ہم سب نیم برہنہ تصاویر: خالد سہیل صاحب سے چند سوال!


پہلے تو میں اپنے آپ کو مبارکباد کا مستحق سمجھتا ہوں کہ آپ نے  میرےمضمون “ہم سب برہنہ تصاویر :حسنین  جمال کو جواب عرض” کے بارے میں ایک تفصیلی کمنٹ دیا۔ آپ سے بحث کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن بعض اوقات اساتذہ کی کی گئی بات سے کچھ سوالات جنم لیتے ہیں ۔ طالبعلم سوال پوچھتے ہیں اور اساتذہ جواب دے کر علم کی بڑھوتری کی ضمانت دیتے ہیں۔ آپ کے کمنٹ سے میرے ذہن میں کچھ سوالات پیداہوئے ہیں۔ یہ تشنگی جہاں سے پیدا ہوئی وہی مقام سیراب بھی کر سکتا ہے۔مجھے یقین ہے کہ سوالات کا معیار چاہے معیاری نہ بھی ہو توآپ کچھ وقت نکال کر جواب ضرور دیں گے۔

سر مجھے نہیں معلوم آپ  ہم سب میں اٹھنے والے اس معاملے سے کس قدر واقفیت رکھتے ہیں۔ مختصرا عرض کیے دیتا ہوں کہ یہ معاملہ گنتی کی پانچ یا سات تصویروں تک محدود ہے۔ ‘ہم سب’ کی عمر دو برس ہونے کو آئی ہے اس میں یہ فریکوئنسی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ لیکن ‘ہم سب’ ایک ایسا پلیٹ فارم جس میں  ہم سب کھل کر  آپس میں بھی اختلاف کرتے ہیں۔مکالمے کی اس خوبصورت روایت کا سہرا وطن عزیز میں وجاہت مسعود کے سرپر ہی باندھا جا سکتا ہے۔ ہم سب کے  کچھ لکھنے والے دوستوں نے ان چند تصاویر پراعتراض کیا۔اب تک اس اعتراض کے پیچھے  دو وجوہات نمایاں دیکھی گئیں۔ ایک یہ کہ بچوں وغیرہ کے لیے یہ مناسب نہیں ہے۔ دوسرا ‘ہم سب’ رواداری مساوات اوراحترام کی روایت لے کر اٹھا ہے ۔اسی بیانئے کا فروغ  ہم سب کی بنیادی ادارتی پالیسی ہے۔ کسی بھی ملک میں  ایک ایسے بیانئے کا فروغ مشکل امر ہوتا ہے جہاں اس کے خلاف ایک خاص ثقافتی مذہبی مزاحمت پائی جاتی ہو۔ ہم سب اس ‘اجنبی بیانئے’ کے باوجود مشہور ہوا۔ ہم سب صرف سیکولر بیانئے کے فروغ کے لیے پلیٹ فارم نہیں ہے بلکہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ سیکولر نظریے کے مقابلے میں بہتر نظریہ رکھتا ہے تو ‘ہم سب’ اس کو بھرپور جگہ فراہم کرتا ہے۔اس اقدام سے ‘ہم سب’ میں ایک  مثبت اور تعمیری مکالمے کا آغاز ہوا ہے۔

ان تصاویر سے سوشل میڈیا پر احتجاج دیکھنے میں آیا۔ ان احتجاج کرنے والوں میں سنجیدہ  طالبعلموں کی تعداد بھی کافی تھی  جویہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ  ان تصاویر کا کیا مقصد ہے جس میں کسی خاتون کی شخصیت کو پس پشت ڈال کر کسی خاص جسم کے حصے کو دکھانا  مقصود ہے۔ ‘ہم سب’ سے بدکنے کی ایک لہر نے جنم لیا اور لہر بڑی واضح تھی۔ ہم یہ سمجھتے تھے کہ ‘ہم سب’ کے قیام کا مقصد بیانئے کا فروغ تھا۔ ہدف وہ طبقہ تھا جن کو ریاست نے جدید تعلیم سے محروم رکھا ہے۔ وگرنہ اس سے پہلے ایسی ویب سائیٹس تھیں جہاں ایک مخصوص بیانئے کے لوگ ہی لکھتے تھے اور اسی بیانئے کو پسند کرنے والے پڑھتے تھے۔ لیکن وہ بہت محدود ہو کر رہ گئے۔ یہاں ہمارا مقصد خوف میں جکڑے لوگوں کو علم کی روشنی کی مدد سے خوف سے نکالنا تھا۔ جب وہی طبقہ کچھ مخصوص تصویروں سے بدک گیا تو حاصل کیا رہ گیا۔ آپ لکھیں گے میں واہ واہ کروں گا، میں لکھوں گا حاشر صاحب تعریف کریں گے۔اس طرح تو ہم پھر محدود ہو کر رہ جائیں گے۔

عرض کرتا ہوں کہ یہاں نیم برہنہ تصاویر سے قطعا مطلب یہ نہیں ہے کہ جس نے مختصر کپڑے پہن رکھے ہیں ۔آپ جانتے ہیں کہ یہاں لکھنے والوں کی اکثریت  عقل کو رہبر مانتی ہے اور انسانی جسم کا مکمل احترام کرتی ہے۔ کسی کو اس سے مطلب نہیں کہ کس نے کیا پہن رکھا ہے۔ اعتراض اس بات پر ہوا کہ ایسی تصاویر دکھانا جس میں کسی مخصوص جسم کے حصے کو ‘کل’ پر فوقیت حاصل ہو جائے نہ ہی بچوں کے لیے مناسب ہے اور نہ ہی ان دوستوں کے لیے جن کے حوالے سے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ ان کو ہم سب کو پڑھتے رہنا چاہیے۔اے پی اے ٹاسک فورس کی تحقیق نے جن مخصوص تصویروں کی بات کی ہے ایسی بمشکل پانچ سے سات تصاویر ‘ہم سب’ پر شائع ہوئی ہیں۔ہم ایسی تصاویر کو اے پی اے سمیت متذکرہ بالا دوسرے عوامل کو ذہن میں رکھتے ہوئے مناسب خیال نہیں کرتے۔

یہ تو تھا پس منظر۔ اب آپ کی رائے سے  پہلاسوال تو یہی ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے ایسی تصاویر کو بچوں کے لیے نامناسب کہا ہے۔ ‘ہم سب’ ایک فیملی میگزین ہے جس میں ہر طرح کا مواد شائع ہوتا ہے۔ تو کیا آپ ایسا نہیں سمجھتے کہ جب یہ بچوں کے لیے نامناسب ہے اور ‘ہم سب’ نے کوئی وارننگ بھی جاری نہیں کی ہوئی تو ایسی تصاویر نہیں چھپنی چاہیئے؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ کہ آپ نے کچھ ایسے افراد کا ذکر کیا جن کے سامنے ننگی لڑکی کھڑی ہو جائے تو انہیں تحریک نہ ہوجبکہ کچھ کو کہنی اشتعال دلا دے۔ سر کیا آپ نہیں سمجھتے کہ پالیسی  انتہاؤں کو نہیں بلکہ “نارمل ڈسٹریبیوشن بیل کرو” کو سامنے رکھ کر بنائی جاتیں ہیں؟

تیسراسوال جنس کے کسی خاص ثقافتی پس منظر میں گناہ سمجھنے کے حوالے سے ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایسے ٹیبوز کو توڑنے کے لیے آخری حل ان تصویروں کو شائع کرنے میں رہ گیا ہے؟

چوتھا سوال ۔ سر اس میں کوئی شک نہیں کہ خود اعتمادی اور جنس کا باہم معاملہ انتہائی پیچیدہ ہے ۔ لیکن  جب  مؤقر تحقیقی اداروں میں شائع ہونے والی تحقیقات اس جانب اشارہ دیں تو ہمیں ان کو سنجیدہ لے کر کچھ اقدامات نہیں اٹھانے چاہییں؟

آخر پر مجھے یہ کہنے دیجئے کہ آپکے مضامین سے سیکھنے کے علاوہ براہ راست سوال کرنے کی سعادت  سےسیکھنے کا ایک اور بہت بڑا ذریعہ ہے۔

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik