کینیڈا میں پہلی کرسمس کی یاد


آج سے چار دہائیاں پیشتر اکتوبر 1977 میں جب مجھے میموریل یونیورسٹی میں داخلہ ملا تو میں نفسیات کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے کینیڈا آیا اور شہرِ سینٹ جانز کے جنرل ہسپتال میں کام کرنے لگا۔ دسمبر کے پہلے ہفتے میں ایک دن ایک دراز قد کنیڈین نرس LORNA MCDONALD نے مجھ سے پوچھا

’ڈاکٹر سہیل آپ کرسمس کیسے منا رہے ہیں؟‘

’ میں نے ساری عمر پاکستان میں گزاری ہے۔ میں نے کبھی کرسمس نہیں منائی‘

’لیکن اب آپ کینیڈا میں ہیں۔ آپ کرسمس ڈنر کھانے ہمارے گھر آئیں‘

’آپ بہت مہربان ہیں‘

’ میں اپنے شوہرJIM  سے بات کروں گی اور ہم دونوں آپ کو 25 دسمبر کو کرسمس کے دن ڈنر کے لیے اپنے گھر لے جائیں گے‘

جب لورنا نے جم سے بات کی تو اس نے مشورہ دیا کہ اگر ڈاکٹر سہیل نے پہلے کرسمس نہیں منائی تو ہمیں انہیں 24 دسمبر کو چرچ میں بھی لے جانا چاہیے۔ جب لورنا نے مجھے جم کا مشورہ سنایا تو میں اس کے اخلاق سے بہت متاثر ہوا۔ میں نے سوچا کوئی اور مرد ہوتا تو اپنی بیوی سے کہتا کہ تم غیر مرد کو کیوں گھر میں بلا رہی ہو۔ چنانچہ جب لورنا نے مجھے اپنے اینگلیکن چرچ جانے کی دعوت دی تو میں نے وہ دعوت مسکراتے ہوئے قبول کر لی۔

لورنا کی کرسمس کی دعوت قبول کرنے کے بعد مجھے اپنے خیبر میڈیکل کالج پشاور کے پروفیسر الف خان بہت یاد آئے۔ انہوں نے مجھے پاکستان سے رخصت ہوتے ہوئے یہ نصیحت کی تھی کہ میں جس بھی ملک میں تعلیم حاصل کروں وہاں کے لوگوں کے ساتھ ملوں۔ ان کے تہواروں میں شامل ہوں اور ان کا ادب پڑھوں۔ ان کی موسیقی سنوں‘ ان کا کلچر جانوں اور ان سے دوستیاں کروں تا کہ میرے ذہن اور دل کے دروازے کھلیں اور میں زندگی کے تجربات حاصل کر کے بہتر انسان بنوں۔ انہوں نے کہا کہ وہ بہت سے ایسے پاکستانی ڈاکٹروں سے مل چکے ہیں جو انگلستان ‘امریکہ اور کینیڈا جا کر ڈگری تو لے آتے ہیں لیکن نئے کلچر سے کچھ زیادہ نہیں سیکھتے۔

24 دسمبر کی شام کو لورنا اور جم آئے اور مجھے اپنے ANGLICAN CHURCH لے گئے۔ وہاں میں نے MIDNIGHT MASS دیکھا جس میں آدھی رات کو عبادت کے دوران سینکڑوں موم بتیاں جلائی گئیں۔ میں مذہبی انسان نہ ہونے کے باوجود اس روحانی فضا سے متاثر ہونے بغیر نہ رہ سکا۔

اگلے دن شام کو لورنا اور جم دوبارہ آئے اور مجھے اپنے گھر ڈنر کے لیے لے گئے۔ ڈنر کی میز پر میری ان کے دو بیٹوں‘ ایک بیٹی اور بچوں کی بوڑھی دادی سے ملاقات ہوئی۔ ان کے ٹین ایجر بچے بہت خوش مزاج تھے اور مجھ سے پاکستان کے کلچر کے بارے میں بہت سے سوالات پوچھتے رہے۔ ڈنر کے بعد میں نے لورنا‘ جم اور ان کے بچوں کو تحفے دیے اور انہوں نے بھی مجھے CHRISTMAS STOCKINGS دیں جس میں کئی طرح کے چوکلیٹ اور تحفے تھے۔ ڈنر کے بعد ہم سب نے موسیقی سنی اور کرسمس کی فلم دیکھی۔

اس شام جب لورنا اور جم مجھے گھر چھوڑنے جا رہے تھے تو میں نے کہا

’لورنا اگر آپ برا نہ منائیں تو میں ایک ذاتی سوال پوچھوں‘

’ضرور پوچھیں‘

’ آپ کے تینوں بچے اتنے مختلف ہیں کہ بہن بھائی نہیں لگتے‘

لورنا مسکرائیں اور کہنے لگیں’ ہمارے اپنے بچے نہیں تھے اس لیے ہم نے انہیں مختلف ممالک سے ADOPT کیا ہے اسی لیے وہ ایک دوسرے سے بہت مختلف دکھائی دیتے ہیں لیکن وہ ایک دوسرے سے بہت محبت پیار سے پیش آتے ہیں‘

’ وہ خوش مزاج ہی نہیں، بہت ذہین بھی ہیں۔ آپ نے ان کی بہت اچھی تربیت کی ہے‘

لورنا مسکرائیں ۔ان کی مسکراہٹ میں ماں کا پیار بھی تھا اور فخر بھی۔ جم نے کہا لورنا بہت محبت کرنے والی ماں ہیں۔ مجھے چند لمحوں کے لیے یوں لگا جیسے ان کی مامتا نے اس شام کے لیے مجھے بھی ADOPT کر لیا ہو۔ پھر لورنا کہنے لگیں۔ ’ہم کینیڈین ساری دنیا کے بچوں اور طلبا و طالبات کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ اسی لیے ہم نے آپ کو بھی ڈنر پر بلایا۔ اسی طرح ہم ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں اور ایک بہتر معاشرہ قائم کرتے ہیں۔‘

رخصت ہوتے وقت میں نے جم سے ہاتھ ملایا اور شکریہ ادا کیا تو اس نے کہا ۔ YOU ARE MORE THAN WELCOMEاس سے پہلے میں نےYOU ARE WELCOME  تو سنا تھا MORE THAN WELCOMEنہیں سنا تھا۔ مجھے وہ الفاظ اتنے پسند آئے کہ اب میں جب بھی انہیں استعمال کرتا ہوں مجھے جم یاد آتا ہے۔ اسی طرح ہر سال جب کرسمس آتی ہے تو مجھے کینیڈا میں اپنی پہلی کرسمس‘ لورنا ‘ جم اور ان کے بچوں کی یاد آتی ہے۔

میرا مشاہدہ اور تجربہ یہ ہے کہ کنیڈین عمومی طور پر بہت نیک دل‘ ہمدرد اور تہذہب یافتہ لوگ ہیں۔ ان میں سے اکثر مہاجروں اور رفیوجیز کا کھلے دل سے استقبال کرتے ہیں اور ان کا تہہِ دل سے احترام کرتے ہیں۔ شاید اسی لیے کینیڈا میں اکثر مہاجر خوش دکھائی دیتے ہیں۔ کنیڈین قوانین بھی مہاجروں کا‘ خاص طور پر بچوں‘ عورتوں اور اقلیتیوں کے حقوق کا‘ احترام کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کے ماہرین کینیڈا کو 100 میں سے 99 نمبر دیتے ہیں۔ کینیڈا کے لوگ دنیا کے باقی ممالک کے مقابلے میں زیادہ خوشحال اور پر سکون زندگی گزارتے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ پچھلی چار دہائیوں سے میں نے کینیڈا کو اپنا دوسرا گھر بنایا ہے۔

آئیے میں آپ کو کینیڈا میں کرسمس کی روایت کے کچھ پرانے مناظر دکھاؤں

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail