سبق آموز کہانیاں


ذیل میں جو کہانیاں بیان کی جا رہی ہیں، وہ کتابوں میں نہیں ملتیں بلکہ سینہ بہ سینہ سرایت کرتی ہیں، جیسے کچھ ملکوں میں غربت اور لوڈ شیڈنگ نسل در نسل منتقل ہوتی چلی جاتی ہے۔ ان سبق آموز کہانیوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان سے کبھی کسی نے سبق حاصل نہیں کیا‘ پھر بھی داستان گو انہیں بیان کرنے سے باز نہیں آتے۔ ملاحظہ فرمائیے:

مرضِ عشق کی دوا
صدیوں پرانا قصہ ہے کہ بدقسمتی سے کسی گائوں کے نیم حکیم ایک شادی شدہ عورت کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر ہو گئے، جس کے حسن کے چرچے تھے۔ اس کی چشمِ قاتل کے تیکھے ورمے نے حضرت کے لوہے ورگے دل میں سوراخ کر دیا اور آپ اس پر لٹو ہو گئے۔ شادی بیاہ اور میلو ں ٹھیلوں میں ڈھول بجانا عورت کے خاندان کا پیشہ تھا۔ وہ کبھی دوا دارو کے لیے نیم حکیم صاحب کے پاس جاتی تو وہ بڑی دلچسپی اور تفصیل سے اس کی نبض چیک کرتے اور ملفوف الفاظ میں اپنا حالِ دل بھی ضرور سناتے۔ اس کا بچہ بھی جب کبھی حضرت کے سامنے آتا تو وہ اسے چپکے سے کہتے ”تمہاری ماں کا کیا حال ہے؟ اسے میرا سلام کہنا‘‘ خوش شکل خاتون نے بڑا عرصہ سلام برداشت کیے مگر جب اس کی خیریت کے متعلق نیم حکیم ضرورت سے زیادہ فکرمند رہنے لگے تو اس نے اپنے خاوند کو ان کی تشویش سے آگاہ کر دیا۔ اس سنگین مسئلے پر ڈھول بجانے والے خاندان کے مردوں کا ایک اجلاس منعقد ہوا، جس میں حضرت کی صحت کاملہ کے لیے دعا کی گئی اور ان کے دردِ دل کے علاج کے لیے مختلف طریقوں پر غوروخوض کے بعد ایک جوہر ہزار شفا اسلوب فائنل ہوا۔ طے شدہ علاج کے مطابق خاوند نے اپنی زوجہ سے کہا کہ وہ حضرت کو پیغام بھجوا دے کہ اس کا خاوند آج گھر پر نہیں، لہٰذا رات کا کھانا جھگی فقیراں میں تناول فرمائیں۔ نیز اس مبارک موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال بھی ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ عورت نے طے شدہ شیڈول کے مطابق پیغام بھجوایا تو حضرت خوشی سے لال و لال ہو گئے۔ تیر نشانے پر بیٹھا تھا، چنانچہ دو گھنٹے کی جان توڑ تیاری میں آپ نے خضاب کو زینت ریش مبارک بنایا، آنکھوں میں وافر مقدار میں سُرمہ لگایا اور کان میں عطر میں ڈبوئی روئی ٹھونس کر خراماں خراماں کوئے یار کی طرف رواں ہو گئے۔
دل پذیر محبوب نے نیم حکیم کا گرمجوشی سے استقبال کیا اور انہیں ایک کمرے میں تشریف رکھنے کو کہا۔ عین اس وقت دوسرے کمرے سے خاندان کے مردوں پر مشتمل ظالم سماج کا ڈنڈوں سے مسلح ایک ٹولہ برآمد ہوا۔ انہوں نے عورت کو چھت پر جا کر ڈھول بجائے کو کہا۔ مراثیوں کے گھر میں ڈھول بجانے کی ریہرسل معمول کی بات تھی، چنانچہ اہل دیہہ کو حالات کی سنگینی کا ادراک نہ ہو سکا۔ اِدھر ظالم سماج کے ٹولے نے حضرت کی ڈنڈوں سے سیوا شروع کی تو انہوں نے بے ساختہ ڈھول کی تھاپ پر رقص کا آغاز کر دیا۔ آپ بہت چیخے چلائے مگر ان کی آواز ڈھول کی دلفریب دھنوں میں دب کر رہ گئی۔ المختصر! جب سیوا کرنے والے ٹولے نے حضرت کو گھر سے باعزت رخصت کیا تو ان کا اَنگ اَنگ ڈھول بجا رہا تھا اور نیم حکیم، نیم جاں ہو چکے تھے ۔
حسب توقع مراثیوں کی ڈنڈا ڈولی تیر بہدف نسخہ ثابت ہوا اور حضرت کو عشق جیسے موذی مرض سے نجات مل گئی۔ تاہم اس علاج کا سائیڈ افیکٹ یہ سامنے آیا کہ وہ مستقل طور پر ایک نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہو گئے۔ نیم حکیم جب بھی کہیں ڈھول کی آواز سنتے تو ان کا ”تراہ‘‘ نکل جاتا اور آپ خوف سے جھرجھری لے کر فرماتے ”اوہ ! آج پھر کوئی مسکین پِٹ رہا ہے‘‘
سبق: پرہیز علاج سے بہتر ہے۔

چالاک کوا
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک کوا بہت پیاسا تھا۔ وہ پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر اڑ رہا تھا۔ اس دوران اس کو کئی گھڑے نظر آئے مگر وہ گھڑے کا پانی پینے والا کوا نہیں تھا۔ وہ جدید دور کا ماڈرن کوا تھا اور اس کو کسی ریفریجریٹر کی تلاش تھی، جو اسے کہیں نظر نہیں آ رہا تھا مگر اس نے ہمت نہ ہاری اور تلاش جاری رکھی۔ آخر اسے ایک خالی گھر میں ریفریجریٹر نظر آ گیا۔ وہ لپک کر اس کے پاس پہنچا مگر بجلی خراب تھی اور ریفریجریٹر بند پڑا تھا۔ کوا بجلی گھر گیا اور بجلی ٹھیک کرنے کی درخواست دی۔ اس کی درخواست میز در میز رسوا ہوتی رہی مگر کوے کی شنوائی نہ ہوئی۔ کوا بڑا چالاک تھا۔ وہ سارا دن منڈیروں پر بیٹھ کر انسانوں کے کرتوت دیکھتا تھا اور ان کی خصلتوں اور خباثتوں سے خوب واقف تھا۔ وہ اسی خالی گھر سے لال، سبز اور نیلے نوٹ چرا کر لاتا گیا اور اپنی چونچ سے لائن مین کی جیب میں ڈالتا گیا۔ حتیٰ کہ اس کی جیب بھر گئی۔ لائن مین فوراً گیا اور اس نے بجلی ٹھیک کر دی۔ چالاک کوے نے فریج سے ٹھنڈا پانی پیا اور طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اڑ گیا۔
سبق: رشوت ہر سرکاری کام کی ماں ہے۔
سستا اور فوری انصاف
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ خوش قسمتی سے کسی ملک میں ایک عادل بادشاہ کی حکومت قائم ہو گئی۔ بادشاہ عدل و انصاف کا دلدادہ تھا اور رعایا کو سستا اور فوری انصاف مہیا کرنے کا شوقین بھی۔ رعایا ان باتوں کی عادی نہ تھی، لہٰذا اسے اکثر بدہضمی رہنے لگی۔ اگر چہ مخالفین بادشاہ کے انصاف کے ترازو کو کھوچل قرار دیتے تھے مگر بادشاہِ وقت ان الزامات کی پروا کیے بغیر انصاف کرنے سے باز نہ آیا۔
اس کے عدل کا ایک قصہ بڑا مشہور ہوا کہ ایک دن بادشاہ کو اس کا ایک پرانا لنگوٹیا یار ملنے کے لیے آیا (جس کے ساتھ مل کر بادشاہ کبھی ڈکیتی کی وارداتیں کیا کرتا تھا) لنگوٹیے نے بادشاہ سے اپنے میٹرک پاس بیٹے کے لیے نوکری کی درخواست کی۔ بادشاہ یاروں کا یار مشہور تھا۔ اس نے یاری کی لاج رکھتے ہوئے فوراً اپنے وزیر خاص (جس کی ڈگری بعد میں جعلی ثابت ہوئی) کو حکم دیا کہ بچے کو سول ہسپتال میں سرجن لگا دیا جائے۔ وزیر خاص ہکا بکا رہ گیا۔ اس نے عرض کیا ”عالیجاہ! سرجن کا کیا کروں؟‘‘ حکم ہوا ”اسے تھانیدار لگا دو‘‘ وزیر نے پھر دہائی دی کہ عالم پناہ، تھانیدار کو کہاں بھیجوں؟ بادشاہ نے کہا ”اسے تحصیلدار لگا دو‘‘۔ وزیر خاص نے ڈرتے ڈرتے پوچھا ”حضور! تحصیلدار کا کیا کروں؟‘‘ بادشاہ نے زچ ہوکر کہا ”اسے نااہل قرار دے کر جیل میں ڈال دو‘‘ درباری نورتن (جنہیں مخالفین کفن چور ٹولہ کہتے تھے) اس عادلانہ فیصلے پر عش عش کر اٹھے اور بادشاہ کی تعریف و توصیف میں خوب ڈونگرے برسائے۔

بادشاہ اس مقولے کا قائل تھا کہ اختیارات سنبھال کر رکھنے کی چیز نہیں ہوتے بلکہ خوب استعمال کرنے کے لیے ہوتے ہیں چنانچہ وہ بغیر کسی دبائو کے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں اختیارات استعمال کرنے کا کوئی موقع ضائع نہ کرتا۔ ایک دن بادشاہ دربار لگائے بیٹھا تھا۔ ایک خوش الحان مغنیہ دربار میں نغمہ سرا تھی کہ اس دوران انصاف کا وقت ہو گیا۔ وزیر انصاف (جو تازہ تازہ فراڈ کے ایک مقدمے میں جیل سے رہا ہوکر آیا تھا) نے بادشاہ کی توجہ اس جانب مبذول کرائی۔ بادشاہ کو موسیقی میں رخنہ ناگوار گزرا مگر اس نے اپنی عادلانہ جبلت سے مجبور ہوکر عارضی طور پر گانا روک دیا اور ملزمان کو پیش کرنے کا حکم دیا۔ ملزمان کا ریوڑ دربار میں پیش ہوا تو بادشاہ نے چھڑی کے اشارے سے انہیں دو حصوں میں بٹ جانے کا حکم دیا۔ چنانچہ نصف ملزمان دائیں اور باقی بائیں طرف ہوکر کھڑے ہو گئے۔ بادشاہ نے تمام مقدمات کا مختصر مگر عقل شکن فیصلہ سنایا کہ دائیں طرف والے سارے بری اور بائیں طرف والے تمام ملزم سزائے موت… درباری بیربلوں اور ملا دو پیازوں نے اس سستے اور فوری انصاف پر داد کے ڈونگرے برسائے اور گانے کا سلسلہ وہیں سے شروع ہو گیا، جہاں سے ٹوٹا تھا۔
سبق: سستا اور فوری انصاف ہی قوموں کی ترقی کا ضامن ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).