روہتاس قلعہ، پھانسی گھاٹ اور تاریخ سے باہر ایک آدمی


مجھے یاد ہے بچپن میں جب مَیں موسمِ گرما کی تعطیلات میں کھاریاں سے راولپنڈی بذریعہ بس جایا کرتا تھا تو راستے میں دینہ کے مقام پر بائیں طرف روہتاس کا بورڈ لگا ہوتا تھا اور ایک اونچی نیچی بل دار اور ایک چوڑے پاٹ کی برساتی ندی سے گزرتی کچی سڑک دور تک دکھائی دیتی تھی جس پر جنگِ عظیم کے زمانے کی جیپ نما مسافروں سے کھچا کھچ بھری گاڑیاں، جن کے آگے پیچھے، دائیں بائیں بھی مسافر لٹکے ہوتے تھے، رواں رہتی تھیں۔ مجھے یہ منظر بڑا ہانٹ کرتا تھا۔ میں جب بھی وہاں سے گزرتا میرا اس سڑک پر سفر کرنے کو بہت جی چاہتا۔ لیکن عجیب اتفاق ہے کہ بچپن سے لے کر اب تک مجھے روہتاس جانے کا موقع نہیں ملا تھا۔ چنانچہ جب ڈاکٹر اقبال آفاقی صاحب نے روہتاس قلعہ دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تو ہر چند کہ تین ماہ قبل پنج پیر راکس کے ٹور کے دوران گرنے سے میرا پاؤں ابھی ہڈی ٹوٹنے کی ما بعدی حالت میں تھا، میں نے فوراً ہی حامی بھر لی۔ میں ہی کیا تمام احباب گویا میری طرف سے اشارے کے منتظر تھے، سب فوراً ہی تیار ہو گئے۔
روہتاس قلعہ شیر شاہ سوری نے سولہویں صدی عیسوی میں تعمیر کرایا تھا۔ اس کی تعمیر میں سات سال (1541ء سے 1548ء) لگے۔ قلعے کا مقصد مغلوں (ہمایوں) کی واپسی اور پیش قدمی کو روکنا اور مقامی گکھڑ قبائل، جو مغلوں کے وفادار تھے، کی سرکوبی تھا۔۔ تاہم یہ جس مقصد کے لیے بنایا گیا اس کا موقع کبھی نہ آیا۔ شیر شاہ سوری اس سے پہلے ہی وفات پا گیا۔ 1555ء میں یہ قلعہ مغل بادشہ ہمایوں کو سونپ دیا گیا۔ مغلوں نے اس قلعے کو زیادہ اہمیت نہ دی۔ کیونکہ 1580ء میں اٹک کا قلعہ تعمیر ہونے کے بعد اس کی فوجی اہمیت کم ہو گئی۔ نیز یہ مغلوں کے فنِ تعمیر کی طرح پُر آسائش نہیں تھا اور اس میں باغات اور بارہ دریاں بھی نہیں تھیں۔ اکبر بادشاہ اور جہانگیر اس قلعہ میں صرف ایک ایک رات کے لیے ٹھہرے تھے۔ زیادہ تر یہ صدر مقام کے طور پر مقامی گھکھڑوں کے زیر قبضہ رہا۔ مغلوں کی کمزور پڑتی سلطنت کے ایام میں نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی بھی اس قلعہ میں خیمہ زن رہے۔ 1825ء میں سکھوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔ بعد میں انتظامی مقاصد کے لیے یہ سکھوں کے راجہ رنجیت سنگھ کے زیرِ استعمال بھی رہا۔

یہ قلعہ خاصا بڑا ہے، تقریباً 70 ہیکٹر رقبہ پر پھیلے ہوئے اس قلعے کی بیرونی دیوار کی لمبائی چار کلو میٹر ہے، جس کی اونچائی 10 سے 18 میٹر اور موٹائی 10 سے 13 میٹر کے درمیان ہے۔ مختلف ناموں پر اس کے بارہ گیٹ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس میں تقریباً تیس ہزار سپاہیوں کے ٹھہرنے کی گنجائش تھی۔ اس کے کئی حصے اور اندر کئی عمارتیں ہیں۔ جن میں شاہی مسجد، رانی محل، راجہ مان سنگھ حویلی، خیر انسا کا مقبرہ، گرودوارہ چووا صاحب وغیرہ اور گھوڑوں، ہاتھیوں اور قلعے کے مکینوں کے لیے پانی کی تین باولیاں شامل ہیں۔ ایک عمارت میں عجائب گھر بنایا گیا ہے جس میں قلعے سے متعلق چند اشیا، اس دور کے سکے اور ہتھیار رکھے گئے ہیں۔ وہاں موجود مستعد گائیڈ بغیر کسی معاضے کے پوری تاریخ بتاتے ہیں جس میں زیبِ داستان کی چاشنی بھی شامل کر دیتے ہیں۔ زیادہ تر دیواریں اور عمارتیں گر چکی ہیں اور قلعےکے اندر ایک گاؤں آباد ہے۔ قلعے کی باقیات دیکھ کر اور جو سلوک ہم تاریخی عمارتوں کے ساتھ کرتے ہیں اس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ جلد ہی یہ معدوم ہو جائے گا۔ روہتاس دینہ جی ٹی روڈ سے صرف آٹھ کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ دینہ سے قلعہ روہتاس تک صاف ستھری نئی کارپٹڈ سڑک بنی ہوئی ہے لیکن قلعہ اور گاؤں کے اندر کی سڑک ٹوٹی پھوٹی ہے جس پر جگہ جگہ نالیوں کا گندہ پانی کھڑا ہے۔ یاد رہے کہ جی ٹی روڈ شیر شاہ سوری نے بنوائی تھی۔ اور یہ ابتداً اس قلعے کی شمالی دیوار کے قریب سے گزرتی تھی۔

یہ تو تھی روہتاس قلعے کی مختصر ترین تاریخ جسے میں نے ٹور کا پروگرام بنتے ہی گوگل سے سرچ کر کے تفصیل سے پڑھ لیا تھا۔ ہم بروز اتوار سترہ دسمبر کی صبح اسلام آباد/ راولپنڈی سے ایک کوسٹر میں روہتاس کے لیے روانہ ہوئے۔ دن بہت خوشگوار تھا، دسمبر کی ہلکی چمکتی نرم گرم دھوپ اور کبھی آہستہ کبھی تیز چلتی خنک مگر خوشگوار ہوا۔ ہمارے قافلے میں ڈاکٹر اقبال آفاقی، ڈاکٹر منزہ یعقوب، سلمیٰ اسد، ڈاکٹر ابرار عمر، انوار فطرت، محمد الیاس، انیق الرحمٰن، نائلہ حق، ثمینہ تبسم، شمس حیدر، طارق محمود، حیدر فاروق، تعظیم نقوی، صبا کاظمی، رفعت عزیز، خلیق الرحمٰن، ناصر عقیل، محمد نعیم اور راقم شامل تھے۔ کوسٹر میں بیٹھے ہوئے احباب کی گپ شپ، جملے بازی اور شمس صاحب کے ماؤتھ آرگن کی مدھر دھنوں پر حیدر فاروق، طارق محمود اور ابرار عمر کی خوبصورت گائیکی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہم جلد روہتاس پہنچ گئے۔ سب سے پہلے میوزیم دیکھا گیا، اور قریبی عمارتوں میں اور دیواروں پر گھومے پھرے۔ آفاقی صاحب کی صحت اچھی نہیں تھی اور میرا پاؤں بھی ابھی مکمل فٹ نہیں ہوا تھا اس لیے ہمارے گھومنے پھرنے کی رفتار سست رہی۔ قدیم پتھروں اور دبیز سنگی دیواروں کے درمیان وقت جیسے جم سا گیا تھا کہ اچانک دوپہر ڈھلنے کا احسا س ہوا اور بھوک لگنے لگی۔ میوزیم کے قریب ایک پارک نما جگہ میں کئی بینچ خالی پڑے تھے۔ سب وہاں بیٹھ کر اپنی اپنی باتوں میں لگ گئے۔ خرابیء صحت کے باوجود اس بار سب کے لیے کھانا ( چکن قورمہ، کوفتہ انڈہ، سلاد اور سویٹ ڈش) ڈاکٹر آفاقی بنوا کر لائے تھے۔ قریبی ہوتل سے کھانا گرم کروایا گیا اور گاؤں کے تندور سے گرم گرم براؤں گندم کی روٹیاں منگوائی گئیں اور سب نے خوب سیر ہو کر کھایا۔


کھانے کے فوراً بعد پھر گھومنے کے لیے چل پڑے کیونکہ وقت کم تھا اور دیکھنے کی جگہیں زیادہ تھیں۔ رانی محل ، خیر النسا کا مقبرہ اور دیگر عمارتیں دیکھتے ہوئے پھانسی گھاٹ کے سامنے پہنچ گئے۔ پھانسی گھاٹ کی عمارت اونچی اور سیڑھیوں کی حالت خستہ تھی۔ آفاقی صاحب، طارق محمود تو پھانسی گھاٹ سے کچھ فاصلے پر ہی رک گئے۔ سلمٰی اور میں عمارت تک تو پہنچ گئے لیکن میرے پاؤں کی سوجن اور سیڑھیوں کی خستہ حالی دیکھتے ہوئے سلمیٰ اور دیگر احباب نے سختی سے اوپر جانے سے منع کر دیا۔ باقی احباب عمارت کی چھت تک اور اس حصے تک، جہاں پھانسی دی جاتی تھی، چڑھ گئے۔ سب سے پہلے الیاس صاحب اوپر پہنچے۔ شاید وہ پھانسی پانے والے کسی کردار کی تلاش میں تھے۔ اور میں، “تاریخ سے باہر ایک آدمی”، نیچے سیڑھیوں کے دامن میں بیٹھا تاریخ کے جھروکوں سے غلاموں اور قیدیوں کی چیخیں، گھوڑوں کی ٹاپیں، ہنہناہٹیں اور پیادوں کا شور سنتا اور کٹے پھٹے انسانی جسموں اور جلے ہوئے خیموں سے اٹھتے دھوئیں کو دیکھتا رہا۔ سلمیٰ اسد بھی میرے ساتھ “تنہا” بیٹھی ہوئیں شاید ایسے ہی کسی منظر میں گم تھیں۔ ایک خاموش گمبھیرتا نے جیسے ہم دونوں کو گھیر لیا تھا۔


دنوں کے گرد آلودہ جھروکے سے
میں اُس کو دیکھتا ہوں
چھت کے اوپر
تار پر پھیلے ہوئے کپڑوں کے پیچھے
بے صدا پرچھائیوں کے ڈھیر میں تبدیل ہوتے
اور نیچے
چیختی گلیوں میں
قدموں سے لپٹتی دھول ہے،
تاریخ چلتی ہے
دھمک سے کہنہ دیواریں لرزتی ہیں
گزرتا وقت سنگ و خشت سے آنکھیں رگڑتا ہے
دنوں کے گرد آلودہ جھروکے سے
کوئی لمحہ،
پلستر کا کوئی ٹکڑا اکھڑتا ہے
بدک کر اسپِ شاہی بھاگ اٹھتا ہے
دریچوں اور دروازوں کی درزوں سے
کئی چیخیں نکلتی ہیں
منڈیریں کانپ جاتی ہیں
دنوں کے گرد آلودہ جھروکے سے
میں اُس کو دیکھتا ہوں
سر جھکائے بے خبر چلتے ہوئے
لشکر کے بیچوں بیچ
بوسیدہ قبا پہنے
غلاموں کے ہجومِ نامشخؔص میں

