محترم وزیر اعظم، اس مرتبہ بیک فٹ نہیں چلے گا


جب مستقل لکھنا شروع کیا تھا تو وہ طالبان کے عروج کا دور تھا۔ ہر دوسرے دن کہیں نہ کہیں خود کش حملے یا بم دھماکے کی خبر ملتی تھی۔ آستینیں چڑھا کے پورے غم اور غصے کے ساتھ بلاگ لکھا جاتا تھا۔ پوری کوشش رہتی تھی کہ دنیا کو جگایا جائے، ان بھیڑیوں کی پہچان کرائی جائے جو بھیڑوں کی کھال اوڑھے درمیان میں ہی کہیں گھوم رہے ہوتے ہیں۔ سو طرح سے گھما گھما کے اصل کہانی سمجھانے کی کوشش ہوتی تھی، تمام اربابِ اختیار کو لتاڑا جاتا تھا، آٹھ آٹھ آنسو روئے جاتے تھے لیکن ایک ٹکے کا فائدہ نہیں ہوا۔ حرام ہے جو کبھی ذرا سا بھی لگا ہو کہ یار ہاں! لکھنے کی وجہ سے حالات ایک فیصد ہی سہی، بدلے تو ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ ایک تھکے ہوئے موضوع پہ کس لیے لکھا جائے؟

سولہ دسمبر پہ ہر سال کچھ نہ کچھ لکھنے کی کوشش ہوتی تھی، اس بار جان بوجھ کے وہ بھی نہیں لکھا۔ یار! ایک بندہ کب تک ایک ہی حادثے کے بارے میں سینہ کوبی کر سکتا ہے جبکہ اسے کرنے والے مجرم اب بھی سامنے نظر آ رہے ہوں؟ وہ آپ کی چھاتیوں پہ مسکراتی ہوئی تصویروں کے ساتھ مونگ دلیں اور آپ قلم سے جہاد کا شوق فرمائیں، یہ کسی ایک حد تک کیا جا سکتا ہے؟ یا تو بندہ خدائی عطا کی وجہ سے بے وقوف ہو، چغد ہو، اسے ککھ سمجھ نہ ہو اور وہ کان لپیٹ کے بس لکھتا جائے، یا پھر اس نے اپنے رسالے کا دہشت گردی نمبر نکالنا ہو جس کا پیٹ بھرنے کے لیے ہر دھماکے پہ واویلا کیا جائے۔ جب جڑیں محفوظ ہیں، کچھ بدل نہیں سکتا، اس معاملے پر کوئی بات ہی نہیں کرنا چاہتا، روایتی بیان بازی کے بعد سب کچھ ٹھنڈا ہو جاتا ہے تو اپنا ڈھول کب تک پیٹا جائے؟

مجھے یاد ہے‘ پشاور سانحہ تھا یا چارسدہ یونیورسٹی تھی یا لاہور کا اقبال ٹاؤن والا دھماکہ تھا یا کتنے ہی اور تھے، ٹی وی سامنے کھلا ہوتا اور چلتی خبروں کے درمیان میں کچھ نہ کچھ لکھ رہا ہوتا تھا، احتجاج کی کوئی نہ کوئی شکل الفاظ کا روپ دھار ہی لیتی ہے لیکن جہاں مایوسی ہر طرف اپنے خیمے گاڑ چکی ہو وہاں کیا ہو سکتا ہے؟ مسیحیوں کے معاملے میں آپ کتنا کھل کے لکھ سکتے ہیں؟ امریکہ میں ایک کالا صدر بن ہے تو آپ جشن منا سکتے ہیں، ایک گورا متعصب صدر آتا ہے تو آپ پورا اخبار احتجاجی خبروں سے بھر سکتے ہیں، لندن کا مئیر مسلمان ہو تو بھنگڑے ڈال سکتے ہیں، سنگاپور کی صدر باحجاب ہوں تو چالیس دن فتح کے بکرے بلا سکتے ہیں لیکن آپ کے اپنے ہاں کیا معاملہ ہے؟کیا ہماری اخلاقیات ایسی تربیت دیتی ہیں کہ اس موضوع پہ سوچا بھی جا سکے۔ تو جب مسلمہ طور پہ یہ حقیقت تسلیم کی جا چکی ہے کہ وہ ہمارے برابر نہیں ہیں تو پھر بات شروع کیسے کی جائے؟ ابھی ہم اپنا زخم بھولے نہیں، اے پی ایس پہ فخریہ بیان بازی کرنے والے آج تک بقید حیات ہیں تو ان لوگوں کا رونا کون روئے اور کیسے روئے؟

ریاست ماں کی طرح نہیں ہوتی، یہ جذباتی باتیں ہیں۔ ریاست ایک سیاسی بندوبست کا نام ہے جہاں رنگ، نسل، مذہب اور فرقے کی تمیز سے ہٹ کے اس میں بسنے والے انسانوں کے حقوق کی بات ہوتی ہے۔ ریاست کن سے بنتی ہے؟ انسانوں سے، معاشرہ کس سے بنتا ہے؟ انسانوں سے، جب پہلی اینٹ ہی انسان ہیں تو ایک آئیڈیل ریاست وہی ہو گی جہاں تمام‘ بسنے والے انسانوں کو برابر کے حقوق میسر ہوں۔ کیا آج کل ریاست میں کوئی ہندو، پارسی، مسیحی یا سکھ یہ مطالبہ کر سکتا ہے کہ بھائی جی، آپ لوگ جو بچوں کو اپنے ہیروز کے بارے میں پڑھاتے رہتے ہیں، کوئی ایک دو سبق ہمارے لوگوں کے بھی ڈال دیں۔ وہ سیسل چوہدری ہوتے تھے، جوگندر ناتھ منڈل تھے، رتھ فاؤ تھیں، اپنے اردشیرکاؤس جی تھے، نصاب کی کس کتاب میں ان کا ذکر موجود ہے؟ ریاست شہریوں سے برابر سلوک کرنے کے لیے جن اصولوں کی مدد لیتی ہے انہی کا نام جمہوریت ہے اور جمہوریت سیاسی بندوبست کا ایک جدید آپشن ہے۔ اس کا کوئی بھی تعلق ملک کے رہنے والوں کے مذہب سے دور دور تک نہیں ہوتا۔ یہ تو ہو گیا ایک چھوٹا سا حصہ اس پوری کتاب کا‘ جو دل میں لکھی ہے اور جس کا نام مایوسی ہے۔

یہ دھماکہ ہوا کہاں؟ کوئٹہ میں، کس سڑک پہ؟ زرغون روڈ پہ، کس عبادت گاہ میں؟ چرچ میں… آپ میں سے کتنے لوگ کوئٹہ گئے ہیں کبھی زندگی میں؟ لفظ زرغون کا مطلب ہی کسی کو معلوم ہے؟ یہ کوئی پھول ہے، کتاب ہے، لیڈر کا نام ہے، ذات ہے، علاقہ ہے، کیا ہے؟ چرچ میں عبادت کیسے کی جاتی ہے؟ وہ لوگ کس لیے اتوار کو وہاں اکٹھے ہوتے ہیں؟ بائبل میں کیا لکھا ہے؟ مسیحی پاکستان میں کل ملا کے کتنے ہیں؟ ان بیسک سوالوں کا جواب آپ کو اس وقت تک نہیں مل سکتا جب تک آپ گوگل نہ کریں یا پھر خود ہر ایک چیز جاننے کی زحمت نہ کی جائے۔ جب ایک ہی ملک میں رہتے ہوئے ہم لوگ اس قدر آئسولیٹڈ ہیں کہ نہ ہم بلوچستان کو گوادر اور کوئٹہ سے آگے جانتے ہیں اور نہ ہمیں مسیحیوں کے بارے میں کچھ پتا ہے تو قصور کس کا ہوا؟ شہریوں کے حقوق کیسے یاد آئیں گے؟ انسانی برابری کیا ہوئی؟ ہمیں آج تک یہ معلومات نصاب تک میں نہیں دی گئیں۔ جب سو ڈیڑھ سو برس پرانے شاعروں کی نظمیں پڑھائی جا سکتی ہیں تو کیا پندرہ بیس صفحے اس مشن پہ کالے نہیں کیے جا سکتے؟ جب ذہنی طور پہ قوم کا پچانوے فیصد حصہ اس قدر اجنبیت کا شکار ہو گا تو احتجاج کرنے والوں اور احتجاج سمجھنے والوں کی ریشو کیا ہو گی؟ بلکہ اس احتجاج کی حیثیت ہی کیا رہے گی؟

اس شدید مایوسی کے عالم میں ایک اچھی خبرگزشتہ روز کے اخبار میں طلوع ہوئی۔ نیکٹا کے بارے میں جاری ہونے والی تازہ رپورٹ کے مطابق نیا قومی بیانیہ تشکیل دے دیا گیا ہے۔ شناختی کارڈ اور پاسپورٹس پہ سے مذہبی شناخت ختم کی جا رہی ہے، جہاد کے اعلان کا اختیار سرکاری طور پہ حکومت کو منتقل کرنے کی سفارش تیار ہو رہی ہے، کافر کافر فلانا کافر ٹائپ کے فتوؤں کو بند کرنے کی تیاری ہے اور دہشت گردوں یا پریشر گروپس سے بغیر فرق کیے‘ دو دو ہاتھ کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔ اگر یہ ممکن ہو گیا تو موجودہ حکومت کا اس سے بڑا کارنامہ کوئی نہیں ہو سکتا۔ یہ پہلا قدم ثابت ہو سکتا ہے اس پاکستان کی طرف کہ جس میں سرکاری سطح پہ اقلیتوں کو اکثریت کے برابر کھڑا کرنے کی کوشش شروع کی جائے گی۔ اس موقع پہ حکومت کو بہت سٹریٹ فارورڈ رہنے کی ضرورت ہے۔ چھتیس قسم کے دباؤ وزیراعظم پہ آئیں گے کہ یہ بیانیہ منظور نہیں کرنا، یہ فلاں چیز سے متصادم ہے، اس کا اثر فلاں چیز پہ پڑے گا… مٹی تے سواہ۔ کسی چیز پہ اثر نہیں پڑے گا سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے عقائد کو اپنی دکان داری کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ یہ ریاست کی جانب سے پہلا اعلان ہو گا کہ لوگو! اب سنبھل جاؤ، اب تمہیں آئین اور قانون میں وہ سہولتیں میسر نہیں رہیں۔ اگر اب کی بار بھی روایتی بیک فٹ پہ کھیلا گیا تو آنے والی نسلیں… لاحول ولا، آنے والے بھی کون اور جو اب دھول چاٹتے ہیں وہ بھی کس کھاتے میں، اور ان کی معافی کی اہمیت ہی کیا، یہ سب خراباتیان خرد باختہ ہیں جو بقول جون ایلیا‘ اگلی صبح پھر کام پر جانے کو تیار ہوں گے۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain