طے ہو گیا ہے مسئلہ جب انتساب کا


”جمّیاں ای کوئی نئیں مینوں پریشرائز کرن والا‘‘… یو ٹیوب گواہ ہے کہ یہ جملہ 2015ء میں ہماری عدالتی تاریخ کے دبنگ جج کاظم علی ملک نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا۔ نیوز چینلز پر اس جملے کی باز گشت تا دیر سنائی دیتی رہی۔ عمران خان کی این اے 122 میں انتخابی عذرداری کی سماعت کرنے والے سابق جسٹس کاظم علی ملک نے قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق کا انتخاب بے ضابطگیوں کی بنا پر کالعدم قرار دیا تھا۔ تب رانا ثناء اللہ نے الزام لگایا کہ جج صاحب نے اپنے آبائی علاقے میں اپنے بیٹے کے لیے ن لیگ کا ٹکٹ مانگا تھا اور انکار پر ہمارے خلاف فیصلہ دے دیا۔ جج صاحب فیصلے کے بعد ملازمت چھوڑ چکے تھے۔ انٹرویو میں جب ان سے رانا ثناء اللہ کے الزام اور فیصلے کے لیے پریشر کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے مضبوط لہجے میں یہ جملہ کہا کہ مجھے پریشرائز کرنے والا کوئی پیدا ہی نہیں ہوا۔

اگرچہ کاظم ملک کا معاملہ مختلف ہے مگر آج ان کے جملے کی باز گشت پھر سنائی دی ہے۔ گزشتہ ہفتے سنائے جانے والے دو اہم ترین عدالتی فیصلوں سے ملک کی سیاسی فضا میں چھائی سموگ کم ہو گئی ہے اور ہمارے مستقبل کی سمت کا کافی حد تک تعین ہو گیا ہے۔ تاہم ہمیں چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کے پاکستان بار کونسل کے سیمینار اور جوڈیشل اکیڈمی میں اٹھائے گئے نکات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے عدلیہ کا کسی بھی پلان کا حصہ ہونے کی بات کو سختی سے جھٹلاتے ہوئے کہا کہ خدا کی قسم، عدلیہ پر دبائو ڈالنے والا پیدا ہی نہیں ہوا، اگر کسی کا زور چلتا تو حدیبیہ کیس کا فیصلہ ایسا نہ ہوتا۔ چیف جسٹس نے ایک اہم بات یہ کی کہ آپ فیصلے پر تنقید کر سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ فیصلے پر دی گئی دلیل کمزور ہے لیکن نیت پر شبہ نہ کریں۔ اِدھر عمران خان کی نا اہلی کیس کے فیصلے میں جسٹس فیصل عرب نے اضافی نوٹ میں قرار دیا ہے کہ نواز شریف اور عمران خان کیس کے حقائق مختلف ہیں، اس لیے دونوں مقدمات کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ فیصلہ سنانے کے بعد‘ قسم اٹھانے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ شاید اس کی وجہ ہمارا ستم ظریف مزاج ہے کہ فریقین اور ان کے حامی تو ان مقدمات کے فیصلوں پر اپنی اپنی خواہشات کے مطابق تنقید یا توصیف کر ہی رہے ہیں مگر سابق چیف جسٹس آف پاکستان‘ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی لاہور میں اپنے اعزاز میں استقبالیے سے بات چیت کے دوران کہا ہے کہ نواز شریف کیس میں بھی یہی حالات و واقعات تھے مگر انہیں ریلیف نہیں دیا گیا جبکہ عمران خان کو ریلیف دے دیا گیا۔ گویا معاشرے کے کسی بھی طبقے میں ابھی تک عدالتی فیصلوں کو کھلے دل سے تسلیم کرنے کی صحت مند روش نہیں پنپ سکی۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان حالات و واقعات کا ایک سرسری سا جائزہ لیا جائے، بد قسمتی سے جن کی بنا پر حالیہ تاریخی فیصلوں کو متفقہ پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی اور چیف جسٹس پاکستان کو ایسی درد مندانہ باتیں کرنا پڑیں جن کی کسی مہذب معاشرے میں ضرورت پیش نہیں آتی۔ 3 اپریل 2016ء کو عالمی کنسوشیم برائے انویسٹی گیٹو جرنلسٹ کے پاناما پیپرز نے دنیا بھر کی طرح پاکستا ن میں بھی بھونچال پیدا کر دیا۔ الزام یہ تھا کہ نواز شریف کے بچوں نے 1990 کی دہائی میں لندن فلیٹس اس وقت حاصل کیے جب وہ وزیراعظم تھے۔ ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت درخواستیں دائر کی گئیں۔ عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی لارجر بینچ کے دو ججوں نے نواز شریف کو قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے نا اہل قرار دیا جبکہ تین ججوں نے الزامات کی سماعت کے لیے جے آئی ٹی تجویز کی۔ جے آئی ٹی کے کردار پر بہت سے سوالات اٹھائے گئے، تاہم اس نے بغیر کسی دبائو کے آزادی اور غیر جانبداری سے اپنا کام جاری رکھا اور نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف رپورٹ دی، جس پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے 28 جولائی کو متفقہ طور پر نواز شریف کو غیر ملکی اقامہ رکھنے پر نااہل قرار دیا۔

