تیری الفت میں صنم


گرمیوں کے دن تھے، پورے محلے کے لوگ، بچے، بابے، مائیاں اور خواتین چھتوں پر سوئے ہوئے تھے۔ ہوا کے جھونکوں کے ساتھ ساتھ پیڈیسٹل پنکھوں کی گھوں گھوں کی آوازیں بھی کبھی ایک دم تیز ہو جاتیں اور کبھی آہستہ۔ زیادہ تر چھتوں پر چارپائیاں ایک ہی لائن میں بچھی ہوئی تھیں تاکہ ہوا آخری بندے تک پہنچے۔ جن چھتوں پر چارپائیاں ایک لائن میں نہیں تھیں وہاں ہلکی ہلکی ہاں، ناں میں سر ہلاتے اور کانپتے چھجوں والے پنکھے دائیں سے بائیں اور پھر بائیں سے دائیں طرف جانے کا نامکمل سفر جاری رکھے ہوئے تھے۔

کبھی کبھار ساتھ والی چھت یا کہیں دور سے کسی بابے کے کھانسنے کی آواز آ جاتی، کبھی محلے کی کسی چاچی کا چھوٹا بچہ رو پڑتا اور کبھی گلی میں سے کوئی بھاری سی آواز سنائی دیتی “او جاگدے رہیا جے”۔

یہ سن انیس سو اکانوے، بانوے کی بات ہے، ہم ابھی پرائمری اسکول میں تھے۔ اصل میں ہوا یوں کہ نوشہرہ ورکاں میں مسلسل چوریاں ہو رہی تھیں اور ڈاکے ڈالے جا رہے تھے۔ بلاناغہ کوئی واقعہ پیش آ رہا تھا۔ ایک مہینے کے اندر اندر کوئی آٹھ، دس وارداتیں ہو چکی تھیں۔

پولیس شاید خود ڈاکووں کے ساتھ مل چکی تھی، یا پھر انہیں بھی خوف تھا۔ ہر گلی، محلے، بیٹھک، ڈیرے، کریانے اور نائی کے دکان پر چھوٹے بڑے ایک بات کر رہے تھے کہ یہ ڈاکے کون ڈال رہا ہے؟ طرح طرح کی تھیوریز مارکیٹ میں آ رہی تھیں۔ کوئی کہتا کہ یہ جاٹوں کے لڑکے ہیں، کوئی کہتا یہ آرائیوں کے لڑکے ہیں، جو نشہ کرتے ہیں، کوئی کہتا کہ نہیں یہ کوئی نیا گروپ ہے، ورنہ مقامی لوگوں کو تو کبھی کسی نے نہیں اس طرح نہیں لوٹا تھا۔ ہر طرف، ہر کونے میں چہ مگوئیاں اور ہر نئی واردات کے قصے تھے۔

خیر جب وارداتیں نہ رکیں تو سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ ہر محلے کے لوگ خود پہرہ دیا کریں گے۔ ہمارے محلے کا چاچا لیاقت چوکیدار اپنی جوانی سے پہرہ دیتا آ رہا تھا۔ وہ ہر محلے میں رات کو دو چکر لگاتا تھا، ایک رات دس بجے کے قریب اور دوسرا تہجد کے وقت۔ بدلے میں وہ ہر جمعرات کو آتا اور ہر محلےدار اسے آٹا، گندم یا پھر روپیہ، دو روپے بطور مزدوری لے جاتا تھا۔ اس وقت کیبل اور موبائل وغیرہ کا تو دور دور تک کوئی نام و نشان ہی نہیں تھا۔ جو چند لوگ رات دیر تک جاگتے تھے وہ بھی رات نو بجے کا خبرنامہ دیکھ کر سو جایا کرتے تھے۔ جنہوں نے صبح سویرے اٹھنا ہوتا تھا، وہ تو دس بجے تک ایک دو گھنٹوں کی نیند بھی پوری کر چکے ہوتے تھے۔ سادہ سا اصول تھا سردیاں ہوں یا گرمیاں عشاء کے بعد سونے کا وقت ہے جی۔

