باجوہ صاحب کی سینیٹ آمد مایوس کن رہی


پہلے تو صورتحال پر اک نظر ماریں۔ امریکی صدر نام لے کر پاکستان مخالف اک پالیسی خطاب کر چکا ہے۔ گو کہ ہمیں کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں رقم ریلیز کر دی گئی ہے۔ امریکہ لب و لہجہ اب بھی دھمکی آمیز ہے۔ امریکی نائب صدر کابل پہنچے ہیں پھر پاکستان میں موجود دہشت گردی کے ٹھکانوں کی بات کی ہے۔ ان کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ کہا ہے کہ وہ دہشت گردوں کا خاتمہ کریں گے۔ ان کا جو بھی نام ہے وہ جہاں بھی ہیں۔ امریکی گرم سرد پھونکیں مسلسل مار رہے ہیں۔

ہماری اندرونی صورتحال پر نظر ماریں۔ ہم نے پانامہ کے شغل میں کافی وقت برباد کیا۔ سب سے پرانا سب سے تجربہ کار سب سے اہم سیاستدان خوار حال روڈ پر ہے۔ وہ زخم خوردہ ہے ردعمل کا شکار ہے لڑنے کو آمادہ ہے۔ فرض کریں آج وہ سارے کرپشن کیسز سے باعزت یا بے عزت بری ہو جائے۔ وہ پھر بھی تاحیات نا اہل ہو چکا ہے، کیسا؟ ہمارے دونوں اہم چیف بول رہے ہیں۔ بے چینی واضح ہے۔

ہمارا مقبول ترین لیڈر روڈ پر ہے۔ کپتان خدشات کا شکار ہو کر لمبی نگران حکومت کے منصوبوں سے پوری طرح بدک چکا ہے۔ وہ اپنی عوامی حمایت ثابت کرنے کو رابطہ عوام مہم چلا رہا۔ اس کا قریب ترین عزیز ترین ساتھی نا اہل ہو کر سیاسی گیم سے باہر ہو گیا ہے۔ اپنی بیس سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد کامیابی کو اتنے قریب پا کر کپتان کچھ بھی کرے گا کرنا چاہیے۔ وہ مقبول ہے ووٹروں کے اک بڑے گروہ کا وہ محبوب ہے۔ مقبولیت ہے توازن نہیں ہے اس پر اعتماد کیسے ہو۔ اب کیا کریں جو اہم ہیں وہ سوچ رہے کہ انہیں بھگتنا ہے۔ وہ حالات جانتے ہیں۔ عدالت کے حوالے سے ایک اچھی خبر ہے۔ جج صاحبان قانونی آپشن کی طرف لوٹنے لگ گئے ہیں۔ اختلافی فیصلے آنے لگ گئے ہیں۔ کسی ایک فیصلے سے بندھ کر نہیں بیٹھ گئے۔ عدالت کے اس قانونی علمی اختلاف سے خیر برآمد ہو گا۔

اک چھوٹی سی خبر اچھی اور بھی آئی ہے۔ پاکستان میں ایشین مئیر کانفرنس ہونے جا رہی۔ یاد رہے یہ وہی پاکستان ہے جہاں کوئی ٹیم کھیلنے نہیں آتی۔ یہ کانفرنس ہماری بجائے ہمارے غیر ملکی دوستوں کی وجہ سے پاکستان میں ہونے جا رہی۔

جنرل باجوہ نے واقعی دل بڑا کیا ہے۔ مسائل کا حل ڈھونڈنے ان پر بات کرنے بہت ٹھیک جگہ پہنچے ہیں۔ ہمارا ایوان بالا ہماری سینیٹ اہم ادارہ ہے۔ ہر پارٹی کے ہیوی ویٹ وہاں موجود ہیں۔ عرب محاورے کے مطابق ہزار لشکریوں پر بھاری ایک ایک فرد ۔ اس سینیٹ میں اسی اسی سال کے جہاندیدہ سیاستدان بیٹھے ہیں۔

ڈی جی ملٹی آپریشن، ڈی جی آئی ایس آئی کو لے کر جنرل باجوہ پہنچے۔ ڈی جی آئی ایس آئی کے نیچے شاید سب سے زیادہ جنرل کام کرتے ہیں۔ وہ فسٹ ہینڈ معلومات پر دسترس رکھتے ہیں۔ سوال جواب، حالات پر، پالیسی امور پر، اک بھرپور سیشن کی پوری امید رکھی جانی چاہیے تھی۔ معزرت کے ساتھ سینیٹ میں ہماری سیاسی کریم اچھے سوال نہیں کر سکی۔ ان کے سوال گیلری کے لیے تھے۔ یہ موقع تھا کہ بلوچستان کے ڈیڑھ دو درجن سینیٹر یہاں سے صورتحال جان کر اٹھتے۔ اپنی اپنی پارٹیوں حلقہ اثر علاقوں تک موثر پیغام لے کر جاتے۔ با اختیار باخبر ہونے کا ایک تاثر قائم کرتے۔ فاٹا والے افغانستان کی صورتحال پر اپ ڈیٹ ہوتے۔ فوجی قیادت کو بھی احساس ہوتا کہ وہ ایوان بالا میں آئے ہیں۔ وہ بھی کچھ نیا سن کر جاتے انہیں کچھ آئیڈیاز ملتے کچھ مشورے دیے جاتے۔

ہوا کیا ہے سینیٹر حضرات نے طوطے کی طرح فر فر سیشن کا احوال میڈیا سے شیئر کیا ہے۔ ذرائع کے حوالے سے خبریں چھپی ہیں۔ جب باہمی اعتماد کی پہلی شرط رازداری پر ہی عمل نہیں ہو سکا تو فوجی قیادت نے کتنی شیئرنگ کی ہو گی۔ رضا ربانی صاحب ٹھیک غصہ ہیں اپنے سینیٹر حضرات پر۔ چیئرمین صاحب اخبارات نے جو چن چڑھایا ہے۔ اس کی ایک چھوٹی موٹی رپورٹ اپنے پاس بھی موجود ہے، چاہیے؟ رپورٹر کا نام پڑھ کر آپ کو پتہ لگ ہی جانا کہ کس بزرگ نے کس رپورٹر کو بتایا ہو گا۔ یہ بابے اسی پر ہی خوش ہیں کہ چیف صاحب کو دیکھ لیا حکومت بچ گئی۔ رضا ربانی صاحب ان سب ناکارہ بزرگوں کی خبر لیں جنہوں نے ایک اچھی کاوش کو مایوس کن بنا کر رکھ دیا۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi