مولانا امین احسن اصلاحی: چند یادیں، چند تاثرات


میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا، سنہ1964ء میں، جب ملک میں صدارتی انتخاب کی مہم چل رہی تھی۔ صدر ایوب کے مقابلے پر مادرملت محترمہ فاطمہ جناح اپوزیشن کی طرف سے صدارتی امیدوار تھیں۔ میں اس وقت مادر ملت کا حامی تھا۔ ہم لالٹین کے بیج لگا کر پھرا کرتے تھے۔ اس وقت جماعت اسلامی بھی مادرملت کی حمایت کر رہی تھی۔ دو تین برس قبل اردو ڈائجسٹ کے پہلے سالانہ نمبر میں مولانا مودودوی کی شخصیت سے تعارف ہو چکا تھا۔ الیکشن کے بعد مولانا امین احسن اصلاحی کی کچھ تحریریں ہفت روزہ چٹان میں پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ جان کر بہت افسوس ہوا کہ مولانا ایوب خان کی حمایت کر رہے تھے۔ اس کے بعد کئی برس تک مولانا اصلاحی سے کوئی مزید واقفیت نہ ہو سکی۔ بس اتنا پتہ چلا تھا کہ وہ سنہ 1956ء میں بہت سے اور لوگوں کے ساتھ جماعت اسلامی سے الگ ہو گئے تھے۔

یہ سنہ 1974ء کی بات ہے جب میں جاوید احمد غامدی صاحب کے ساتھ منسلک تھا۔ اکتوبر یا نومبر کا مہینہ تھا، جاوید صاحب ایک ساتھی، الیاس احمد، کے ساتھ مسجد شہدا گئے۔ وہاں مولانا کی تقریر تھی۔ پروگرام کے بعد وہ مولانا کو اپنے ہمراہ گارڈن ٹاون لے آئے۔ مولانا سے یہ اولین ملاقات تھی۔ مولانا اصلاحی اور مولانا مودودوی کی شخصیات میں ایک نمایاں فرق فوراً نظر آ جاتا تھا۔ مودودی صاحب کی شخصیت میں دہلوی تہذیب کی اشرافیہ کا رکھ رکھاو بہت نمایاں ہوتا تھا جب کہ اصلاحی صاحب کی شخصیت میں کسی قدر دیہاتی پن عیاں تھا۔ اس اولین ملاقات کی ایک بات مجھے یاد ہے۔ الیاس نے پوچھا، مولانا کیا ڈاکٹر اسرار صاحب آپ کے شاگرد ہیں؟ نہیں وہ میرے استاد ہیں، مولانا نے جواب دیا۔ مزید کہا میں نے جس کو بھی شاگرد بنایا وہ استاد ہی نکلا۔ پتہ چلا کہ ان دنوں مولانا کا ڈاکٹر صاحب کے تنظیمی افکار سے اختلاف واقع ہو چکا تھا

اس کے کچھ مہینے بعد مولانا کے رسالے ’میثاق ‘کے پرانے شمارے ہاتھ لگے۔ جس تحریر نے اولاً متاثر کیا وہ اصلاحی صاحب کا وہ خط تھا جو انھوں نے مولانا مودودی صاحب کو لکھا تھا۔ پچاس کی دہائی میں جماعت اسلامی ایک بحران کا شکار تھی اور اس کی قیادت کے بہت سے اہم لوگ علیحدگی اختیار کر چکے تھے۔ اس خط میں انھوں نے مودودی صاحب کے موقف کا بڑی بے رحمی کے ساتھ تجزیہ کیا اور اس کے بخیے ادھیڑے تھے۔ مولانا کی تحریریں پڑھنے کے بعد میرا تاثر یہ بناکہ مولانا کا قلم تنقید میں بہت زوردار چلتا تھا لیکن جب وہ اپنی بات کرتے تھے تو تحریر میں وہ اثراندازی نہیں ہوتی تھی۔ ان کی تحریر میں کاٹ ضرور تھی لیکن مودودی صاحب جیسی سلاست اور فصاحت نہیں۔

ان دونوں اصحاب کی شخصیتوں میں ایک اور بہت نمایاں فرق ہے۔ مودودی صاحب، بقول کسے، pressure of the text، کا شکار ہو جاتے تھے۔ وہ فکر کی آزادی کے خواہاں ضرورتھے لیکن جب ان کے سامنے کوئی روایت یا قول امام آ جاتا تھا تو وہ بے بس ہو جاتے تھے۔ وہ روایت اور قول کی عجیب و غریب توجیہ کے ذریعے اپنا راستہ نکالنا چاہ رہے ہوتے تھے لیکن تاویل کے پھندے میں پھنس جاتے تھے۔ اس کے برعکس مولانا اصلاحی کسی روایت، قول یا شخصیت سے مرعوب نہیں ہوتے تھے۔ انھیں اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی تھی کہ ان سے پہلے کسی نے ایسی رائے پیش کی یا نہیں۔

اس کا ایک مظاہرہ گزشتہ صدی کی پچاس کی دہائی میں ہوا تھا۔ جماعت اسلامی نے جب زکوٰة جمع کرکے ان سے ڈسپنسریاں چلانا اور دوسرے فلاحی کام شروع کیے تو روایتی مذہبی حلقوں کی طرف سے اس پر شور بلند ہوا۔ اموال زکوٰة ان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ تھا۔ انھوں نے تملیک کا مسئلہ اٹھایا۔ تملیک کو زکوٰة کی ادائیگی کا رکن قرار دیا جاتا ہے۔ تملیک سے مراد ہے کسی کو ما ل زکوٰة کا مالک بنانا۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ زکوٰة کو کسی اجتماعی رفاہی مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ مولانا مودودی صاحب نے تملیک پر سوال اٹھانے کے بجائے اس کی عجیب و غریب تشریح کی، جس پر جماعت اسلامی کے خلاف فتاویٰ کا ایک سیلاب امڈ آیا۔ مودودی صاحب نے مولانا اصلاحی کو، جو اس زمانے میں نائب امیر تھے، اس موضوع پر لکھنے کو کہا۔ اصلاحی صاحب نے جواب دیا میں اگر کچھ لکھوں گا وہ آپ کے خلاف جائے گا کیونکہ آپ تو لام تملیک کو تسلیم کر چکے ہیں۔ مودودی صاحب نے کہا آپ لکھیے، خواہ وہ میرے خلاف ہی کیوں نہ ہو، یہاں تو نکاح ٹوٹ رہے ہیں۔ اس پر مولانا اصلاحی نے اپنا مشہور زمانہ مضمون، ”مسئلہ تملیک اور زکوٰة سے متعلق بعض دوسرے مسائل“ لکھا جس میں انھوں نے یہ تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا کہ لام تملیک قرآن حکیم میں کسی جگہ استعمال ہوا ہے۔ اس کے لیے انھوں نے ابن ہشام کی عربی نحو کی کتاب ”مغنی اللبیب“ کا حوالہ دیا۔ اس کتاب میں اس نے لام کی بائیس اقسام گنوائی ہیں لیکن تملیک کے مفہوم میں استعمال ہونے کی کوئی قرآنی نظیر پیش نہیں کی۔ واضح رہے کہ یہ تملیک کا مسئلہ تمام فقہوں کے نزدیک متفق علیہ ہے۔ اصلاحی صاحب کے اس مضمون کے بعد خاموشی چھا گئی اور جماعت اسلامی والے آج تک دھڑلے سے زکوٰة جمع اور خرچ کر رہے ہیں۔

اس ضمن میں ایک واقعہ یاد آ رہا ہے جو ان کے مخصوص مزاج کا آئینہ دار ہے۔ مولانا کے سامنے ایک صاحب نے ابن ہشام کی اسی کتاب کا حوالہ دے کر مولانا کی کسی نحوی رائے سے اپنا اختلاف بیان کیا۔ مولانا نے جواب دیا ،میں ابن ہشام کو کیا سمجھتا ہوں، وہ تو اس وقت ضرورت تھی اس لیے میں نے اس کا حوالہ مولویوں کے سر پر دے مارا تھا۔

عام مذہبی علما کے برعکس اصلاحی صاحب کو اپنی رائے پر بے پناہ اعتماد ہوتا تھا۔ اس کا مظاہرہ ان کی تفسیر” تدبر قرآن“ میں کئی مقامات پر ہوا ہے۔ ایک بار مولانا مودودی کے سامنے کسی نے کہا ، اصلاحی صاحب نے اعراف کے مشہور اور متداول معنوں کے برعکس اسے جنت کا مقام بلند قرار دیا ہے۔ مودودی صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا لگتا ہے اصلاحی صاحب نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ وہ کسی لفظ کا وہ مطلب مراد نہیں لیں گے جو قبل ازیں دوسرے لوگ بیان کر چکے ہیں۔

مولانا اصلاحی جب درس قرآن دیا کرتے تھے تو ان کے سامنے کچھ لوگ قرآن حکیم کھول کر بیٹھے ہوتے تھے۔ جب کوئی بہت مشکل مقام آتا تو مولانا پوچھتے، شاہ صاحب کیا کہتے ہیں؟ کوئی صاحب شاہ عبدالقادر صاحب کا اس آیت کا ترجمہ پڑھتے۔ اگر تو شاہ صاحب کی بات موافقت میں ہوتی تو مولانا کہتے: ہاں بھئی شاہ صاحب عالم آدمی ہیں؛ عربی زبان جانتے ہیں۔ اگر ان کی رائے مختلف ہوتی تو پھر ارشاد ہوتا: بھئی عربی زبان کا معاملہ ہی ایسا ہے، اب بے چارے شاہ صاحب بھی کیا کریں۔ دوران گفتگو ہر شخص کے بارے  میں بلا جھجھک اور بے دھڑک اپنی رائے کا اظہار کر دیتے تھے۔ روایتی مذہبی لوگوں کے لیے یہ انداز ناقابل برداشت ہوتا تھا۔

مولانا صاحب سے متعدد مرتبہ ملنے کا اتفا ق ہوا۔ دو مرتبہ خانقاہ ڈوگراں کے پاس ان کے گاوں جانے کا بھی اتفاق ہوا۔ حیرت ہوتی ہے کہ تفسیر” تدبر قرآن“ کا زیادہ حصہ اس ماحول میں لکھا گیا جہاں نہ بجلی تھی، نہ کوئی لائبریری۔ بعض اوقات کچھ مولوی صاحبان ان کے پاس پہنچ جاتے تھے کہ وہ ان کی لائبریری دیکھنا چاہتے تھے، جہاں بیٹھ کر وہ اپنی تفسیر لکھتے تھے ۔ مولانا نے یونین کونسل کے دفتر کے ایک کمرے کو اپنا لکھنے کا دفتر بنایا ہوا تھا۔ وہاں ایک عربی لغت، ”اقرب الموارد “، کی چار جلدیں، مولانا مودودی کی ”تفہیم القرآن “کے علاوہ دو چار کتابیں اور تھیں۔ مولوی صاحبان یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے کہ تفسیر قرآن بغیر کسی لائبریری کی مدد کے لکھی جا رہی تھی۔ مولانا کھانے کے لیے ہمیں گھر لے گئے تو بستر کے سرہانے دیوان حافظ، دیوان غالب کے علاوہ ایک آدھ کتاب اور پڑی ہوئی تھی۔

جب مولانا لاہور واپس تشریف لے آئے تو ان کا اولین قیام فیروز روڈ پر فاضلیہ کالونی میں تھا۔ میرے دوست ڈاکٹر منصور الحمید کا گھر قریب ہی اچھرہ میں تھا۔ وہ اکثر مولانا کے پاس حاضری دیا کرتے تھے اور کبھی مجھے بھی ساتھ لے لیتے تھے۔ ایک بار ہم دونوں پہنچے تو مولانا نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا کہ ان کی اہلیہ کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ ڈاکٹر صاحب انھیں دیکھنے کے بعد دوائی لینے کے لیے بازار چلے گئے اور میں مولانا کے پاس اکیلا رہ گیا۔ شاید وہ مجھے تھوڑا سا پہچاننا شروع ہو گئے تھے، لیکن میں نے کبھی مولانا سے گفتگو نہیں کی تھی۔ اس کے دو سبب تھے: ایک میرا شرمیلا پن دوسرے مولانا کا گراں گوش ہونا۔ مولانا نے میز کی دراز سے آلہ سماعت نکالا، اس کو کچھ دیر چیک کرتے رہے، پھر کہا ،یہ کام نہیں کرتا۔ بہر حال میں نے بڑی ہمت کرکے ان سے کوئی دو ایک سوال پوچھے۔ بس یہی ایک موقع تھا جب میں ان سے مخاطب ہوا تھا۔ جماعت اسلامی کے پرانے لوگ بڑے مزے سے ایک بات بتاتے تھے۔ مولانا مودودی نے ایک دفعہ مولانا کو آلہ سماعت استعمال کرنے کا مشورہ دیا تو اصلاحی صاحب نے جواب دیا میں کسی کی سنتا ہی کب ہوں۔

مولانا اصلاحی کو جملہ کسنے میں بہت ملکہ حاصل تھا۔ ڈاکٹر اسرار صاحب ایک سالانہ کانفرنس کیا کرتے تھے جس میں تمام مکاتب فکر کے علما کو بلاتے تھے۔ مولانا اصلاحی نے ایک بار ڈاکٹر صاحب سے کہا، آپ بھانت بھانت کے مولویوں کو اکٹھا کرکے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا:میں مختلف الخیال لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا چاہتا ہوں۔ مولانا نے برجستہ فرمایا: یہ خدمت ریلوے گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے سر انجام دے رہی ہے۔ مولانا گفتگو اور تحریر میں کچھ ایسے الفاظ کثرت سے استعمال کرتے تھے جو ان کے مخصوصات تھے، مثلاً مکھی کو گھس کر بھینس بنانا، ٹڈے کی ٹانگ پر ہاتھی کا خول چڑھانا۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا یہ اردو کے محاورے ہیں یا بس ایجاد بندہ ہی تھے۔

جنرل ضیاالحق کے زمانے میں، مذہبی لوگوں میں، مولانا اصلاحی شاید واحد عالم دین تھے جو اس کے دام پرفریب کا شکار نہیں ہوئے تھے۔ جنرل صاحب نے ایک قاصد کے ذریعے مولانا کو رہائش کے لیے گھر، گزارے کے لیے وظیفہ اور ایک سیکریٹری کی پیش کی۔ مولانا نے جواب دیا کہ انھیں ان میں سے کسی چیز کی ضرورت نہیں، البتہ میانی صاحب کے قبرستان میں قبر کے لیے چند ہزار روپوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان کے پاس نہیں، بس ان کے لیے وہاں قبر کی جگہ مخصوص کر دی جائے۔ اس کے بعد ضیا الحق مولانا سے ملنے ان کی رہائش گاہ پر ضرور گیا لیکن اسے کسی قسم کی پیش کش کی ہمت نہیں ہوئی تھی۔

بیس برس قبل، دسمبر کے اسی مہینے میں، یہ آفتاب علم غروب ہو گیا۔ ان کی تفسیر ”تدبر قرآن“ نادرہ روزگار کتاب ہے۔ صدیوں بعد ایسی تفسیر لکھی گئی جس میں روایات کے انبار سے صرف نظر کرتے ہوئے خود قرآن حکیم کی عبارت سے معنی اخذ کیے گئے ہیں، قرآن کے نظم کو واضح دلائل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ علوم قرآنی کے طالب علموں کے لیے یہ تفسیر ایک سرچشمہ فیض کی حیثیت رکھتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).