چاچے لیاقت چوکیدار نے مشہور کیا ہوا تھا کہ اس کے پاس ایک پستول بھی ہے لیکن ان دنوں پتا چلا کہ وہ تو چلتا ہی نہیں ہے اور چاچا صرف ایک “ڈانگ” موٹے ڈنڈے سے ہی کام چلاتا ہے۔
سب بڑے، سیانے اور بزرگ جمع ہوئے اور ہر محلے سے چار چار افراد پر مشتمل ٹولیاں (گروپ) بنا دی گئیں۔ دو افراد گلی کی ایک نُکڑ پر کھٹرے ہو جاتے اور دو دوسری نکڑ پر۔ کوئی کہتا چھپ کر پہرہ دینا چاہیے تاکہ چوروں پکڑا جا سکے تو کوئی کہتا نہیں آواز لگاتے رہنا چاہیے تاکہ وہ ادھر آئیں ہی نہیں۔ چاچے بشیر موچی سے لے کر چاچے مختار پھیری والے تک، ہر کوئی اپنی ذات کے اندر ایک مفکر اور ایک اعلیٰ درجے کا سکیورٹی ایڈوائز تھا۔ پہرہ دینے والی ٹولیوں میں زیادہ تر لڑکے شامل ہوئے۔ وہ رات بھر سگریٹ وغیرہ پھونکتے، گپیں لگاتے، گلی میں جاگتے رہنا کی آوازیں بلند کرتے اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے سکیورٹی کا ایک ٹائیٹ نیٹ ورک قائم کر لیا گیا۔

ہر محلے کے کسی ایک ذمہ دار پہرے دار کو پستول بھی دیا گیا۔ ایک دو مرتبہ رات کو فائر ہوئے تو سبھی سمجھے چور آ گئے ہیں لیکن بعد میں پتا چلا کہ منڈے شُنڈے پستول ٹیسٹ کر رہے تھے۔
ایک دن اسی طرح جاگتے رہنا کی آواز کی بجائے ایک دم فاتحانہ شور بُلند ہوا، “ چور پھڑے گئے جے، چور پھڑے گئے جے، پَجّ کے آو سارے، چور پھڑے گئے جے۔ ” (چور پکڑے گئے ہیں، چور پکڑے گئے ہیں، بھاگ کے آو سارے، چور پکڑے گئے ہیں۔ ) ہر کوئی ساتھ والے محلے کی طرف بھاگ رہا تھا۔

پورا محلہ جاگ چکا تھا۔ ہم بھی ساتھ والے محلے کی طرف بھاگے، اسکول نمبر چار کی بغل میں وسیع میدان اور کھیت تھے۔ کھیتوں اور کھلے میدانوں کے بیچوں بیچ کمہاروں اور چنگڑوں کا پورا محلہ تھا۔ وہاں دیکھا کہ دو لڑکوں کے کپڑے پھٹ چکے ہیں، دانتوں سے ہلکا ہلکا خون بہہ رہا ہے اور وہاں پہنچنے والا ہر کوئی جانباز انہیں تھپٹر رسید کر رہا ہے۔

چاچے منیر آرائیں کی حویلی بھی ہمارے محلے کے ساتھ ہی تھی۔ مال ڈنگر کی حفاظت کے لیے وہ بھی ان دنوں ادھر ہی سویا کرتے تھے۔ ہم نے پوری زندگی چاچے منیر کو گالی دیتے یا پھر کسی کو تھپڑ مارتے نہیں دیکھا۔ اس رات چاچے منیر نے بھی انہیں دو تھپڑ رسید کرتے ہوئے انتہائی غلیظ گالیاں دیں۔ وہ دونوں بیچارے بار بار سب کے پاؤں پکڑ کر کہہ رہے تھے کہ “پا جی اسی چور نئیں جے”۔ ہر کوئی ان سے پوچھ رہا تھا کہ اگر تم چور نہیں تو پھر رات کے دو بجے تم یہاں کر کیا رہے تھے؟ وہ اس کا بھی جواب نہیں دے رہے تھے۔

خیر جب محلے کا ہر کوئی بندہ اپنی بیوی سے لڑائی اور خراب معاشی حالات کا غصہ ان کو مار مار کے نکال چکا تھا تو کسی ایک نے ان لڑکوں میں سے کسی ایک کی جیب سے کاغذ کا ایک ٹکڑا نکالا۔
اس نے چند ’معتبر بزرگوں‘ کے کان کے قریب آ کر کہا کہ “ اے تے محلے دی کسے کُڑی نوں خط دین آئے جے۔ ” (یہ تو محلے کی کسی لڑکی کو یہ خط دینے آئے ہیں۔ )
اس کے بعد حکم دیا گیا کہ سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو جائیں، چوروں کو اب تھانے لے جایا جائے گا۔

صبح ہوئی تو پتا چلا کہ لڑکوں کا تعلق ساتھ والے ایک گاؤں سے ہے۔ شور کی وجہ سے وہ موٹر سائیکل کہیں پیچھے ہی کھڑی کر آئے تھے اور انہیں پتا ہی نہیں تھا کہ آج کل ادھر لوگ چوریوں کی وجہ سے پہرہ خود دے رہے ہیں۔ تاہم جس لڑکی کا عشق چل رہا تھا، اس کا نام صغیہء راز میں ہی رکھا گیا۔ اگلی رات دوبارہ آوازیں آ رہی تھیں، ’او جاگدے رہنا‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).