وقار احمد کے نام محبت نامہ


وقار احمد صاحب! یہ میری خوش بختی ہے کہ آپ نے اپنے کالم کے بارے میں نہ صرف میرے تاثرات کو غور سے پڑھا بلکہ انہیں پڑھ کر مجھ سے چند سوالات بھی پوچھے۔

سوالات کے جوابات دینے سے پہلے میں اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ میں ایک طویل عرصے سے کینیڈا میں مقیم ہوں اس لیے پاکستان کے زمینی حقائق سے ناواقف ہوں۔ ہزاروں میل دور بیٹھ کر میرا تاثر یہ ہے کہ پچھلی چند دہائیوں میں پاکستان میں مذہبی شدت پسندی میں اضافہ ہوا ہے۔ کئی مذہبی اور روایتی سوچ رکھنے والے جارح ہو گئے ہیں جبکہ کئی سیکولر اور لبرل سوچ رکھنے والے مدافعت پر مائل ہو گئے ہیں کیونکہ انہیں اپنی جان، مال اور عزت کا خطرہ ہے۔ میرا ایک شعر ہے
؎ کیا تم نے کبھی اپنا مقدر نہیں دیکھا
ہر گھر میں جو بستا ہے یہاں ڈر نہیں دیکھا

میں پچھلے چند برسوں سے انگریزی میں لکھ رہا تھا۔ میرے عزیز دوست عارف وقار نے میرا تعارف وجاہت مسعود سے کروایا اور مشورہ دیا کہ میں ”ہم سب“ کے لیے لکھوں۔ میں وجاہت مسعود سے کبھی نہیں ملا لیکن میرے دل میں ان کے لیے بہت احترام ہے۔ اس دور میں انہوں نے ”ہم سب“ کے مدیروں، لکھاریوں اور قاریوں کی جو ٹیم بنائی ہے اس کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ میں ”ہم سب“، کو اردو ادب اور سیاست کا ہائیڈ پارک سمجھتا ہوں۔ یہ اسی ہائڈ پارک کی کرامت ہے کہ آپ اور میں یہ مکالمہ کر رہے ہیں۔

جہاں تک ”ہم سب“ پر تصویریں چھاپنے کا سوال ہے میری نگاہ میں یہ اس کے ادارتی بورڈ کا فیصلہ ہے۔ چونکہ نہ تو میں اس بورڈ کا حصہ ہوں اور نہ ہی مجھے پتہ ہے کہ اس کے کون کون ممبر ہیں اس لیے میں اس حوالے سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اگر آپ اس بورڈ کے ممبر ہیں تو آپ کو اپنے خیالات اور اعتراضات کا پورا حق حاصل ہے۔ میں اتنا جانتا ہوں کہ آپ نے وہ اعتراضات نیک نیتی سے کیے ہیں کیونکہ آپ ”ہم سب“ کو کامیاب اور اس کا مستقبل روشن دیکھنا چاہتے ہیں۔

اب میں آپ کے سوالوں کی طرف آتا ہوں۔ مجھے بالکل اندازہ نہ تھا کہ ”ہم سب“ کو بچے پڑھتے ہیں اور یہ ایک فیملی میگزین ہے۔ کیونکہ تصویروں سے زیادہ اس پر جن سنجیدہ اور دانشورانہ موضوعات پر تبادلہِ خیال ہوتا ہے ان میں سے بہت سے ذہنی بالغوں کے لیے ہیں۔ اگر یہ رسالہ بچوں کے لیے ہے تو مجھے اس کی تشدد آمیز تصاویر پر زیادہ اعتراض ہوتا۔

اگر آپ وہ تصاویر اس لیے نہیں چھاپنا چاہتے کہ اس سے چند روایتی اور مذہبی لوگ ناراض ہو جائیں گے تو آپ ضرور ان پر پابندی عاید کریں۔ مجھے بس اس بات کی فکر ہے کہ کہیں کل کو وہ لوگ یہ بھی شکایت نہ کریں کہ جب آپ عورت لکھاریوں کی تصویریں چھاپیں تو ان کے سر پر دوپٹہ ہو کیونکہ ان کے بال نظر آ رہے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بعض مردوں کے ذہن میں عورتوں کے بال دیکھ کر برے برے خیالات آنے لگتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ایسے ہی لوگوں نے ہماری وزیرِ اعظم بے نذیر بھٹو کو مشورہ دیا تھا کہ وہ نہ صرف دوپٹہ اوڑھا کریں بلکہ ہاتھ میں تسبیح بھی رکھا کریں تا کہ مردوں کے دل میں انہیں دیکھ کر کوئی برا خیال نہ آئے۔

میں ایک نفسیات کا طالب علم ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جنس ہماری ذات اور زندگی کا ایک خوبصورت پہلو ہے۔ میرے ذہن میں جنس کا رشتہ محبت، پیار اپنائیت اور دوستی سے جڑا ہوا ہے گناہ سے نہیں۔