احباب پھانسی گھاٹ سے نیچے اترے تو سب کے دل بوجھل تھے جیسے تاریخ کے کسی ہولناک دور سے گزر کر آ رہے ہوں۔ اور قلعے کی مہیب دیواروں کے آس پاس شام کے سائے ڈھل رہے تھے۔ ابھی آدھی عمارتیں اور باولیاں اور دور دور تک پھیلی دبیز فصیلیں دیکھنا رہتی تھیں لیکن ہم نے جہلم بک کارنر شو روم پہ بھی جانا تھا جہاں گگن شاہد اور امر شاہد نے آنے کی بہ اصرار دعوت دے رکھی تھی۔ اس لیے جلدی سے کوسٹر میں بیٹھے اور جہلم کے لیے روانہ ہو گئے۔ بک کارنر شو روم تک پہنچے تو شام ڈھل چکی تھی۔ وہاں پہچتے ہی احباب کتابوں کی دنیا میں یوں گم ہو گئے جیسے خود بھی چلتی پھرتی کتابیں ہوں۔ نظم “تاریخ سے باہر ایک آدمی” ابھی تک میرے ذہن و دل سے چپکی ہوئی تھی۔


دنوں کے گرد آلودہ جھروکے سے
میں اُس کو دیکھتا ہوں
تارکولی راستوں پر
دھوپ سے بچنے کی خاطر
ٹین کے چھجوں کے نیچے
یا کبھی شاموں کے کم گہرے اندھیرے میں
کتابوں کی دکانوں پر ۔۔۔۔۔۔
گگن شاہد نے میری آمد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میری نظموں کی نئی کتاب “سرمئی نیند کی بازگشت” کی بہت سی کاپیاں دستخط کرنے کے لیے میرے سامنے رکھ دیں تا کہ دستخط شدہ نسخوں کے آرڈرز کی تکمیل کی جا سکے۔ میں نے جلدی جلدی ان پر دستخط کیے۔ احباب نے اس موقع پر خصوصی رعایت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سی کتابیں بھی خریدیں۔ سب نے مل کر چائے پی، تصویریں بنوائیں اور واپسی کے لیے نکل پڑے کہ اس دوران رات گہری ہو چکی تھی۔ راستے میں ایک ڈھابا ہوٹل سے چائے پی گئی اور احباب کی باتوں، لطیفوں اور گانوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے رات گئے واپس راولپنڈی/اسلام آباد پہنچ گئے۔
جب ہم مل کر سیر و سیاحت اور سفر پر نکلتے ہیں تو بہت کچھ نیا دیکھنے اور سیکھنے کو ملتا ہے۔ بعض اوقات اسی بہانے پرانے احباب سے ملاقات ہو جاتی ہے اور کئی دوستوں کی زندگی اور شخصیت کے نت نئے گوشے سامنے آتے ہیں۔ اس بار روہتاس قلعہ کے ٹور میں انیق الرحمٰن سے برسوں بعد ملاقات ہوئی۔ انیق نوے کی دہائی میں میرے ایک کزن اسحاق فرزی کے ساتھ مل کر لاہور سے ایک بہت معیاری بائی لنگوئل رسالہ “ایزیور” نکالتے تھے جس میں میری نظموں کے انگریزی تراجم باقاعدگی سے شائع ہوتے تھے۔ بعد میں وہ پی ٹی وی میں چلے گئے اور آجکل پی ٹی وی مرکز میں سینئر پروڈیوسر ہیں۔ گاہے گاہے ان سے رابطہ تو رہا لیکن طویل عرصہ سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ وہ اکثر مجھے پی ٹی وی کے پروگرواموں کی دعوت اور ترغیب دیتے رہتے ہیں اور میں ہمیشہ خوبصورتی سے ٹالتا رہتا ہوں۔ ڈاکٹر منزہ یعقوب پہلی بار ہمارے کسی ٹور میں شامل ہوئی تھیں۔ وہ اسلامک انٹرنیشنل یونی ورسٹی کے شعبہ ء انگریزی سے وابستہ ہیں اور لٹریری تھیوری (جس میں انہوں نے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ہوئی ہے)، ماحولیاتی ادب اور تقابلی ادب کی ماہر ہیں اور اس سلسلے میں بیرونِ ملک یونیورسٹیوں اور اداروں سے مل کر بہت سا عملی کام کر رہی ہیں۔ اُن سے بہت مفید اور معلوماتی گفتگو ہوئی۔

