میڈیا مالکان کے نام کھلا خط


\"omair آپ ایک ٹی وی چینل کھولنے والے ہیں یا کھولے بیٹھے ہیں۔ آپ نے اس کی کامیابی کے لیے چند افراد کو بھرتی کر رکھا ہے۔ اور آپ توقع رکھتے ہیں کہ یہ افراد آپ کے چینل کو مقبولیت میں پہلے نمبر پر لے کر آئیں۔ یہ ترتیب بظاہر درست ہے۔ لیکن اس سے بھی پہلے کچھ ایسی چیزیں ہیں جن کا فیصلہ آپ کے ملازمین نے نہیں، بلکہ آپ نے خود کرنا ہے۔

آپ کا چینل کتنا بکتا ہے (ب کے نیچے زیر کے ساتھ پڑھیں)، اس کا دارومدار متعدد عوامل پر ہے۔ یعنی اگر آپ صحافی سے کہیں بھیا ناظرین بھی کھینچ لاؤ، تو وہ صحافی کی بنیادی ذمہ داری نہیں۔ اس کی بنیادی ذمہ داری ایسی خبریں دینا ہے جو درست ہوں اور بہتر انداز میں ناظر تک پہنچا دی جائیں۔ اسی طرح ڈرامے کے ہدایت کار کی ذمہ داری ایک بہترین ڈرامہ بنانا ہے، اس ڈرامے کے لیے اشتہار کیسے لائیں جائیں، اسے کس دن اور کس وقت نشر کیا جائے، یہ فیصلہ ایک اور شعبے کی ہو گی۔

لہذا آپ ٹی وی چینل کھول چکے ہیں یا کھولنے والے ہیں تو چند بنیادی باتوں کا تعین آپ نے خود ہی کرنا ہو گا۔ یا ان باتوں کے تعین کے لیے علیحدہ سے کسی ملازم کو ذمہ داری دینا ہو گی۔ آپ کو خود سے چند بنیادی سوال پوچھنا ہوں گے۔

آپ چینل کھول کیوں رہے ہیں؟

بھئی ظاہر ہے، کاروبار کے لیے۔ لیکن اسی مقصد کے لیے تو دوسروں نے بھی اپنی دکان سجائی ہے۔ پھر آپ دوسروں سے مختلف یا بہتر کیوں ہیں؟

آپ چینل کھول کر حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں؟

چینل کھولنے کی وجہ کا تعین کرنے کے بعد کیا آپ نے اپنے مقاصد کی کوئی فہرست بنائی ہے؟ کیا آپ نے یہ بھی سوچ لیا ہے کہ ان مقاصد کو کیسے حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ خود کو ان سوالوں کا جواب دینے کے بعد آپ کی سوچ واضح ہو گی۔ پھر اپنے ملازمین کو بھی اس سے آگاہ کیجیے گا۔ مقصد سامنے ہو گا تو آپ کے ملازمین ایک خاص سمت میں محنت کریں گے اور بہتر نتائج لے کر آئیں گے؟

آپ کیسے دوسروں سے مختلف ہوں گے؟

وہ کیا چیز ہے جو صرف آپ ناظرین کو دکھائیں گے، اور دوسرا کوئی نہیں؟ آپ ناظرین کو کیا بتائیں گے کہ وہ آپ کا ہی چینل دیکھیں کیونکہ۔۔۔

آپ دوسروں سے کیسے منفرد ہوں گے، اس کا تعین آپ ہی کو کرنا ہے۔ آپ کے ملازمین آپ کی سوچ کو عملی جامہ پہنائیں گے۔

آپ کیا چاہتے ہیں لوگ آپ کے چینل کے بارے میں کیا رائے رکھیں؟

مثلاً آپ ایک خبری ٹی وی چینل لا رہے ہیں، تو آپ کی کیا خواہش ہو گی، آپ کا چینل سب سے تیز خبر لانے والا سمجھا جائے یا سب سے معتبر؟ آپ سب سے نڈر جانے جائیں یا سب سے باخبر۔

لوگوں کی آپ کے چینل کے بارے میں رائے بھی ریٹنگ پر اثر انداز ہو گی۔ اور پھر اس کے بعد ریٹنگ بھی واقعے پر انحصار کرے گی۔ لوگ کسی خبر کے بارے میں جلد سے جلد آگاہ ہونا چاہیں گے تو سب سے تیز ٹی وی چینل دیکھیں گے، پکی خبر جاننا ہو گی تو معتبر چینل کی طرف رجوع کریں گے۔

ناظرین کی آپ کے چینل کے بارے میں رائے کیا ہو؟ اس بارے میں آپ نے پہلے سے سوچنا ہے، اور اس سوچ سے ملازمین کو بھی آگاہ کرنا ہے۔

آپ کن ناظرین تک پہنچنا چاہتے ہیں؟

جن ناظرین تک آپ پہنچنا چاہتے ہیں، ان کے بارے میں طے کر لینا بھی فائدہ مند رہتا ہے۔ اگر آپ نوجوانوں تک پہنچنا چاہیں گے تو نشریات کو اسی حساب سے ترتیب دینا ہو گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ دن کے مختلف اوقات میں ٹی وی دیکھنے والوں کا اندازہ لگا کر ان کی پسند کی نشریات ترتیب دیں۔ مثلاً صبح سے دوپہر تک کا وقت خواتین کے لیے۔ شام کا وقت دفتر سے واپس آئے احباب کے لیے۔ وغیرہ وغیرہ

آپ نے اپنے ابلاغ کا کوئی لائحہ عمل ترتیب دیا؟

آپ کا چینل کیا ہے، کیوں ہے، کیسا ہے۔۔۔ یہ سب باتیں لوگوں تک کیسے پہنچیں گی؟ کن الفاظ میں پہنچیں گی؟ اور کن ذرائع سے پہنچیں گی؟

آپ کیسے ترقی کریں گے؟

یعنی آپ کا چینل کیسے ترقی کرے گا؟ آپ نے جو اہداف طے کیے، وہ پورے ہو جائیں گے تو مزید کیا اہداف مقرر کیے جائیں گے؟ اہداف پورے ہونے کا ثمر ملازمین تک کیسے پہنچایا جائے گا؟ پیشہ ورانہ امور میں ملازمین کی تربیت کا کوئی مربوط نظام بنایا جائے گا یا نہیں؟

یہ وہ چند ابتدائی سوالات ہیں جو میڈیا مالک کو خود سے پوچھنا ضروری ہیں۔ ابھی تک تو یہ رواج دیکھا کہ چینل بھی ایک دکان کی طرح کھول لیا جاتا ہے۔ تقریباً ایک سی لوکیشن، ایک سا سامان۔۔۔ بیچنے والا خود واضح نہیں تو گاہک کا کیا قصور۔ وہ کبھی یاں سے سودا لے کبھی واں چلا جائے۔ پھر ذمہ داری دکان میں کام کرنے والوں پر ڈال دی جائے کہ خریدار کو گھیر کر بھی لائیں۔ سودا سجانے والا طلب گار پر یلغار کرنے چلا جائے گا تو دکان میں ترتیب نہ رہے گی۔ ایسے میں خریدنے والا آ بھی گیا تو مطلوبہ سامان اپنی جگہ پر نہ پائے گا اور مایوس ہو کر دوسری دکان کو چلا جائے گا۔

عمیر محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمیر محمود

عمیر محمود ایک خبری ٹیلی وژن چینل سے وابستہ ہیں، اور جو کچھ کرتے ہیں اسے صحافت کہنے پر مصر ہیں۔ ایک جید صحافی کی طرح اپنی رائے کو ہی حرف آخر سمجھتے ہیں۔ اپنی سنانے میں زیادہ اور دوسروں کی سننے میں کم دلچسپی رکھتے ہیں۔ عمیر محمود نوک جوک کے عنوان سے ایک بلاگ سائٹ بھی چلا رہے ہیں

omair-mahmood has 47 posts and counting.See all posts by omair-mahmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments