گجرات کا سکندر نریندر مودی


وزیر اعظم نریندر مودی کی اپنی ریاست ہونے کے ناطے اور پاکستان کو الیکشن ریلی میں گھسیٹنے پر گجرات کے الیکشن کی اہمیت نہ صرف ہندوستان میں بڑھ گئی بلکہ پاکستان بھی اس کی توجہ کا مرکزبنا رہا۔

تجارتی ریاست کے طور پر جانے والی گجرات کی ریاست جس میں بی جے پی 22 سالوں سے سرکار میں ہے۔ اس کو پہلی بار ریاستی الیکشن میں سخت مقابلے کا سامنا تھا۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی کو الیکشن کے دوسرے مرحلے میں گجرات آکر کمپین کرنی پڑی۔

مشن 150؍کا نعرہ لگانے والی بی۔ جے۔ پی آخری اطلاع آنے تک بی جے پی 100؍ سے بھی کم سییٹیں پر محدود رہی یاد رہے پچھلے الیکشن میں بی۔ جے۔ پی نے 117؍ سیٹیں جیتی تھی۔ کانگریس کو اس بار 80؍ سیٹیں ملی جو کہ پچھلے الیکشن سے 19؍ زیادہ ہیں۔ اس طرح بی۔ جے۔ پی لگا تار چھٹی بار گجرات میں سرکار بنانے میں کامیاب ہوجائے گی۔

گجرات میں بی جے پی کو اپنے 22؍ سالہ اقتدار کی وجہ سے انٹی انکمبنسی ووٹ، جی۔ ایس۔ ٹی، نوٹ بندی، دلتوں اور پٹیلوں کی منظم مخالفت کا سامنا تھا۔ جس کی سر براہی ہاردک پٹیل اور جگنیش موانی کررہے تھے۔ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ گجرات میں 9سے 10؍فیصدی مسلم ووٹ کے باوجود بی جے پی نے لگا تار پانچویں مرتبہ کسی ریاستی الیکشن میں کسی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا۔ مودی اور امیت شاہ مسلمانوں اور ان کے ووٹوں کو کوئی بھی اہمیت دینے کو تیار نہیں ہیں۔ بی۔ جے۔ پی نے ہندوتوا، پاکستان، اورنگ زیب، علاؤالدین خلجی، منی شنکر یر، احمد پٹیل اور وکاس کے نام پر الیکشن لڑا۔ راہل گاندھی کے مندر پر جانے پر بھی بی جے پی نے اعتراض کیا اور ان کو سافٹ ہندوتوا کہا گیا، ارون جیٹلی نے تویہاں تک کہا کہ جب اصل ہندوتوا موجود ہے تو فوٹو کاپی کی کیا ضرورت ہے؟

کانگریس کی پنجاب کی جیت راہل گاندھی کی جیت نہیں تھی، کپتان امریندر سنگھ پارٹی چھوڑ کر ا پنی پارٹی بنانے جارہے تھے۔ جب ان کو وزیر اعلیٰ کا امیدوار بنایا تو انہوں نے اپنی ذاتی حیثیت میں سارا الیکشن جیتا اور حکومت بنائی۔ کانگریس کے صدر بننے کے بعد راہل گاندھی کا یہ پہلا الیکشن تھا۔ گجرات کا سارا الیکشن راہل گاندھی نے لیڈ کیا اور اچھی کارکردگی بھی دکھائی۔

صرف چار مہینے پہلے کوئی بھی کانگریس کو گجرات کے الیکشن میں اہمیت نہیں دے رہا تھا ا ور کانگریس کے پاس کوئی بھی مقامی چہرہ بھی نہیں تھا۔ کانگریس نے جی ایس ٹی، نوٹ بندی، ہاردک پٹیل، جگنیش موانی کے دلت، اپلیش ٹھاکر اور راہل گاندھی کی نوجوان قیادت پر بھروسہ رکھا۔ کہا جائے تو کانگریس نے معیشت کے ساتھ ساتھ ذاتوں اور دھرم پر بھی پورا زور لگایا تو غلط نہیں ہوگا۔ مگر ایک کمزور پارٹی تنظیم اور کسی واضح ایجنڈا کے بغیر کانگریس حکومت بنانے میں کامیاب نہ ہوسکی۔

جگنیش موانی جو دلت ذات کے بڑے رہنما بن کر ابھرے اور کانگریس نے ان کے خلاف کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا، اپلش ٹھاکر او بی سی لیڈر ہیں اور کچھ وقت پہلے ہی کانگریس میں شامل ہوئے ہیں۔ دونوں نوجوان رہنما اپنی سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئے اور ا اگلی بی جے پی سرکار کو کڑا مقابلہ دیں گے۔ پٹیل اندولن کے رہنما ہاردک پٹیل جو کہ صرف 24؍ سال کے ہیں انہوں نے الیکشن نہیں لڑا، پٹیل ووٹ احمد آباد اور سورت میں کوئی اثر نہ دکھا سکا۔ جو اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ مسلمانوں کی طرح پٹیل ووٹ بھی تقسیم ہوگیا۔ شہری پٹیلوں نے بی جے پی اور کسان پٹیلوں نے کانگریس کو ووٹ دے دیا۔

شہری علاقوں کے باہر بی جے پی کو پٹیل ووٹ کم پڑا جو کہ سوراشٹر کے علاقے میں دیکھا جاسکتا ہے جہاں کانگریس نے 9؍سیٹیں زیادہ جیتی شہری علاقوں میں کانگریس کی کار کردگی اچھی نہیں رہی۔ جہاں %85 شہری ووٹ بی جے پی کو پڑا ا وروہاں صرف %15 کانگریس کو پڑا۔ سورت شہر جو ٹیکسٹائل کا مرکز کہلاتا ہے جہاں جی ایس ٹی کے خلاف 21؍ دنوں کی ہڑتال اور ہاردک پٹیل کے 15؍ کلو میٹر کا روڈ شو ہوا تھا اس کے باوجود بھی کانگریس ایک بھی سیٹ جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ سورت کی تمام 12؍ سیٹیں بی جے پی کے ہاتھ میں چلی گئی۔ حالانکہ کئی سیٹوں پر بی جے پی کی جیت کا مارجن 1000؍ 2000 ووٹوں کا ہے۔ سوراشٹر کے علاقے میں بی جے پی کو 13؍ سیٹوں کا نقصان ہوا۔ اور کانگریس اپنی سیٹیں 17؍ سے 33؍ تک پہنچانے میں کامیاب ہوئی۔
نریندر مودی نے گجرات الیکشن میں 31؍ ریلیاں نکالی، اور الیکشن کو خود لیڈر کیا اور گجراتی سینٹی منٹس کا بھر پور استعمال کیا، مودی نے منی شنکر ایر کے نیچ کمنسٹس کو گجراتی پرا ئیڈ پر حملہ قرار دیا اور گجراتیوں کی غیرت کو جھنجھوڑا۔ بی جے پی کا ووٹ ایک فیصد بڑھ کر تقریباً %50 رہا اور کانگریس کا ووٹ %4 بڑھ کر %44 کے قریب رہا۔

کانگریس اپنی ریاستیں نہیں بچا پارہی اور دوسری طرف مودی اور بی جے پی نہ صرف اپنی ریاستیں بچارہی ہیں بلکہ ہماچل پردیش جیسی ریاستوں میں بھی جیت رہی ہے۔ آج کی دونوں ریاستیں جیتنے کے بعد بی جے پی کی حکومت انڈیامیں کل 14؍ ریاستوں میں ہے اور 5 میں وہ حکومتی اتحاد کا حصہ ہے اور کانگریس کے پانچ صرف 5؍ریاستیں بچی ہیں جس میں سب سے بڑی ریاست کرناٹکا اور پنجاب ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مودی کی لہر میں ابھی بھی جان باقی ہے۔ آگے کر ناٹکا، راجستھان، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پر دیش میں الیکشن آنے والے ہیں۔ کیا یہ گجرات الیکشن کانگریس کی گراوٹ کو روکے گا؟ پارٹی میں نئی روح پھونکے گا؟ اور کیا راہل گاندھی کی کانگریس کے مکمل کنٹرول میں آسانی ہوگی؟ یہ سب آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
فی الحال مودی اور امیت شاہ کی سیفرون لہر زوروں پر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).