اس کے بعد محمد حنیف عباسی نے عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف نااہلی کی درخواستیں دائر کیں، جن میں ہر دو رہنمائوں پر اثاثے چھپانے اور آف شور کمپنیاں رکھنے کے الزامات عائد کرتے ہوئے انہیں نااہل قرار دینے کی استدعا کی گئی۔ درخواست گزار نے بنی گالہ کی زمین پر اعتراضات کے علاوہ عمران خان پر نیازی سروسز لمیٹڈ کو چھپانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس کے واحد اور حقیقی بینی فشری عمران خان خود ہیں اور یہ ان کی آف شور کمپنی ہے۔ مدعی نے بیان دیا کہ عمران خان کے وکلاء نے لندن میں فلیٹ کی خریداری کا اعتراف کیا ہے؛ تاہم انہوں نے یہ فلیٹ اپنے کسی انکم ٹیکس یا کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہیں کیا۔ اس کے علاوہ درخواست گزار نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پی ٹی آئی نے غیر ملکی ذرائع سے فنڈز حاصل کیے، جس کی وجہ سے یہ جماعت پولیٹیکل پارٹیز آرڈیننس کے آرٹیکل 2(C-iii) کے تحت کالعدم قرار دینی چاہیے۔ چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 15دسمبر کو حکم سناتے ہوئے عمران خان کے خلاف پٹیشن کو خارج کر دیا جبکہ جہانگیر ترین کو آئین کے آرٹیکل 62(1-f) کے تحت صادق اور امین نہ ہونے کی بنا پر نااہل قرار دے دیا۔

دوسری طرف جسٹس مشیر عالم، جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس مظہر عالم پر مشتمل عدالت عظمیٰ کا بینچ پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں حدیبیہ پیپر ملز کے مقدمے میں ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف نیب کی اپیل سن رہا تھا۔ یہ ریفرنس مشرف دور میں اسحاق ڈار سے لیے گئے اس بیان کی بنیاد پر دائر کیا گیا تھا، جس میں انہوں نے جعلی اکائونٹس کے ذریعے شریف خاندان کے لیے بھاری رقم کی مبینہ منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا تھا۔ 2014ء میں لاہور ہائیکورٹ نے یہ ریفرنس خارج کرتے ہوئے فیصلہ دیا تھا کہ نیب کے پاس ملزمان کے خلاف ثبوت کا فقدان ہے۔ عدالت عظمیٰ کے فاضل بینچ نے یہ اپیل کیس کے ٹائم بار ہو جانے کی بنا پر مسترد کر دی۔

افسوس ناک امر یہ ہے کہ ایک مکتبِ فکر عمران خان کی نااہلی کا کیس خارج ہونے کو انصاف کا دہرا معیار قرار دے رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ایک جگہ بینی فشل اونر ہونا نااہلی کا سبب ہے جبکہ دوسری جگہ اس سے صرفِ نظر کیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عمران خان نے 2002ء کے انتخابات میں اپنے کاغذات نامزدگی میں 1983ء سے اپنے ملکیتی لندن فلیٹ کو ظاہر کیا جبکہ 1997ء کے انتخابات میں اسے ظاہر نہیں کیا۔ یوں عمران خان کو بھی اسی طرح نا اہل قرار دینا چاہیے جس طرح نواز شریف کو اس بنا پر نا اہل قرار دیا گیا کہ انہوں نے وہ تنخواہ جس کے وہ حقدار تھے؛ اگرچہ ان کے بیان کے مطابق انہوں نے وصول نہیں کی، اپنے کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہیں کی ۔ اسی طرح دوسرے مکتبِ فکر کو حدیبیہ کیس کی اپیل خارج ہونے پر افسوس ہے۔ کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ حدیبیہ کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلے نے جے آئی ٹی کی ساکھ ختم کر دی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں حدیبیہ کیس پر اضافی شواہد ریکارڈ پر لانے کے جو دعوے کیے تھے وہ نیب عدالت میں کیوں پیش نہیں کر سکا؟
ہماری ناقص فہم میں صحت مند رویہ یہ ہے کہ ان قانونی نکات پر بحث میں وقت ضائع کرنے کی بجائے آگے کی طرف دیکھنے کی روش کو اپنایا جائے۔ بغیر کسی دبائو کے سنائے جانے والے ان دو اہم ترین عدالتی فیصلوں اور حکومت اور اپوزیشن کے درمیان حلقہ بندیوں سے متعلق طے پانے والے معاملات سے ملک کی سیاسی فضا میں چھائی سموگ کم ہو گئی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ مستقبل کا سیاسی نقشہ بڑی حد تک واضح ہو چکا ہے اور گمان غالب ہے کہ 2018ء کے انتخابات کا معرکہ شہباز شریف اور عمران خان کے درمیان ہوگا اور اللہ نے چاہا تو انہی میں سے ایک ملک میں نئی منتخب عوامی حکومت بنائے گا۔ ہمیں نیتوں پر شبہے کا ”یکڑیانہ چلن‘‘ ترک کر کے سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارے ملک کا سیاسی اُفق اب صاف ہے، سمت کا تعین ہو گیا ہے اور ہمارا مستقبل روشن ہے۔ انور ؔ مسعود نے کہا ہے ؎
طے ہو گیا ہے مسئلہ جب انتساب کا
اب یہ بھی کوئی کام ہے لکھنا کتاب کا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).