کوئی پرکشش نیا نعرہ ہے تو کیا ہے ؟ اور اس نعرے پر خود قیادت کتنا یقین رکھتی ہے تاکہ عام آدمی یا نئی نسل اس یقین کو دیکھ کر ہی نعرے کے پیچھے چل پڑے۔جیسا کہ پچاس سال پہلے ہوا تھا۔

اگر پیپلز پارٹی کو اپنی حکمتِ عملی ، نظریے اور بدلی ہوئی امنگوں کے مطابق خود کو بدلنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تو پھر نئی نسل کو بھی اس پارٹی کی ضرورت کیوں ہو ؟ اگر آپ خود کو بدلے بغیر سندھ میں کامیاب ہیں تو پھر دوسرے صوبوں میں کیوں کامیاب نہیں۔وہاں کا ووٹر اور نئی نسل کیوں مختلف انداز میں سوچنے لگی ہے۔یا تو پوری نسل ہی گمراہ ہے یا پھر پارٹی کو خود کو بدلنے اور باقیوں سے الگ دکھائی دینے کی اشد ضرورت ہے۔کیا کوئی یقین کرے گا کہ بھٹو کی پیپلز پارٹی سندھ کی نہیں پنجاب کی سب سے بڑی پارٹی تھی۔

ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی آف سوشل اینڈ پولٹیکل سائنسز کی سب سے نمایاں گریجویٹ بے نظیر بھٹو تھیں۔ جب تک موجودہ پارٹی قیادت ( میری مراد بلاول ، آصفہ ، بختاور سے ہے ) اس یونیورسٹی میں داخل ہو کر بھٹو کی آنکھ اور دماغ سے بدلی ہوئی حقیقتوں کا ادراک کرنے اور ان سے ہم آہنگ ہونے کا نہیں سوچے گی تب تک کچھ نہیں ہونے والا۔مقناطیس بنو گے تو لوہا کھنچا ہوا آئے گا۔ورنہ تو مقناطیس بھی لوہے کے ٹکڑے کے سوا کیا ہے ؟

(یہ مضمون زیادہ تفصیل سے سترہ دسمبر کو کراچی کے پیپلز یوتھ کنونشن میں پیپلز پارٹی کی مرکزی و صوبائی قیادت کی موجودگی میں پڑھا گیا )۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).