بابا رحمت بمقابلہ ملک وال کے اصلی بابے


آجکل چونکہ اک بابے رحمت، جس کو میں اپنی پنجابی بے تکلفی میں ”بابا رحما“ کہوں گا، کا تذکرہ بہت شدت سے آنیاں جانیاں دکھا رہا ہے تو سوچا اپنی زندگی میں آنے والے چند اک بابوں کا ذکر بھی کرتا چلا جاؤں تاکہ تاریخِ بابان میں اپنا نام بھی ہمیشہ کے لیے امر کرلوں۔

تو محترمین، اپنی اپنی سیٹ بیلٹس باندھ لیں۔ یہ سارے بابے ملکوال میں موجود تھے۔ ان بابوں کی عادات اور حالیہ تذکرہ ء بابا رحمت میں کوئی مماثلت محض اتفاقیہ ہوگی، کہ مجھے ابھی نامعلوم نہیں ہونا۔

1۔ بابا گھؤن شاہ: بہت بچپن میں، مشترکہ خاندانی نظام کی ”برکت“ کے باعث، آبائی گھر سے بےگھر ہونا پڑتا تو ہم گلی امبرسریان (امرتسریاں) سے محلہ کوٹلی (کوٹ ولی) ملکوال مبلغ ڈیڑھ سو ماہانہ کرائے پر شفٹ ہو گئے۔ میری عمر شاید سات سال کے قریب ہوگی، اور اس سے قبل اس محلہ میں بالکل نہیں آنا ہوا تھا۔ گھر کی چھت کچی تھی اور پنجابی بہت مختلف تھی۔ وہاں پر تنگ تنگ گلیوں میں لوگ، عموما بزرگ چھوٹی چھوٹی دکانیں بنا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں سے اک دکان بابے گھؤن شاہ کی بھی تھی۔ اصل نام مجھے اب ذہن میں نہیں۔ وہ کافی بزرگ تھے، اور ریح اور بادی کے مریض بھی۔ ان سے خریداری اس وقت اک فاصلے سے کرنا لازم ہوتی تھی جب وہ باآواز بلند اپنی ریح سے نجات حاصل کرتے۔ نظر بہت کمزور تھی تو یار دوست انہیں چونا بھی لگا جایا کرتے تھے۔ چلتے پھرتے وہ اپنی ریح کا آوازی اعلان بھی کرتے رہتے تھے۔ ان کی اک چھیڑ تھی اور یہ چھیڑ کم از کم دو لڑکے مل کر ادا کرتے تھے۔ اک لڑکا پکارتا ”باہلے۔ کون ماردا ا ا ا؟ “ تو دوسرا جواب دیتا ”بابا گھؤن شاہ!“ اس رسم کی ادائیگی کے فورا بعد دوڑ لگا کر اک فاصلہ پر کھڑا ہونا لازم ہوتا تھا، تاکہ بابا کی لٹھ سے محفوظ رہا جا سکے۔ اس پر وہ چڑ کر بہت گالیاں دیتے، اور ہم ہنستے تھے۔ بابے رحمے کی ”ریحانی خوشبو“ اور لٹھ سے کب محفوظ ہوں گے؟ میں نہیں جانتا!

2۔ بابا بتؤں: یہ جلندھری (جالندھری) تھے، اور پنجابی میں وہیں کا اک لوچ لیے ہوئے تھے۔ ان کا بہترین مشغلہ گالیاں نشر فرمانا ہوتا تھا۔ جب انہیں کوئی نہیں چھیڑتا تھا تو یہ خود ہی گویا اک فرمائشی انداز میں چھیڑے جانے کی استدعا کرتے تھے۔ دھان پان اور دبلے پتلے تھے۔ ان کو بھی چھیڑنے کا گُر فرد واحد کے بس میں نہ تھا، اور یہ اک گروہی واردات ہوا کرتی تھی۔ ان کے سامنے لوگ بہانے بہانے سے بینگن، جس کو پنجابی میں بتؤں کہتے ہیں، لے آتے، جو ان کی چھیڑ تھی اور اس پر وہ ”گرم“ ہو جاتے اور اس کے بعد، فرمودات کا اک لمبا سلسلہ چلتا۔ ان کی چھیڑ کا سلسلہ یہ ہوتا تھا کہ اک شخص ان کے پیچھے سے اونچی آواز میں پکارتا ”وؤں وؤں، بابا بتؤں!“ اس کے بعد وہ وہاں سے غائب ہو جاتا، یا سنجیدگی طاری کر لیتا۔ بابا جی کے لپیٹے میں جو بھی آتا، وہ دَل (پِیس) دیا جاتا۔ لٹھ ان کے پاس بھی ہوتی تھی، مگر وہ کبھی وار نہ کرتے تھے۔ گالیوں کی بوچھاڑ کے بعد، وہ آگے روانہ ہوجاتے تاآنکہ کوئی نیا فنڈا شروع نہ ہو جاتا تو۔ بابے رحمے کے ہتھوڑے کے لپیٹے میں باسٹھ سال ہوگئے میرے ملک کا جمہور مسلسل آ رہا ہے، اور نئے فنڈے کا خوف بھی مسلسل طاری ہے۔

3۔ بابا جھلا: یہ بابا بہت تیز تھے۔ اپنی بزرگی کا فائدہ ایسے اٹھاتے تھے کہ جان بوجھ کر کوئی حرکت کر دی تو اس کے بعد ایسے ایکٹنگ شروع کرتے تھے کہ جیسے کچھ کیا ہی نہ ہو۔ مجید سلوری کی دکان سے سموسہ اٹھا کر مونہہ میں ڈال لیا، پکڑے گئے تو ایسے کچھ ہوا ہی نہ ہوا۔ محفوظ کے دہی بڑوں کی ریڑھی سے پاپڑی اٹھا لی، پکڑے گئے تو کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ آتے جاتے صدیق پکوڑوں والے کی دکان سے پکوڑے اٹھا لیے، دیکھے گئے تو ”میں کیہہ کیتا؟ “ کی عملی تصویر بن جاتے تھے۔ لوگ انہیں، اور وہ لوگوں کو جانتے تھے، لہذا یہ شغل میلہ چلتا رہتا تھا۔ مگر یہ شغل میلہ کسی بھی نقصان کے بغیر ہی رہتا۔ بابے رحمے نے ایسا نظریہ ضرورت کا ایسا شغل کیا کہ اس کا نقصان میری ساری زندگی بھگت رہی ہے۔ شاید اگلی نسل بھی بھگتے گی۔

4۔ بابا انڈہ: ان کو لوگ چاچا انڈہ اور راجہ انڈہ کے نام سے بھی جانتے تھے۔ رنگ ایسا تھا کہ لشکارے مارتا ہوا سیاہ، اور اوپر سے بالکل لشکتی ہوئی ٹنڈ۔ ہندوستان سے مہاجر ہوئے اور ساری عمر جان ماری میں گزار دی۔ ریڑھی لگاتے تھے اور کسی بھی قسم کی سودے بازی پر شدید غصے میں آ جاتے اور کہتے کہ ”چل بے چل، میرا مگج نہ کھراب کر!“ اگر ہر روز نہیں تو ہر دوسرے روز ان کا کسی نہ کسی سے کوئی نہ کوئی جھگڑا بن جاتا تھا۔ بازار میں کام کرنے والے مقامی لوگ انہیں اچھی طرح جانتے تھے تو لہذا بات کبھی بھی ہاتھا پائی تک نہ پہنچتی تھی۔ دو چار گالیوں اور تین پانچ اشاروں میں ہی بات نو دو گیارہ ہوجاتی۔ اگلے ہی دن طرفین سلوری کے ہوٹل پر اکٹھے بیٹھ کر دنیا کے تمام مسائل کا شافی حل چائے کی سُڑکیوں میں تلاش کر رہے ہوتے تھے۔ بابے رحمے نے میرا کیا ”مگج کھراب“ کرنا، قوم کی تاریخ ہی بگاڑ دی۔ پھر بھی اصرار ہے کہ سرِ تسلیم کسی بھی شرط کے بغیر خم کیا جائے اور خم ہی رکھا جائے۔ حاضر جناب، حاضر!

رحمت بابا کا ذکر چھڑا ہوا ہے تو اپنے چھوٹے سے قصبے کے یہ معصوم لوگ یاد آ گئے۔ ان کی حرکات کے باوجود ان کا اک عجب سماجی احترام موجود تھا۔ میں جب بھی ملکوال جاتا ہوں تو میری عمر کے لوگ انہیں آج بھی یاد کرکے مسکرا اٹھتے ہیں، اور ان کی باتیں بڑی محبت سے کرتے ہیں۔ بابے رحمے کی وارداتوں نے اسے کتنا اک قابل احترام بنایا ہے، اس کا منطقی نتھارا تو تاریخ ہی کرے گی، مگر کیا ہی عمدہ ہو کہ باہر کی جانب دیکھنے کی بجائے، اک نگاہ گریبان کی جانب ہی ڈال لی جائے۔
بہرحال، امید ہے کہ، بہت کم ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).