نئی نسل اور ہماری ذمہ داری


وقت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اور دنیا کے حالات کے ساتھ ساتھ اس کے تقاضے بھی روز بروز تبدیل ہورہے ہیں۔ دنیا کی اقوام ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کےلئے خوب محنت کررہی ہیں۔ نت نئی ایجادات ہورہی ہیں اور ان یجادات کے ذریعے دنیا اور دنیا کی معیشت پر اپنا اپنا سکہ جمایا جارہا ہے۔ یہ سکہ علم کی بدولت ہے، تعلیم کی بدولت ہے۔ جو ممالک تعلیم کے میدان میں آگے ہیں وہ دنیا پر غلبہ حاصل کیے ہوئے ہیں۔ ہمارا ملک پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جسے بدقسمتی سے تعلیم کے میدان میں بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے۔ ہم سیاسی معاملات کے فوری حل کے لئے تو ایمرجنسی لگا لیتے ہیں مگر افسوس کہ قوم کی تعلیمی زبون حالی کے باوجود آج تک تعلیمی ایمرجنسی نہیں لگا سکے۔ ایک تو خود ہمارے پالیسی ساز اداروں اور افراد کی ترجیحات میں تعلیم کہیں آتی ہی نہیں ہے کہ اس کے لئے کوئی منصوبہ سازی ہوسکے، رہی سہی کسر نصاب نے پوری کردی ہے۔

نصاب کسی بھی تعلیمی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک نسل ہوتی ہے جو نصاب پڑھ کر تیار ہوتی ہے۔ کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ ہم اپنی نسلوں کو کیا پڑھا رہے ہیں؟ کسی کے پاس نہ وقت ہے نہ دلچسپی کہ کوئی جائزہ ہی لے سکے کہ ہم اپنی نسلوں اور ان کے ساتھ پیدا ہونے والی ان کی صلاحیتوں کو کیسے اس نصاب کی چھری سے ذبح کرتے ہیں۔ جو ممالک تعلیم میں ہم سے بہت آگے ہیں اور دنیا میں اپنی ایک حیثیت تسلیم کروا چکے ہیں ذرا ان کے نصاب پر نظر ڈالیں کہ وہ اپنے بچوں کو کیا پڑھا رہے ہیں جسے پڑھ کر ان کا بچہ ایک مفید اور بہتر شہری بن جاتا ہے اور ملک کی ترقی میں حصہ دار بھی۔ اگر تھوڑا جائزہ لیا جائے تو یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ وہ صرف مضامین ہی نہیں پڑھاتے بلکہ زندگی گذارنے کے اصول سکھاتے ہیں۔ ایک شہری کی کیا ذمہ داری ہوتی ہے، کیا حقوق ہوتے ہیں، ملک کے کیا قوانین ہیں اور ان قوانین کے مطابق کیسے زندگی گزاری جائے؟ یہ سب وہاں پڑھایا جاتا ہے۔

معاشرہ میں کسی فرد کی زندگی دوسرے افراد کے باہمی تعاون سے چلتی ہے۔ اس لئے ہر فرد پر کچھ قواعد و ضوابط ہیں جو فرد پر لاگو ہوتے ہیں تاکہ اس کے کسی عمل سے دوسرے افراد کو تکلیف نہ پہنچے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں جیسے مضامین کا بیڑہ غرق ہے اسی طرح اخلاقیات سے دامن بھی خالی ہے۔ بے ہنگم ٹریفک، ہر طرف شور، ایک دوسرے سے عداوت، نا پسندیدگی، جا بجا رکاوٹیں اور ان رکاوٹوں پر شرمندگی کے بجائے دیدہ دلیری، پبلک ٹرانسپورٹ میں جانوروں کی طرح سفر اور اس پر بے انتہا تیز موسیقی، کسی نجی محفل کی خاطر پوری گلی یا سڑک بند اور لاوڈ اسپیکر کے شور کے ساتھ فائرنگ۔ یہ سب ہماری وہ حرکات ہیں جن سے دوسرے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے مگر ہم مثالی بے حسی کا مظاہرہ فرماتے ہوئے کبھی خود کو بدلنے کی سعی نہیں کرتے۔

دراصل ہماری اخلاقی تربیت ہوئی ہی نہیں ہے۔ ہمیں صرف پڑھایا جاتا ہے، سکھایا نہیں جاتا۔ ہمیں پڑھایا جاتا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے کر کے دکھائی نہیں جاتی۔ اسکول میں موجود استاد بھی اپنی میز کی صفائی کے لئے چپڑاسی کو آواز دیتا نظر آتا ہے تو بچے کیسے صفائی کرنا سیکھیں گے؟ جاپان میں بچے اپنے اسکول کو خود صاف رکھتے ہیں یہاں ایسی کوئی عملی مشق نہیں کروائی جاتی۔ کہیں کسی مدرسے، اسکول، کالج، یونیورسٹی میں کوئی ایسی مشق نہیں ہے کہ طلبا کو سڑک پر لاکر سکھایا جاتا ہو کہ آپ نے کس صورتحال کا کس طرح سامنا کرنا ہے؟ آپ کی کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟

اس طرح کی ان گنت مشقیں ہیں جو طلبا سے کروائی جاسکتی ہیں۔ انہیں سکھایا جاسکتا ہے کہ کس وقت ان کے کیا فرائض ہیں؟ اور صرف فرائض ہی نہیں بلکہ ان کو ان کے تمام حقوق سے بھی آگہی ضروری ہے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اپنے حقوق بھی حاصل کرسکیں۔ ہمارا نصاب ہمیں لکیر کا فقیر تو بناتا ہے مگر افسوس کہ اس میں نئی جدت، نئے رجحان، نئی صلاحیتوں کے مظاہرے کی کوئی جگہ نہیں بنتی۔ ذرا سوچیں کہ اگر وقت کے ساتھ ساتھ ہر شعبے میں کچھ سر پھروں نے جدت کو نا اپنایا ہوتا، نئے تجربات نہکیے ہوتے تو ہم آج بھی وہیں ہوتے جہاں سے چلے تھے۔ محمد حسین آزاد اور ن۔ م۔ راشد قافیہ اور ردیف کے چنگل سے جان نہ چھڑاتے تو ہم آزاد نظم سے محروم ہوتے۔ نیوٹن اگر اسکول میں ملنے والے مارکس کے چکر میں پڑ جاتا تو سائنس وہیں ہوتی جہاں تھی۔

خدارا اب بھی وقت ہے کہ سنبھل جائیں نئی نسلوں کی آبیاری نئے اصولوں پر کریں ورنہ یہ کونپلیں کیسے درخت بن پائیں گی یہ ہم سب کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کے لئے کچھ بھی اچھا نہیں چھوڑا۔ یہ فضائی، آبی، صوتی آلودگی، یہ شدت پسند نظریات اور ان پر عمل پیرا گروہ، دہشت گردی، کمزور اور قرضہ میں جکڑی معیشت، بے روزگاری اور ان گنت مسائل۔ تو کیا ہم اب اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ انہیں اچھی تعلیم و تربیت دے دیں تاکہ وہ خود ان مسائل سے اچھی طرح نبردآزما ہوسکیں۔ ہم ان کو اچھا ماحول تو نہیں دے سکے کم از کم انہیں صلاحیت ہی دے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).