ثمینہ تبسم کینیڈا سے آئی ہوئی تھیں اور وہ بھی پہلی بار ہمارے ساتھ ٹرپ پہ گئی تھیں لیکن سب سے یوں گھل مل گئیں جیسے شروع سے ان ٹورز کا حصہ رہی ہوں۔ خاص طور پر جب کھانے کا وقت ہوا تو وہ خود بخود چٹائی پر کسی ماہر “ورتاوی” کی طرح چوکڑی مار کر بیٹھ گئیں اور سب کو سالن ڈال ڈال کر دیتی رہیں۔ یہ الگ بات کہ میری پلیٹ میں صرف مرغی کی گردن ڈالی۔ (پتا نہیں انہیں کیسے پتا چل گیا کہ مجھے گردن پسند ہے۔) تعظیم نقوی اور انوار فطرت جو عام طور پر کم بولتے ہیں اس بار کھانے کے وقفے میں ایک طرف کھڑے ہو کر طویل گفتگو کرتے ہوئے دیکھے گئے حتیٰ کہ کھانے کے لیے بھی انہیں بار بار آواز دینا پڑی۔ یقیناً وہ تاریخ کی کوئی گتھی سلجھانے میں مگن تھے کہ تعظیم ادبی تاریخ میں ہی پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ سید ثاقب، جنہوں نے گوکینہ گاؤں میں ہماری میزبانی کی تھی، ہر وقت نیکیاں کمانے کے چکر میں رہتے ہیں۔ پچھلے ٹور میں میرے پاؤں پہ چوٹ لگنے کے بعد جس طرح انہوں نے میرا خیال رکھا تھا اس کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں، اِس بار بھی رانی محل سے پھانسی گھاٹ کی طرف جاتے ہوئے ڈھلوانی راستے میں پڑے خطرناک پھسلو قسم کے پتھر اپنے ہاتھ سے اٹھا اٹھا کر ایک طرف کرتے رہے اور مجھے حسبِ ضرورت اپنا مضبوط کندھا اور ہاتھ بھی پیش کرتے رہے۔ بک کارنر شو روم میں جب گگن صاحب نے دستخط کرانے کے لیے ریپر میں بند میری نئی کتابوں کا ڈھیر میرے آگے رکھ دیا تو یہ دیکھ کر میرے ساتھ بیٹھی نائلہ حق نے ریپر اتارنے کی ڈیوٹی خود بخود سنبھال لی۔ وہ ریپر اتار اتار کر کتابیں مجھے پکڑاتی گئیں اور میں دستخط کرتا گیا۔ یوں یہ کام جلد مکمل ہو گیا۔ دیکھا دیکھی عامر رفیق نے بھی مدد شروع کر دی۔ نائلہ اور عامر کا یہ بے ساختہ محبت بھرا عمل (جیسچر) بہت اچھا لگا۔ میں ان ٹورز میں احباب کی محبتوں اور عقیدتوں کا مقروض ہوتا جا رہا ہوں۔ جہلم سے نکلتے ہوئے ایک جگہ اوور ہیڈ برج کی اونچائی کم ہونے کی وجہ سے کوسٹر واپس موڑنی پڑی لیکن دونوں طرف ٹریفک کا ازدہام تھا۔ ڈرائیور بھی پریشان تھا کہ گاڑی کیسے موڑے۔ ایسے میں حیدر فاروق نے گاڑی سے باہر نکل کر جس احسن طریقے سے دونوں طرف کی ٹریفک کو کنٹرول کیا اور کوسٹر کو واپس مڑنے میں مدد کی وہ قابل تقلید مثال ہے۔ حیدر نے وہ کام کیا جو نہ ٹریفک پولیس والا نہ ہم میں سے کوئی کر سکتا تھا۔ ہر ٹور میں ایسی کتنی ہی چھوٹی چھوٹی مثالیں ہوتی ہیں جن سے انسانی تعلقات اور باہمی رشتوں کی قدر و قیمت کا پتا چلتا ہے۔ ہمارے ان ٹورز کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ حقیقی زندگی میں محبت، امدادِ باہمی اور حقیقی روابط کو فروغ دیا جائے۔ آخر میں تمام احباب کی نذر اپنا ایک شعر:

وہ کون لوگ تھے، کیسے نگر کی خواہش تھی
بس اتنا یاد ہے سب کو سفر کی خواہش تھی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).