ہم سب نیم برہنہ تصاویر ۔۔حسنین جمال کو جواب عرض ہے!


میری سمجھ میں یہ نہیں آ رہا کہ حسنین جمال بھائی کے مضمون کا جواب دینا کہاں سے شروع کیا جائے۔ ابتدا سے جہاں سے انہوں نے عجز کا اظہار کرتے ہوئے فلسفہ اور نفسیات سے پیدل ہونے کا اقرار کیا ہے یا مضمون کے آخرسے جواب دینا شروع کیا جائے جہاں پر دلیل سے زیادہ ذاتیات کی تپش محسوس ہو رہی ہے۔گو کہ غالب امکان ہے کہ اس پلڑے میں انہوں نے صرف مجھے نہیں بلکہ ان تصویروں کے مخالف سبھی افراد کو ڈالا ہو گا۔ میرے مضمون شائع ہونے کے فورا بعد حسنین بھائی کا مضمون شائع ہوا اس لیے مجھے کچھ ذاتیات کی تپش محسوس ہوئی جو کہ ہوسکتا ہے باطل گماں سے زیادہ کچھ نہ ہو۔

حسنین بھائی نے کہا ہے کہ جسے پارسائی کا دعویٰ ہو وہ اپنا واٹس ایپ چیک کر لے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پارسائی قطعا کوئی ایسی گالی نہیں ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ میرا موبائل گھر میں میرے بچوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے تو کبھی بہن اس سے کالیں کر رہی ہوتی ہے۔ کم از کم اپنی ذات کی حد تک کہہ سکتا ہوں کہ تنہائی اور محفل کی زندگی میں فاصلہ قدرے کم ہی ہے۔  اس ملک میں بارہا ایسا ہوا کہ سچ بولنے پر بھی پارسائی کے طعنے سننے کو ملے لیکن خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ لبرل ازم کی ایک انتہا ایسی یقیناًموجود ہے جہاں سچ ایک متعلق اصطلاح ٹھہرتی ہے ۔ جہاں دھوکہ دہی کے لیے مکمل دلائل موجود ہیں ۔ جہاں طاقت کےحصول کے لیے ہر طرح کا استحصال جائز ہے ۔ جہاں انارکی دنیا کا بہترین نظام ہے۔ جہاں انسان ارادے میں قطعا خودمختار نہیں بلکہ بس ایک جانور ہے جس کا رہبر کچھ جبلی تقاضے ہیں۔ جہاں اخلاقیات موضوعی خرافات ہیں۔

آپ نے مضمون کے آغاز میں اپنے متعلق کے عجز بھرا جملہ  لکھا کہ فقیر فلسفہ اور نفسیات میں نابلد ہے۔ عرض ہے کہ ہم سب طالبعلم ہیں، اور طالبعلم کی حیثیت سے ہی بات کرتے ہیں۔ سرے سے نابلد ہونے کا دعویٰ وہاں تک تو جائز ہے جہاں آپ کو ئی دعویٰ کرنے نہ جا رہے ہوں لیکن جب آپ کا مقصد کسی موضوع پر دلائل دینا ہو تو پھر آپ کو کسی نہ کسی علمی و عقلی ریفرنس سے بات کرنی پڑتی ہے۔ یہ کیسی بات ہے کہ میں کہوں کہ فقیر عقل (فلسفہ نفسیات) سے تو نابلد ہے لیکن ایک ایسے موضوع پر چھلانگ لگانا اپنا بنیادی حق سمجھتا ہے ۔ عقل رہبر ہو نہ ہو ۔۔میرے جذبات  تومیرے رہنما ہیں۔ اس لیے جو میرے دل کو بات اچھی لگے گی اس کو بھی دلیل کہہ کر بات آگے بڑھاؤں گا۔

آپ نے ساتھ ہی فرمایا، “فرائیڈ نے انسان کے سگریٹ پینے کی جو لاشعوری وجہ شعوری طور پہ بتائی تھی، اسے دریافت کریں اور جانیں کیا واقعی یہ دونوں علوم سادہ سی بات کو پیچیدہ نہیں بنا دیتے؟ ” آپ کے اس فقرے پر اتنا کہنے کی اجازت چاہتا ہوں کہ فرائیڈ نفسیات کے ایک سکول تحلیل نفسی سے تعلق رکھتے ہیں۔ فرائیڈ سگمنڈ کی اہمیت اس حوالے سے اہم ہے  کہ بنیادی تین بڑے مکتبہ فکرجہاں سے نفسیات نے جنم لیا ان میں ایک کے بانی ہیں۔ فرائیڈ کی اصطلاحات شعور لاشعور یا تحت الشعور وغیرہ کا سائنس سے کوئی تعلق نہیں۔ نہ ہی ان کی سگریٹ پینے کی وجوہات  جس کی جانب آپ نے اشارہ کیا ہے اس کا سائنس سے کوئی تعلق ہے۔ پھر ان کے کچھ بچوں کی نشوونما کے حوالے سے نظریات ہیں جن کی مخصوص اہمیت ہے۔ سائیکو تھراپی میں تحیل نفسی کا کردار اب کہیں زیادہ محدود ہو چکا ہے۔ نفسیات ، رویوں کی سائنس سے اب عقلی معاملات کی سائنس پر کھڑی ہے جہاں اسکے دائیں کاندھے پر نیورولوجی کھڑی ہے۔دونوں کا ایک خوبصورت بچہ بھی ہے جسے سائیکو بائیالوجی  اور نیوروسائیکالوجی کہتے ہیں۔ گذشتہ ایک صدی میں بیسیوںمکتبہ فکر آئے لیکن دوام اسی کو رہا جو سائنس کے اصولوں کے پاس کھڑا رہا۔ نفسیات  اور فلسفے نے کسی معاملے کو پیچیدہ نہیں بلکہ سہل کیا ہے۔ بات فقط”سادہ سی بات” نہیں ہوتی۔

پھر آپ نے وہی موضوعیت کی دلیل کا سہارا لیا ہے۔ یہاں موضوع گفتگو ہی کچھ اور تھا ۔ اے پی اے کی تحقیق کچھ اور تھی ۔میں آپ سے کہوں کہ سچ اور دیانت موضوعی باتیں ہیں حسنین صاحب کے بٹوے میں سے ایسے وقت میں پیسے اڑانے میں کوئی حرج نہیں جب وہ نہ دیکھ رہے ہوں ۔۔تو کیا یہ واقعی موضوعی معاملہ ہو گا؟ یہاں اگر آپ یہ کہیں گے کہ نہیں ہمارے درمیان ایک معاشرتی و سماجی معاہدہ ہے جس کا ہم میں سے ہر دو کو احترام کرنا چاہئیے تو جان لیجئے کہ اب آپ ‘اخلاقیات’ کو بیچ میں لا رہے ہیں۔ اگر اخلاقیات کا لفظ آپ کو برا لگے تو بھلے کوئی اور لفظ لے آئیے مجھے کوئی اعتراض نہیں  لیکن جب بات سماجی معاہدے کی پاسداری پر ہوگی تو کسی رویے کو علم نفسیات ضرور جانچے گا جس سے ڈپریشن پھیل رہا ہو گا۔ جس سے مختلف ذہنی عارضے پھیل رہے ہوں گے ۔ جس سے زندگی کی خوبی اور معمول  متاثر ہو رہے ہوں گے۔

آپ ایک دلیل یہ لے کر آئے کہ ایسی تصویروں پر سنی لیون کو اعتراض نہیں ہو گا اور یہ ان کی مرضی و منشا سے اتاری گئی تصاویر ہیں۔ یہاں آپ سے ایک سوال پوچھنے کی جسارت کروں گا۔ کیا ایسی خواتین جو شٹل کاک برقعے میں  قید ہوتی ہیں اور گھر کی چار دیواری سے باہر قدم نہیں رکھ سکتیں ۔۔خوش ہوتی ہیں؟ آپ کو جان کر حیرت ہو گی کہ بہت ساری ایسی خواتین خوش ہوتی ہیں۔کیا آپ جانتے ہیں بہت سی خواتین کو خاوند کی مار میں ایک لطف آتا ہے اور وہ ان کے لیے معمول بن جاتا ہے اگر اس معمول میں تعطل آ جائے تو وہ قصدا ایسی حرکت کرتی ہیں جس سے خاوند مشتعل ہوکر زدو کوب کرے، تو بظاہر تو ایسے کیسز میں لگتا ہے جیسے متاثر ہونے والی خواتین خوش ہیں تو ہم کیوں ان پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ لبرل ازم کی انتہائی تعبیر کے مطابق تو ہمیں ایسی آواز نہیں اٹھانی چاہیے جو کسی کی خوشی کے خلاف ہو ۔

ان دونوں باتوں کا جواب نفسیات کی مشہور زمانہ تھیوری ‘کلاسیکل کنڈیشننگ’ میں پنہاں ہیں۔ کلاسیکل کنڈیشننگ قدرے طویل اور اصطلاحات سے بوجھل تھیوری ہے سادہ الفاظ میں کوئی سٹملس(محرک) کسی دوسرے محرک سے مشروط ہوکر  مریض کو ‘کنڈیشنڈ ‘ کر دیتا ہے۔ یعنی ایک محرک یہ ہے کہ خاوند مارتا ہے۔ خاوند کا غصہ جب ٹھنڈا ہوتا ہے تو وہ پیاربھرے کچھ جملے کہہ دیتا ہے جو وہ ویسے کبھی نہیں کہتا۔ تو ان دو محرکات کے پیچیدہ نفسیاتی عوامل سے آپ کنڈیشنڈ ہو جاتے ہیں اور آپ کو عادت پڑ جاتی ہے۔ایک صورت تو یہ ہے کہ جس میں ایک متاثرہ فریق ایک خاص صورتحال سے جان چھڑانا چاہتا ہے ۔ آپ مدد کو آگے بڑھتے ہیں تو متاثرہ فریق آپ کے ساتھ ہوتا ہے اور آپ اس کے لیے جابر سے جنگ کرتے ہیں۔ لیکن سب سے مشکل صورتحال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب متاثرہ فریق پر ظلم بھی ہو رہا ہو اور وہ اس میں ‘کنڈیشنڈ’ بھی ہو چکا ہو۔اب آپ کے سامنے دو محاذ کھل جاتے ہیں۔

اگر سنی لیون اپنی مرضی سے تصویریں کھنچوائے تو اس کی ذات تک تو کسی کوکوئی مسئلہ نہیں لیکن اگر  معاشرے میں منفی اثرات ، سائنسی طریقہ کار سے نوٹ کیے جائیں تو پھر یہ بھی سائنس کی ہی ذمہ داری ہے اس معاملے کو رپورٹ کرے۔ آپ کا کیا خیال ہے ہماری بچیاں اس لیے پیدا ہوئیں ہیں کہ زندگی کا بیشتر حصہ جنس  مخالف کا دل لبھانے کے لیے جسم کے خدوخال  میں پھنسی رہیں؟

آپ نے فرمایا کہ کہ ثانیہ مرزا تو ٹینس کھیل رہی تھی اس کی تصویرمیں نیک صفت اسے ٹینس کھیلتا ہوا بھی دیکھ سکتا جبکہ کسی بدفطرت کی نگاہ  کہیں اور جا کر رکے گی۔ معاملہ یہ ہے کہ ثانیہ مرزا کی بہت سی تصاویر آتی ہیں جن میں وہ واقعی ٹینس کھیل رہی ہوتی ہیں۔ ان کے جسمانی خدوخال انکی  خوبصورت شخصیت کا حصہ ہیں۔ ان تصاویر میں ان کی شخصیت نمایاں طور پر سامنے نظر آ رہی ہوتی ہے۔ ایسی تصاویردوسری نوجوان لڑکیوں کو اکساتی ہیں کہ وہ بھی ٹینس کھیلیں۔ لیکن جس تصویر کی جانب میرا اشارہ تھا وہاں ایک باڈی پارٹ کو کچھ اس طرح دکھایاگیا کہ ٹینس اور شخصیت پیچھے رہ گئیں۔ یہی اے پی اے کی تحقیق کانتیجہ ہے۔

کوئی گلہ نہیں کوئی شکایت نہیں۔آپ کے مضمون سے نکلے کچھ سوالات کا قرض محسوس ہوا۔ قرض ادا ہوا۔ محبت میں نہ کبھی کوئی فرق آیا نہ آئے گا کہ اختلاف کے باوجود باہمی احترام ہم نے ایک ہی شخص سے سیکھا ہے۔ ہمارے استاد وجاہت مسعود ہیں جن کا آپ کو اور مجھے دیا گیا درس ایک ہی ہے۔

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik