فلم ارتھ: کیا شراب نوشی صرف منفی اور متشدد رحجانات ابھارتی ہے؟


 

معروف پاکستانی فلمسٹار شان شاہد کی نئی فلم ‘ارتھ’ سڈنی میں 21 دسمبر کو ریلیز ہوئی۔ میں نے یہ فلم ایک مقامی سنیما گھر میں جاکر دیکھی۔ میں گذشتہ چند برسوں سے سڈنی میں نمائش کے لیے پیش کی جانے والی پاکستانی فلمیں لازمی دیکھتا ہوں تاکہ ملکی فلمی انڈسٹری کے بیرون ملک فروغ میں اپنا تھوڑا سا عملی اور مالی حصہ ڈال سکوں۔ اس لئے جب میں اور میری اہلیہ پاکستانی فلم دیکھنے جاتے ہیں تو پیش نظر فلم کے کردار، کہانی یا گانے نہیں بلکہ فلم کا پاکستانی ہونا ہوتا ہے۔ یہ تمہید اس لیے ضروری ہے کہ کہیں آپ مجھے فلمی ناقد نہ سمجھ بیٹھیں۔ واپس شان کی فلم ‘ارتھ’ کی طرف آتے ہیں۔ فلم کے پلاٹ کا ایک جز جس نے مجھے یہ کالم لکھنے پر اکسایا ہے وہ شراب ہے۔ فلم کے آغاز سے انجام تک شراب کا استعمال ہر اس موقع پر کیا گیا ہے جہاں کردار کسی منفی جذباتی واقعہ سے دوچار ہیں یا دوچار ہونے والے ہیں یا وہ کسی متشدد رویہ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر فلم کے آغاز میں ہی ہیرو شان کو اپنی طلاق سے کچھ لمحے پہلے واڈکا کی ایک بوتل کے ساتھ بار میں بیٹھے دکھایا گیا ہے۔ فلم کے دوسرے کردار محب مرزا اور عظمٰی حسن کے درمیان ایک تیسری عورت ہمیمہ ملک کے آجانے سے ہونی والی علٰیحدگی میں بھی سکاچ کی بوتل اور پھر اس بوتل کے ٹوٹنے کا منظر اور عظمٰی حسن کے پاؤں میں اس بوتل کی چبھنے والی کرچیوں کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ مختصرا یہ کہ گو فلم کے مرد اور خواتین کرداروں میں شراب نوشی کا استعمال کثرت سے دکھایا گیا ہے لیکن یہ استعمال کرداروں میں صرف منفی رویوں کو اجاگر کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

اب میں شراب کے مضر صحت اثرات اور مذہبی ممانعت پر بحث کو ایک طرف رکھتے ہوئے توجہ صرف اس بات پر مرکوز کرنا چاہتا ہوں کہ کیا شراب نوشی صرف اور صرف انسان میں منفی رجحانات ہی پیدا کرتی ہے۔ میرے خیال میں حقیقت میں ایسا ہرگز نہیں۔ مغرب میں شراب کو ایک سماجی مشروب کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جس سے لوگ سماجی ملاقاتوں، خاندانی تقریبات اور مختلف تہواروں میں لطف اندوز ہوتے ہیں۔ گو مغرب میں شراب کو بعض افراد میں متشدد رویوں کو ابھارنے کا جزوی طور پر ذمہ دار ٹھرایا جاتا ہے لیکن ایسا تاثر کہیں نہیں ملتا کہ تمام معاشرتی برائیوں کی جڑ صرف شراب ہے۔

پاکستان کے حوالے سے دیکھیں تو شراب پر شائد 1977 سے سرکاری طور پر ممانعت ہے۔ ملک میں شراب نوشی قابل سزا جرم ہے۔ اگر کسی کے پاس سے شراب برآمد ہو جائے تو بھی اس پر متعلقہ قوانین کے مطابق مقدمہ قائم کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں ٹی وی کی معروف اداکارہ عتیقہ اڈھو کی مثال دی جا سکتی ہے جن سے مبینہ طور شراب کی چند بوتلیں برآمد ہونے پر اس وقت کےسپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چودھری کے حکم پر ایک مقدمہ قائم کیا گیا تھا جو ابھی تک زیرسماعت ہے۔ شراب پاکستان کے اہل دانش کی ایک اچھی خاصی تعداد میں مرغوب مشروب رہا یے اور اب بھی ہے۔ عبدالحمید عدم نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ

متقی جھوٹ بولتے ہیں عدم

 بن پیے کب سرور ملتا ہے

فیض بھی ابر اور شراب کو عذاب سے نمٹنے کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ ساغر صدیقی عالم مدہوشی میں سجدہ کر کے لوگوں کو اپنے خدا پرست ہونے کا ہقین دلانا چاہتے تھے۔ سیاسی منظر پر بھٹو صاحب جیسی قدآور شخصیت بھی ایک عوامی جلسہ میں ‘تھوڑی’ پینے کا اعتراف کر چکے ہیں۔ اب واپس فلم ‘ارتھ’ کی طرف آتے ہیں، فلم دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں شراب کے دستیابی اور پاکستانیوں میں اس کے استعمال کے حوالے سے کوئی قانونی اور سماجی قدغن نہیں۔ اس حوالے سے دیکھیں تو فلم سے یہ مثبت پیغام ملتا ہے کہ کسی معاشرہ کے افراد کے خالصتا ذاتی افعال جن میں لباس اور خوراک بھی شامل ہیں میں ریاستی اور سماجی مداخلت نہیں ہونی چاہیئے۔ لیکن دوسری طرف شراب کے استعمال کو محض تشدد اور منفی رجحانات سے جوڑنا حقیت کے برخلاف اور اس مشروب کے ساتھ زیادتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).