میں آپ سے پوری طرح متفق ہوں کہ عورتوں کو اپنی ذہانت اور اپنے کردار پر پورا اعتماد ہونا چاہیے اور انہیں کسی مرد کو اجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ ان کی بےحرمتی کرے۔ لیکن میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی عورت اچھے کپڑے پہن کر، بال بنا کر اور میک اپ کر کے خوش ہوتی ہے تو ہمیں اسے روکنے کا کوئی حق نہیں عورتوں کی حسِ جمالیات مردوں سے زیادہ ویل ڈیویلپڈ ہوتی ہے۔

میری نگاہ میں اصل بات مرد یا عورت کی آنکھ کی حیا ہے۔ عورت جانتی ہے کہ اس کو کون سی آنکھ دیکھ رہی ہے۔ وہ آنکھ اس کا احترام کرتی ہے یا اسے سیکس آبجیکٹ سمجھتی ہے۔ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ میں عورتوں سے دوستی اور احترام کے حق میں ہوں اور انہیں سیکس آبجیکٹ سمجھنے کے خلاف ہوں۔

میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہر معاشرہ اور ہر عہد شرم، حیا اور عورتوں کے احترام کے اپنے پیمانے اور معیار مقرر کرتا ہے۔ یہ پیمانے وقت اور حالات کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری زبان اردو میں بہت سے جنسی اعضا اور اعمال کے لیے مناسب الفاظ ہی نہیں ہیں۔ جو الفاظ ہیں وہ یا تو گالیاں ہیں اور یا وہ اخلاقیات کو ذہن میں رکھ کر تخلیق کیے گئے ہیں۔ میں نے اردو کے ایک معتبر نقاد کی کتاب میں جب HOMOSEXUALITY کا ترجمہ جنسی بے راہ روی پڑھا تو میں پہلے بہت ہنسا پھر بہت رویا۔

”ہم سب“ کی تصویروں کا ایک پہلو کھیل کا میدان ہے۔ جب کوئی عورت کرکٹ، ہاکی یا ٹینس کھیلتی ہے تو اسے کھیل کی ضروریات کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ وہ برقع پہن کر یا لمبی چادر اوڑھ کر تو ٹینس نہیں کھیل سکتی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یونان میں اولمپکس کھیلنے والے مرد اور عورتیں مختصر لباس پہنتے تھے اور یونانی پھر بھی انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

جہاں تک امریکہ کے نفسیات دانوں کی تحقیق کا تعلق ہے اس پر علیحدہ سے تفصیلی گفتگو ہو سکتی ہے۔ شمالی امریکہ میں رہتے ہوئے میں کئی ایسی خواتین سے ملا ہوں جن کا تعلق شو بزنس یا ماڈلنگ سے تھا۔ اس انڈسٹری میں ان عورتوں پر جو غیر ضروری پابندیاں تھیں وہ حیران کن تھیں۔ ان کا اگر وزن چند پونڈ بڑھ جاتا تو ایک قیامت آ جاتی۔ میں ایسی پابندیوں کے بالکل خلاف ہوں۔ فیشن میگزینز نے جو ماحول اور کلچر بنایا ہے وہ عورتوں کی ذہنی صحت کے لیے اچھا نہیں۔ اس انڈسٹری کی بہت سی عورتیں نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتی ہیں۔

ذاتی طور پر ”ہم سب“ پر جو تصویریں چھپی تھیں وہ میرے نگاہ میں نیم عریاں نہیں تھیں لیکن یہ میری ذاتی رائے ہے۔ اگر ”ہم سب“ کے مریران یہ فیصلہ کریں کہ وہ آئندہ ایسی تصویریں نہ چھاپیں گے تو میں ان کے فیصلے کا احترام کروں گا لیکن وجاہت مسعود اور عدنان کاکڑ کو یہ دوستانہ مشورہ ضرور دوں گا کہ آپ مستقبل میں ایسے فیصلے کرتے وقت اپنی ٹیم میں آدھے مرد اور آدھی عورتیں رکھیں۔ مردوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ عورتوں کی زندگیوں کے بارے میں فیصلے کریں۔ وہ مشورے تو دے سکتے ہین لیکن فیصلے عورتوں کے ساتھ مل کر ہونے چاہئییں۔ اسی لیے بہت سے مغربی ممالک کے سکولوں، کالجوں یونیسورسٹیوں اور پارلیمنٹوں میں کوشش کی جاتی ہے کہ عورتوں کی برابر کی نمائندگی ہو کیونکہ ماضی میں عورتوں کی زندگی کے اہم فیصلے مرد کرتے رہے ہیں۔

مجھے ”ہم سب“ کی یہ بات بھی بہت پسند ہے کہ وہ خواتین لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ وہ بھی جنسیات کی نفسیات پر مقالے لکھیں گی اور ہم سب کو پاکستان کی عورتوں کی نفسیات سے آگاہ کریں گی۔

آخر میں میں ایک دفعہ پھر آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے اس درویش کو عارف وقار اور حاشر ابن ارشاد کے محبت ناموں کے بعد ایک اور محبت نامہ لکھنے پر انسپائر کیا۔
آپ کے دیدار کا متمنی۔
خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail