ہماری اوقات بتاتے جنسی لطیفے


نام تو اس کا کچھ اور تھا لیکن اب بابا رحمت ہی لکھوں گا۔ بابا رحمت بھی قانون کی طرح اندھا ہی تھا تقریبا۔ اس سے حال احوال کرنے گیا تو اپنے ڈیرے پر بیٹھا تھا۔ بابے نے شور مچایا کہ پروہنا آیا ہے کوئی لسی پانی لائے۔ پروہنا نہایت انہماک سے ایک بے ہدایت ککڑ کو دیکھ رہا تھا۔ جو پتہ نہیں کیا سوچ کر اک مرغی کو نیچے بٹھا کر اس سے اپنی ضروری گل بات کر رہا تھا۔

بابے کی گھر والی نے اڑتی جوتی ماری ساتھ اک دل شکن گالی کہ اس حلال دے ککڑ کو ذرا حیا نہیں۔ نہ موقع دیکھتا نہ وقت بس اپنی اگ بجھانے کی پڑی رہتی۔ یہ دیہات کا عام سا سین ہے۔ کسی دن اپنے اس دکھی کزن کا قصہ بھی لکھ ہی دینا ہے جو مدد کرنے کی نیت سے ایک رومان پسند سنڈے اور بھینس کے بیچ آ گیا تھا۔ اس کا سر اب واضح طور پر ٹیڑھا سا ہے، خیر۔

ہماری اکثریتی آبادی دیہات میں رہتی ہے یہی ٹوٹے بچپن سے دیکھتی جوان ہوتی پھر بوڑھی ہو کر مر جاتی ہے۔ کسی اصلی نسلی پینڈو سے ذرا پوچھیں سوہنی مہینوال سے کونسا سبق لینے جاتی تھی ادھی رات کو دریا پار کر کے۔ آپ کو محبت کی پریکٹیکل تعریف بیان کرے گا۔ پاکیزہ سی محبت کا پوچھنے پر کسی اچھے حکیم کا نہ بھی بتائے تو غور سے ضرور دیکھے گا۔

ہم دیکھتے سب کچھ ہیں۔ سمجھتے بھی سب ہیں کس عمر سے سمجھنے لگ جاتے۔ یہ جاننا ہے تو پنجابی میں پپو کے انگریزی میں لٹل جونی کے جوکس سن لیں۔ ایسے لطیفوں کا کبھی اک ذخیرہ جمع کر رکھا تھا۔ بچے کے اس کردار کو گندے بچے کا نام دیا تھا۔ گندے بچے کے لطیفے سنا کر یاروں کو بے حال کیا کرتا تھا۔ ویسے ایسا پہلا لطیفہ ہمیں ہماری سکول ٹیچر نے سنایا تھا چھٹی ساتویں کلاس میں، بہت مزے کا بڑا دلچسپ۔

گندہ بچہ اپنے ابا کے ساتھ جا رہا تھا۔ راستے میں کتا کتیا سے فری ہو رہا تھا۔ ایسے میں گندے بچے نے اپنے ابا سے پوچھا کہ ابا یہ کیا ہو رہا ہے۔ ابا بچے کو ایک تھپڑ مار کر چپ کرا سکتا تھا۔ لیکن سوالوں کے جواب دینے پر یقین رکھتا تھا۔ پھر بھی ایسے غیر متوقع سوال کے لیے تیار نہیں تھا۔ کچھ سوچ کر بولا بیٹا کتے کی دونوں ٹانگیں ٹوٹی گئی ہیں۔ کتیا اسے ہسپتال لے جا رہی۔ گندے بچے نے حیرت سے ابا کو دیکھا اور پھر صورت حال کا جائزہ لے کر بولا، ابا بھلائی کا زمانہ ہی نہیں رہا، یہ کتیا اسے ہسپتال لے جا رہی ہے اور یہ حرام خور اپنے مزوں میں لگا ہوا ۔

یہ لطیفہ تیس پینتیس سال پہلے سنا تھا۔ آج بھی واضح جواب معلوم نہیں کہ بچوں کو کب ہم نے حقیقت سے آگاہ کرنا ہے۔ یہ کون کرے گا۔

ہم کالج یونیورسٹی میں تھے تو ہمارے بہت دوست شادی شدہ ہو چکے تھے۔ قبائلی تھے یا نہیں پس منظر ان میں سے اکثر کا قبائلی ہی تھا۔ ان کے ساتھ خریداری کے لیے گورا بازار جانا ایک دلچسپ تفریح ہوتی۔ اکٹھے جاتے اک دوسرے سے اپنی اپنی لسٹ چھپاتے۔ پھرتی سے خریداری کرتے۔ سب سے زیادہ وہ دوست تھرتھراتا تھا جسے عینک خریدنا ہوتی تھی۔

عینک کے بارے میں ہمارے ملک صاحب نے ایک لطیفہ سنایا۔ تازہ خان بیگم کی عینک خریدنے کے لیے ریڑھی پر کھڑا تھا۔ ریڑھی پر ہر طرح کی عینک رکھی تھی۔ اب تازہ خان کو ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ کیا پوچھے اور کیا کہے۔ ریڑھی والے نے خود ہی بولا کہ عینک لینی ہے تو جواب دیا کہ ہاں۔ ریڑھی والے نے پوچھا کہ نمبر کیا ہے تو تازہ خان بولا کہ نمبر تو نہیں پتہ۔ ریڑھی والا تو پھر اب کیسے پتہ لگے گا۔

بہت دیر سوچتا رہا اور پھر اپنا سر آگے کر کے بولا میرے سر کا نمبر ہے۔ ریڑھی والا حیران ہی تھا کہ تازہ خان کی آواز سنائی دی کہ یارا جو عینک پرانی ہو جاتی ہے بیگم اس سے میری ٹوپی سی دیتی ہے ۔

ہم یہ لطیفے سنیں گے لیکن عزت سے خواتین کے لیے مردوں کے لیے خریداری کا اہتمام کرنے کا نہیں سوچیں گے۔ پتہ نہیں کیوں اکثر لگتا ہے کہ ہم لوگ اپنے لوگوں کو تو کیا خود کو بھی ٹھیک سے نہیں جانتے۔

آج کے دن بھی ہم اپنے خود سے ہوشیار بچوں کو احمقانہ جوابات دیتے ہیں۔ ہماری خواتین اب بھی شرمندہ شرمندہ سی اپنی خریداری کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ ہمارے قبائلی مزاج لوگ اب بھی کسی ریڑھی پر کھڑے سر کھجا رہے ہوتے ہیِن۔ حل کوئی بھی نہیں ڈھونڈتا۔ جنہیں حل دھونڈنا ہے وہ نامعلوم نمبر کی عینک لگا کر ہم سب پر چھپنے والے تصویریں دیکھتے رہتے ہیں، یہ نہیں کرتے کہ ڈاکٹر خالد سہیل، عاصم بخشی حاشر ارشاد اور وقار ملک کے مضامین پڑھ لیں ، کچھ تو عقل آئے گی۔

کوئی نہیں سوچتا، کوئی نہیں کرتا۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi