مدیر ”ہم سب“ وجاھت مسعود اور یاس یگانہ چنگیزی


برا ہو پائے سرکش کا کہ تھک جانا نہیں آتا
کبھی گمراہ ہو کر راہ پر آنا نہیں آتا

یاس یگانہ چنگیزی ہندوستان کے ممتاز شاعر تھے۔ پہلے یاس تخلص رکھا پھر یگانہ بن گئے۔ معاشی مشکلات کا شکار رہے۔ سسرال لکھنو میں تھی تو لکھنو چلے آئے۔ شاعری میں بھی لکھنوی انداز اختیار کیا۔ لکھنوی شعراء سے عمدہ تعلقات استوار ہو گئے۔ مشاعروں میں بلائے جاتے۔ عوام نے بھی ان کی شاعری کی دل کھول کے داد دی۔ ان کی شاعری رسائل میں چھپنے لگی۔ لیکن یہ بہار زیادہ دن نہ رہی۔ لکھنو کے بڑے شعراء سے چشمک ہو گئی۔ یاس نے خود لکھا کہ ان کی مقبولیت ان تُھڑ دلوں سے نہ دیکھی گئی۔ یاس نے بعض لکھنوی شعراء کے خلاف مضامین لکھنا شروع کر دیے۔ اسی پر بس نہیں کیا بلکہ دوسری طرف خواجہ حیدر علی آتش کو غالب سے بھی بڑا شاعر قرار دے ڈالا۔ حتیٰ کہ ”غالب شکن“ کے نام سے ایک رسالہ تک نکال ڈالا۔ یگانہ کی خود پسندی کا عالم ملاحظہ فرمائیے کہ ’غالب شکن، کے سرورق پر یگانہ نے اس پر اپنا نام میرزا یگانہ چنگیزی لکھنوی علیہ السلام لکھوایا تھا۔ ان کی خوش قسمتی تھی کہ انہیں چند اچھے دوست مل گئے۔ ہندوستان میں وہ جہاں بھی گئے ان کے چاہنے والے موجود تھے جنہوں نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ لیکن لکھنوی شعراء سے چشمک نے انہیں بے چین کیے رکھا۔

یاس یگانہ یہ نہ سمجھ پائے کہ ادبی چشمکوں میں صرف دھول ہی نہیں اڑتی اور کاغذ سامنے رکھ ایک دوسرے کے منہ پر صرف سیاہی ہی نہیں ملی جاتی بلکہ ان چشمکوں سے کچھ ایسے نوادر کا بھی ظہور ہوتا ہے جو شاید عام حالات میں کبھی مسند شہود پر نہ آتے۔ یگانہ ایک متنازع شخصیت تھے، اور ان کی طبیعت بھی کچھ ایسی تھی کہ وہ خود بھی ہنگاموں میں گھرا رہنا پسند کرتے تھے۔
رفتہ رفتہ ان کے فن میں تنقید زور پکڑنے لگی اور انہوں نے اردوادب کے دیگربڑے بڑے شعراء پر تنقید شروع کی۔ علامہ اقبال، مولانا حسرت موہانی، مولانا محمد علی، داغ دہلوی اورجرات کا فن شاعری بھی ان کے نزدیک کچھ خاص معیاری نہیں ٹھہرا۔

ڈاکٹر ظہور حسین اعوان لکھتے ہیں
”وہ انتہائی خود پرست اور انسان شکن قسم کے آدمی تھے، اپنے سوا دنیا میں کسی کو شاعر نہیں مانتے تھے، غالب شکنی ان کی وجۂ شہرت بنی ورنہ ان کا نام تک کوئی نہ جانتا نہ لیتا۔ ان کا اپنے بارے میں کہنا ہے کہ ہندوستان کی ادبی دنیا میں بیسویں صدی کا سخنور علی الاطلاق تنہا شاعر، آرٹسٹ اور جینئس مرزا یگانہ کے سوا کوئی دوسرا نہیں ٹھہر سکتا۔ ان کی طبیعت میں انکساری، خاکساری، وضع داری اور دوسروں کا احترام نام کو نہ تھا، اسی وجہ سے ان کو آخری عمر میں گھسیٹ کر گدھے پر سوار کر کے منہ کالا کر کے سارے لکھنؤ شہر میں پھرایا گیا مگر پھر بھی ان میں عقل نہ آئی۔ “

”وہ بڑے بڑوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے، وہ واحد شاعر ہیں جنہوں نے اپنی کتاب چنگیز خان کے نام معنون کی۔ ان کا سر ساری زندگی فخر سے تنا رہا، جیل کی ہوا بھی کھائی مگر ٹین نہ ٹوٹی، نہ ہندوستان میں ان کو گھاس ڈالی گئی نہ پاکستان میں۔ بلکہ صرف گھاس ہی ڈالی گئی اور وہ اس گدھے کے لئے تھی جس پر بٹھا کر لکھنؤ میں ان کا جلوس نکالا گیا۔ “

”یگانہ کو کہیں کام کی مستقل ملازمت نہیں ملی، ہر جگہ سے نکالے گئے، خود سری اور بدمستی کے کارن دلّی، لکھنؤ، لاہور سب شہروں میں ان کا سماجی مقاطعہ ہوا، مزے کی بات ہے کہ جن باتوں کو وہ شاعری کے لئے ضروری قرار دیتے ہیں ان میں سے ایک بھی ان کے اپنے کلام میں نہیں۔ ان کا ایک شعر یاد رکھنے کے قابل نہیں، وہ شاعری کے لئے مردانگی کو اعلیٰ مقام بخشتے ہیں مگر لاثانی اور آل ٹائم گریٹ علامہ اقبال کی شاعری کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں، اقبال کی شاعری اعلیٰ ترین مردانگی اور علم و فضل کی وجہ سے ہی بڑی شاعری سمجھی جاتی ہے۔ میں نے یگانہ کے بارے میں کوئی کتاب نہیں پڑھی تھی مگر اب پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ زمانے نے وہی سلوک کیا جس کے وہ مستحق تھے۔ “

تو جناب۔ آپ نے یاس یگانہ چنگیزی کی سوانح پڑھی۔ یہ وہی یاس یگانہ ہیں جنہوں نے اپنے اوپر یہ شعر لکھا تھا
خودی کا نشہ چڑھا، آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا

تو جناب! بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی۔ بندہ شاعر نہ بھی ہو تب بھی خودی کا نشہ اسے انجانی منزلوں کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ خود کو خدا سمجھنے لگتا ہے۔ بندہ درست کو درست کہنے صلاحیتوں سے عاری بھی ہو جاتا ہے۔ اس کو دوست دشمن کی پہچان ختم ہوجاتی ہے۔ اس کو یوں لگتا ہے جیسے اس کی غلطی کو اگر کسی نے غلطی کہا ہے تو وہ اس کا دوست نہیں رہا۔ شہرت کا نشہ بہت بری شے ہے۔ شہرت اپنے ساتھ واہ واہ کہنے والے حواری لاتی ہے۔ شہرت طاقت لاتی ہے۔ بندہ سمجھتا ہے وہ جوکچھ لکھ رہا ہے وہ بڑے بڑے ایوانوں میں زلزلہ برپا کر دیتا ہے۔ اور پھر شہرت کا نشہ اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیتا ہے۔ یہ آپ سے وہ کچھ کروا دیتا ہے جس کے بارے میں آپ کے دوست احباب تک نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔ وجہ یہ ہے کہ شہرت کے نشے میں آپ وہی کچھ دیکھنا چاہتے ہیں جو آپ کی حسرت رہی ہے۔

آپ سمجھتے ہیں آپ دوسروں کو نیچا دکھانے کی کسی دوڑ میں شامل ہیں۔ اور اس دوڑ میں آپ ہی اول نمبر پر ہیں۔ آپ یہ نہیں سوچتے کہ شہرت کی دنیا بہت عجیب ہے۔ جو شہرت کے پیچھے بھاگا۔ رسوائیاں اس کا مقدر بنیں۔ شہرت ایک سراب کی مانند ہے۔ جتنی جلدی ملتی ہے اتنی جلدی جدا بھی ہو جاتی ہے اور پھر پیچھے محض رسوائیوں کی گرد رہ جاتی ہے۔ ایک حد ایسی آ جاتی ہے جہاں شہرت اور بدنامی میں کوئی خاص فرق نہیں رہ جاتا۔ بندہ یہی سمجھتا ہے کہ جس چیز کو بدنامی کہا جا رہا ہے وہ بدنامی نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو کیا ہوا۔ بدنامی میں بھی ایک لطف، ایک شہرت تو ہے نا۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ شہرت پا کر بندہ لاکھوں لوگوں کے دلوں میں اُتر گیا ہے یا دل سے اُتر گیا ہے؟ سوچنا چاہیے کہ شہرت نے آپ کا حلیہ تو نہیں بگاڑ دیا؟ شہرت ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کو خود پسند بنا دیتی ہے۔ شہرت کی کوئی اخلاقی بنیاد نہ ہو تو یہ انسان کو تکبر کی طرف لے جاتی ہے۔ ایک وقت ایسا آتا ہے جب مشہور بندے کی جان اس کی شہرت میں قید ہو جاتی ہے۔ فراز نے اس کیفیت کو یوں بیان کیا تھا
پہلے پہل کا عشق ابھی یاد ہے فراز
دل خود یہ چاہتا تھا کہ رسوائیاں بھی ہوں

لیکن اب آپ نوجوانی کی اس منزل سے بہت دور جا چکے جہاں ایسی حسرتیں پالی جاتی ہیں۔ اب آپ بڑے ہو گئے۔ اب اپنی شہرت کو مثبت معنوں میں استعمال کیجئے یاد رکھئے کہ شہرت انسان کو زوال کی جانب لے جاتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو فرمایا کرتے تھے میری کرسی بہت مضبوط ہے لیکن ہم نے اس کی کرسی کو پتوں کی مانند اُڑتے دیکھا۔ آپ سوچیئے کہ آپ کی شہرت کہیں آپ کی دشمن تو نہیں بن گئی؟ کہیں آپ کی شہرت آپ سے آپ کے دوست تو نہیں چھین رہی؟ آپ کی شہرت آپ کو ایسا کام کرنے پر تو نہیں اکسا رہی جس کے کرنے سے آپ کو بہت سے دوست روک رہے ہوں؟ آپ سے ناراض ہو رہے ہوں؟ آپ کا ایک نظریہ ہے۔ مان لیا۔ آپ جمہوریت پسند ہیں۔ آپ کو غیر جمہوری قوتوں کی دخل اندازی سے چِڑ ہے۔ سو بسم اللہ۔ آپ جمہوریت کے حق میں لکھنے میں آزاد ہیں۔ جو چاہیں، جو سوچیں، جو سمجھیں، لکھ ڈالیں، یہ آپ کا حق ہے۔ لیکن اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی پورن سٹار کی تصویر میں شہرت چھپی ہے تو یقین کیجئے کہ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ ایک پورن سٹار کی خاطر آپ کیا کچھ کھوتے جا رہے ہیں اس کا اندازہ آپ کو آج ہر گز نہیں ہو سکتا۔ ابھی آپ ہوا کے گھوڑے پر سوار ہیں۔ اس گھوڑے کو شہرت کا نشہ ہے۔ جس دن یہ نشہ اتر گیا اس دن آپ کو محسوس ہو گا کہ آپ کے پاس اپنا تو کچھ بھی نہیں رہا۔ ابھی بھی وقت ہے۔ یاس یگانہ کیا خوب صورت شعر کہ گئے ہیں
خودی کا نشہ چڑھا، آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا

”ہم سب“ ایک ایسا ادارہ ہے جس اردو سے روٹھ جانے والی نسل کو دوبارہ اردو کی جانب راغب کیا۔ بہت سے عمدہ لوگوں نے اس پر لکھا۔ اس کو مقبول بنانے کے لئے محنت کی۔ جدوجہد کی۔ وقت دیا۔ ایک ٹیم بنائی۔ مشاورت کا عمل شروع کیا۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ ” ہم سب ” معاصر ویب سائٹس سے بہت آگے نکل چکی ہے تو ہمیں بھی مسرت کا احساس ہوتا ہے کہ اس سائٹ کو چلانے والے ہمارے اپنے ہیں۔ لیکن عجب ہے کہ جب بات اپنی انا پر آئی تو اپنے چاہنے والوں کو جمہوریت کے سبق پڑھانے والا آمریت کی ڈگر پر چل نکلا۔ مشاورت کے عمل کو بھول گیا۔ ساتھیوں کی التجائیں نظر انداز کرنے لگا۔ کیا یہی جمہوری روایات ہیں؟
اب یہ آپ پر ہے۔ کیا آپ ”بھی“ یاس یگانہ چنگیزی بننا چاہتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).