پاکستان میں صحافیوں کو تشدد، دھمکیوں اور موت کا سامنا


طہٰ صدیقی

طہٰ کے مطابق انھیں حکام کی اتنی پریشانی نہیں جتنا کہ ان پر خاندان اور دوستوں کی جانب سے خاموش رہنے کا دباؤ ہے

اسلام آباد میں واقع اپنے دفتر کی پہلی منزل پر ڈیسک ٹاپ کے پیچھے بیٹھے طہٰ صدیقی ایک تنہا شخصیت دکھائی دیتے ہیں۔

وہ ایک صحافی ہیں جن کا کام نیو یارک ٹائمز، دی گارڈین اور کئی دیگر بین الاقوامی ادارے شائع کر چکے ہیں لیکن وہ اپنے ہی ملک میں سوشل میڈیا پر طاقتور فوج کے بارے میں تلخ تبصروں کی وجہ سے زیادہ جانے جاتے ہیں اور اس کے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔

مئی میں جب وہ اپنے چار سالہ بچے کی دیکھ بھال کر رہے تھے تو انھیں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے انسداد دہشت گردی ونگ کی جانب سے ایک فون کال موصول ہوئی جس میں انھیں فوراً پیش ہونے کا کہا گیا۔

انھوں نے فوراً اپنے چند جاننے والوں سے رابطے کیے جس پر انھیں معلوم ہوا کہ ایف آئی اے ان مصنفین کی فہرست پر کام کر رہا ہے جو فوج پر تنقید کرتے ہیں اور اس میں ان کا نام بھی موجود ہے۔

طہٰ صدیقی نے بتایا ’میں اسی وقت سمجھ گیا تھا کہ یہ دباؤ کہاں سے آ رہا ہے۔؟‘ انھوں نے مزید بتایا کہ انھیں اکثر ان کے کام کے حوالے سے سکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے فون کالز آیا کرتی تھیں۔

انھوں نے عدالت سے حکم نامہ تو حاصل کر لیا کہ ایف آئی اے انھیں گرفتار نہ کرے لیکن ان کی پیشی کا بلاوا اپنی جگہ قائم رہا۔

ان کا کہنا ہے ’میں بہ مشکل ہی سنجیدہ صحافت کر سکتا ہوں، فوج جس نے اس ملک پر گہرے نقش چھوڑے ہیں کے بارے میں بات کیے بغیر۔‘

’مجھے حکام کی اتنی پریشانی نہیں جتنا کہ مجھے پر خاندان اور دوستوں کی جانب سے خاموش رہنے کا دباؤ ہے۔‘

صحافی

’حیران کن انکشافات‘

طہٰ صدیقی کو جسمانی طور پر تو کوئی نقصان نہیں پہنچا لیکن دیگر افراد ان کی طرح اس معاملے میں خوش قسمت نہیں تھے۔

اکتوبر کے آخر میں اسلام آباد میں جنگ گروپ کے رپورٹر احمد نورانی پر چھ افراد نے بہت بری طرح تشدد کیا۔

پاناما پیپرز کیس کی سماعتوں کے دوران ان کی تحقیقات نے سپریم کورٹ کی جانب سے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیے جانے اور فوج کے کردار کے حوالے سے حیران کن انکشافات کیے تھے۔

فوج پر انگلیاں اٹھنے لگیں جس کے بعد اس نے اسے ’افراتفری پھیلانے کی گھٹیا کوشش‘ قرار دے کر خود کو اس سے دور کر لیا۔ یہاں تک کہ احمد نورانی کے لیے ہسپتال میں پھول بھی بھیجے گئے۔

رپورٹرز ساں فرنٹئرز(آر ایس ایف) کی جانب سے بنائی جانے والی ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس 2017 کی 180 ممالک کی فہرست میں پاکستان 139 ویں نمبر پر ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کا شمار صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک میں ہوتا ہے۔

آر ایس ایف کے پاکستان میں نمائندے اقبال خٹک کا کہنا ہے ’صحافیوں کو دونوں ریاستی اور غیر ریاستی عناصر سے خطرہ ہے۔‘

اقبال خٹک نے مزید کہا ’رواں سال اب تک کم از کم پانچ صحافی مارے جا چکے ہیں۔ بعض مقامی سیاست کی وجہ سے اور کچھ ذاتی دشمنی کا شکار ہوئے جبکہ بظاہر ایک قتل میں شدت پسندوں کا ہاتھ لگتا ہے۔‘

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے ایک سینیئر رکن کا کہنا ہے کہ ایسے کوئی آدھے درجن سے زیادہ واقعات پیش آئے ہیں جن میں صحافیوں کو یا تو دھمکیاں دی گئیں یا پھر انھیں قتل کرنے کی بجائے صرف متنبہ کرنے کے لیے جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

انھوں نے مزید کہا ’ایسے واقعات زیادہ تر ملک کی طاقتور خفیہ اسٹیبلشمنٹ سے جوڑے جاتے ہیں یا پھر مسلح شدت پسند گروپوں کے ساتھ جو اسٹیبلشمنٹ کی مہربانی سے شہروں کے مرکز میں موجود ہیں۔‘

صحافی

’مسلح علیحدگی پسند بغاوت‘

اکتوبر میں صوبہ بلوچستان میں مسلح علیحدگی پسندوں نے میڈیا کو دھمکی دی کہ اگر صحافیوں نے ان کے بقول ’یک طرفہ بیانیہ‘ رپورٹ جاری کرنا بند نہ کیا تو وہ کارروائی کریں گے۔

اس دھمکی کے بعد صوبے کے کئی پریس کلب بند ہو گئے، بعض اخباروں نے اشاعت روک دی۔

اس صوبے کے صحافی ریکارڈ پر بولنے سے تو کتراتے ہیں لیکن نجی گفتگو کے دوران وہ بتاتے ہیں کہ وہ ایک مشکل صورت حال میں پھنس گئے ہیں۔

کوئٹہ کے ایک سینیئر صحافی کا کہنا ہے ’جب ہم فوج یا مذہبی گروپوں کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں رپورٹ کرتے ہیں تو ہمیں دھمکایا جاتا ہے اور ہمارے سرکاری اشتہارات بند کر دیے جاتے ہیں تاکہ مالی تنگی ہو اور جب ہم رپورٹ نہیں کرتے تو علیحدگی پسند ہمیں دھمکیاں دیتے ہیں۔‘

اور ایسا صرف بلوچستان میں ہی نہیں ہوتا۔

صحافی

ایک رپورٹر نے بی بی سی کو بتایا کہ افغان بارڈر بند ہونے کی وجہ سے ٹماٹروں کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ رپورٹ کرنے پر فوجی ٹیلی فون سے کسی نے کال کر کے ان کی سرزنش کی۔

بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ پولیس اور عدالتیں مذہبی گروپوں کو قانون سے باہر سمجھتی ہیں۔

جون میں ایک واقعہ پیش آیا تھا جس میں اسلام آباد کی ایک بڑی مسجد کے مذہبی محافظوں نے ایک ٹی وی چینل کے عملے کے ارکان پر حملہ کیا تھا۔

دن نیوز کے عملے کے ارکان مسجد انتظامیہ کی جانب سے مبینہ بجلی چوری کی ویڈیو بنانا چاہتے تھے۔

ٹی وی کے عملے میں شامل راشد عظیم نے بتایا ’میں نے اپنا کیمرہ لیا اور ریکارڈنگ شروع کی تو وہاں چند داڑھی والے افراد جو بظاہر مسجد میں ٹھہرے ہوئے تھے مجھے دیکھنے لگے۔‘

اس کے بعد راشد عظیم مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے چلے گئے۔ راشد نے بتایا ’جب میں وضو کر رہا تھا تو انھوں نے مجھے پکڑ لیا۔‘

’میں زمین پر گر گیا اور انھوں نے مجھے نصف کھلے دروازے کی جانب گھسیٹنا شروع کر دیا جس کے درمیان سے مجھے سیڑھیاں دکھائی دے رہی تھیں جو تہہ خانے میں جاتی تھیں۔‘

اسی دوران راشد کے ساتھیوں نے اتنا کیا کہ اپنی گاڑی کو مسجد کے مرکزی دروازے کو بند ہونے سے روکنے کے لیے استعمال کیا، چند لمحوں کے لیے حملہ آوروں کا دھیان ہٹا اور اسی دوران راشد عظیم وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔

اسی عملے میں شامل رپورٹر علی عثمان نے بتایا ’راشد کے سر، چہرے اور جسم کے دیگر حصوں پر خراشیں تھیں اور اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔‘

چند دنوں بعد متاثرہ شخص اور انھیں بچانے والے کو پولیس نے بتایا کہ ان پر مسجد انتظامیہ نے ماہ رمضان میں روزے کے دوران پانی پینے کا الزام لگایا جو کہ پاکستان کے اسلامی قوانین میں جرم ہے۔

جہاں تک حملہ آوروں کا تعلق ہے انھیں عدالت کی جانب سے متاثرہ شخص کی درخواست خارج کرنے کے بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔

علی عثمان کہتے ہیں ’کیس کو ختم ہی سمجھیں اور ہم اسے جاری بھی نہیں رکھنا چاہتے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp