عمران خان نا اہلی کیس: کیا فیصلہ میں اضافی نوٹ ضروری تھا؟


ان دنوں عزت مآب جسٹس جناب فیصل عرب کے ایک اضافی نوٹ کا کافی چرچا ہو رہا یے۔ عزت مآب جج نے یہ نوٹ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی قومی اسمبلی کی رکنیت سے نا اہلی کی درخواست سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے آخر میں تحریر کیا ہے۔ گو میں قانونی فیصلوں میں بیان واقعات، شواہد اور معلومات کو اس علمی سطح پر پرکھنے کی استطاعت نہیں رکھتا جس کسوٹی پر اسے ایک ماہر قانون پرکھتا یے لیکن میں اس اضافی نوٹ کو کے مطالعہ سے اپنے علمی اشتیاق کی کچھ تشفی چاہتا تھا۔ سو میں نے عدالت عظمٰی کی ویب سائٹ پر انٹرنیٹ کے ذریعے رسائی حاصل کرتے ہوئے Constitution Petition No 35 of 2016 کے فیصلہ کی الیکٹرانک کاپی حاصل کر لی۔

عزت مآب جسٹس فیصل عرب کا اضافی نوٹ 143صفات پر مشتمل فیصلہ کے صفحہ نمبر 131 سے شروع ہو کر فیصلہ کے آخری صفحہ یعنی 143 پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ اضافی نوٹ کل 12 پیراگرافس پر مشتمل ہے۔ میں 10 صفحات پر مشتمل یہ 12 پیراگراف دو دفعہ پڑھ چکا ہوں۔ سچ پوچھیں تو کچھ پلے نہیں پڑا۔ اس کی وجہ انگریزی زبان پر میری کمزور گرفت ہرگز نہیں۔ یہاں میں اپنے انگریزی دان ہونے کا دعوٰی نہیں کر رہا بلکہ عزت مآب جسٹس جناب فیصل عرب کی سادہ زبانی کی تعریف کرنا چاہتا ہوں۔

محترم جج صاحب نے اپنا اضافی نوٹ ایسی سادہ اور سلیس انگریزی زبان میں لکھا ہے جسے ایک درمیانے درجہ کی انگریزی زبان سمجھنے والا بآسانی سمجھ سکتا۔ مسئلہ صرف اتنا ہے کہ عمران خان کی نا اہلی سے متعلق خنیف عباسی کی درخواست مسترد کرنے کے لئے 130 صفحات میں بیان کردہ وجوہات کافی تھیں۔ اس کے لیے انگریزی والا Moreover کرنے کی بظاہر کوئی خاص وجہ نظر نہیں آتی۔ گو تمام 12 پیراگرافس میں عمران خان اور نواز شریف کے مقدمات کی نوعیت میں فرق، عمران خان کے نیازی سروسز سے تعلق کی نوعیت، فلیٹ کی خریداری اور فروخت‘ جمائمہ گولڈاسمتھ سے قرض کی وصولی اور واپسی کے معاملات بیان کیے گئے ہیں لیکن پیرا نمبر 10 سے 12 میں بددیانتی اور بھول یا دانستہ و نادانستہ غلطی میں فرق واضح کرکے یہ بھی باور کرایا گیا ہے کہ بددیانتی وہ تصور کی جانی چاہیےجو ایک عوامی نمائندہ منتخب ہونے کے بعد کرئے مثال کے طور پر ایسے اثاثہ جات جو ایک منتخب رکن یا اس کا خاندان اسمبلی کی رکنیت حاصل کرنے کے بعد حاصل کرے تو ایسے اثاثوں کے متعلق پڑتال کی جا سکتی یے۔

رکن منتخب ہونے سے قبل صرف ایسی صورت میں ہی ایک امیدوار کو نا اہل قرار دیا جانا چاہیے جسے بدعنوانی، خردبرد یا جعل سازی میں کسی عدالت سے سزا سنائی جاچکی ہو۔ جیسا کہ میں اوپر عرض کر چکا ہوں کہ میرے لیے قانونی فیصلوں کی پیچدگیوں کو سمجھنا ممکن نہیں لیکن ایک عام شہری جس کو سیاست اور سیاست سے متعلق ہونے والے قانونی فیصلوں میں دلچسپی ہے کے لیے یہ اچنبھے کی بات یے کہ ایک تنازعہ میں دیے گئے فیصلہ کو ایک اضافی نوٹ کے ذریعہ دوبارہ تقویت پہنچائی جائے۔ اضافی نوٹ بالخصوص پیراگرافس 10۔ 12 میں دیانت داری کی جو کسوٹی فراہم کی گئی ہے اس کے مطابق اگر دیکھا جائے تو نواز شریف اور عمران خان میں فرق محض زیادہ عرصہ اقتدار میں گزارنے کا ہے۔

عمران خان سے اگر 2002 سے پہلے اگر کوئی بادانستہ یا دانستہ غلطی ہوئی تھی تو اس بنیاد پر انہیں بددیانت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ میاں نواز شریف چونکہ کافی عرصہ اقتدار میں رہ چکے ہیں اس لیے انہیں یہ رعایت نہیں دی جا سکتی۔ اب اس اضافی نوٹ کو کئی سیاسی رنگ دیے جاسکتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس کے ذریعہ نوازشریف کے نا اہلی کی باردیگر تصدیق کی گئی ہے۔ جبکہ بعض حلقے یہ تاثر بھی لے سکتے ہیں اس سے عمران خان کے لئے آئندہ انتخابات کے لئے راستہ ہموار ہو گیا ہے کیونکہ اب کوئی فرد 2002 سے پہلے کے معاملات کو جواز بناکر عمران خان کے خلاف کسی عدالتی فورم میں نہیں جاسکے گا۔ میری نظر میں اضافی نوٹ نے پاکستان اور پاکستان سے باہر پائے جانے والے اس عمومی تاثر کو تقویت بخشی ہے کہ ملک میں سیاسی تقدیر کے فیصلے سیاسی ایوانوں میں کم ہی ہوتے ہیں۔ میں اس تحریر کا اختتام معروف صحافی سہیل وڑائچ کے سید طلعت حسین کے ایک 17 دسمبر کو نشر ہونے والے ٹی وی پروگرام میں بیان کیے گئے تاثرات پر کرنا چاہوں گا۔ سہیل وڑائچ کے مطابق کہ شہباز شریف اور عمران خان کو سلیکٹ کر لیا گیا ہے۔ اب قوم آئندہ انتخابات میں ان میں سے ایک امیدوار چن لے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).