پیڑ پر بنا دل دھڑکتا تو ہو گا


”گھروں میں لوٹ مار شروع ہوگئی۔ دینا کی لاش جامن کے نیچے پھینک دی گئی۔ ایک نے کہا“ یہ مسلمان ہے“دوسرے نے کہا۔ اسے جلا دو تاکہ سیدھا نرک میں جائے“ تیسرے نے جامن کی ٹہینیاں کاٹ کر اس پر ڈالنا شروع کر دیں“ چوتھے نےاس کے گھر کا سامان اس پر پھینکنا شروع کر دیا“
”لاشیں جلتی رہیں اور ٹہنیاں کٹتی گئیں۔ “

”اب جب کبھی اس جامن کے پیڑ کی طرف دیکھتا ہوں تو دل میں ایک ہوک سی ہونے لگتی ہے۔ جامن کا پیڑ ویران ہو گیا ہے۔ جیسے اس کا دل ٹوٹ گیا ہے“ یہ اقتباس ہے جامن کا پیڑ سے، جو گلزار صاحب کے بہترین افسانوں میں سے ایک ہے۔

کچھ دن ہوئے کہ ایک بھیگے ہوئے دن یہ افسانہ کھول لیا۔ شیشے پر بارش کی بوندیں پھسل رہی تھیں، کافی کے کپ سے دھواں اٹھ رہا تھا اور دل میں افسانے کے لفظ کچھ پرانی یادوں کو کرید رہے تھے۔ ایسا ہوتا ہے کہ کہیں کا ذکر ہوتا ہے اور کہیں کی بات در آتی ہے۔ ادھر ایک جلتے کٹتے جامن کے پیڑ کا ذکر تھا ادھر ان پھل دار درختوں کے ذائقے زبان پر آنے لگے جو عادتا ہم ہر اس گھر کے باہر لگاتے ہیں جس میں کچھ سالوں کا پڑاؤ نصیب ہو۔ یادوں کے دوڑتے ہوئے پہیے نے ہمیں ایک موڑ پر لا کھڑا کیا۔ جہاں سے ہم تصور کی دنیا میں جھانک سکتے تھے۔ چہرے پر ایک مسکان کے ساتھ کچھ خیالات باعث سکوں تھے۔

تپتی دھوپ میں میرے جامن کے پیڑ کی چھاؤں کسی کے لیے راحت جاں بن جاتی ہو گی۔ پرندے صبح کا اعلان کرتے ہوئے درخت پر آن بیٹھتے ہوں گے۔ مہمانوں کی آمد کا سندیسا لانے والا کاگا بھی کسی شاخ پر بیٹھا آنے والوں کی راہ تکتا ہو گا۔ مزدوروں کا ٹولہ سانس لینے کے لیے پل بھر کے لیے رکتا تو ہو گا۔ بچوں کی رنگ برنگی سائیکلیں پیڑ کے تنے سے ٹیک لگائے کیسی بھلی دکھتی ہوں گی۔ چٹختی زمین پر جب بارش کی بوندیں سارے کھلے زخموں کو بھر کر تھم جاتی ہوں گی تو اس جل تھل سے پتوں کا سنورنا کتنا خوشنما ہوتا ہو گا۔ پتوں پر بوندوں کا تھم جانا شفاف موتی کا گماں دیتا ہو گا۔ سورج کی کرنیں درخت کی شاخوں سے آنکھ مچولی کھیلتی رہتی ہوں گی۔ تیز ہواوں کے چلتے ہی مزاج میں کچھ مستی سی بھر جاتی ہو گی۔ جھوم جھوم کر پتوں کی سرسراہٹ ٹہنیوں سے لپٹ کر کچھ گنگناتی تو گی۔ اور کچھ عمر رسیدہ پتے تیز جھونکوں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہوا کے دوش پر اڑتے پھرتے ہوں گے۔ پت چھڑ کے موسم میں سرخی اور پیلاہٹ کا ملاپ آخری ہچکی سے پہلے جیسے سانس کا سنبھل جانا سا لگتا ہوگا۔ قدموں تلے چرمرتے پتوں کا ساز کیسا بھلا سنائی دیتا ہو گا۔ بہار آتی ہو گی تو نئی کونپلیں مسکرا کر نوید بہاراں دیتی ہوں گئی۔ پیڑ پر بنا دل دھڑکتا تو ہو گا۔ لیکن حقیت کی دنیا میں آتے ہی ایک سوال نے میرے چہرے پر پھیلتی مسکراہٹ کو اداسی میں بدل ڈالا۔

”کیا میرے پیڑ کے نصیب میں بھی وہ ہی بد نصیبی لکھی ہے جو گلزار کے جامن کے پیڑ کا مقدر بنی؟ وہی قتل غارت، مذہب کے نام لے لے کر ایک دوسرے کا جینا مشکل کرنا۔ کیا پھر سے مرنا آسان اور جینا مشکل ہوگا؟ کتنے پھولوں کو بن کھلے مسل دیا جائے گا؟ کیا پھر سبز پتوں سے لدی ٹہنیوں کو ایندھن بنا دیا جائے گا؟ کیا پھر برسوں ساتھ رہنے والوں کی نگاہوں میں مذہب خون بن کر اترے گا؟ کیا پھر گلیوں کو خون سے دھویا جائے گا؟

کاش میں یہ لکھ پاتی کہ نہیں نہیں اب یہ ممکن کیوں کر ہو گا۔ لیکن ایسا ہی لگتا ہے۔ اب کہانی آگے کی جانب بڑھ چکی ہے۔ اپنے ہی مذہب کے لوگوں پر فتوی لگا کر کافر کہہ کر آگ بھڑکانے کا قصہ گلی کوچوں میں سنائی دیتا ہے۔ دل سہم جاتا ہے یہ سوچ کر کہ یہ سرسبز شاخیں کسی روز لوگوں کے جسم پھونکنے کا کام سر انجام دیں گی۔ اور اپنے اپنے بنائے ہوئے مذہبی دائروں کی خاطر لوگ ایک سرسبز درخت کو ویران کر بیٹھیں گے۔ سوچتی ہوں کہ جس طرح گلزار کے پیڑ کا دل ٹوٹ گیا تھا کیا میرے پیڑ پر بنا دل بھی ایک دن دھڑکنا بھول جائے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).