این جی اوز پاکستان میں کیا کرتی رہی ہیں؟


بہت سے مرد تو اس بات کا ٹھیک اندازہ نہیں لگا سکتے مگر تقریبا ساری عورتیں اس بات کو اچھی طرح جانتی ہیں کہ جنسی ہراسانی کتنی بری چیز ہے اور اس سے نپٹنا کتنا مشکل کام ہے۔ جو بھی خاتون یا لڑکی گھر سے باہر نکلتی ہے اسے ہر روز ایک سے زیادہ مرتبہ اس کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ بات خاص طور پر ان خواتین کے لیے ہے جن کو اپنی کار اور ڈرائیور کی سہولت میسر نہیں ہے۔ اور پاکستان میں کار اور ڈرائیور کی سہولت کتنوں کو میسر ہے۔

گلی کی نکڑ پر کھڑے محلے کے لڑکے، سڑک پر ساتھ چلتے ہوئے دوسرے مرد، بس سٹاپ پر کھڑے یا بس میں سوار دوسرے مسافر حضرات، ڈرائیور اور کنڈکٹر، دفتر میں باس اور باقی مرد۔ گھورنا، تاڑنا، آوازیں کسنا، بھونڈے انداز میں تعریف کرنا، فون نمبر مانگنا، بلا وجہ مدد کرنے کی کوشش کرنا اور دل میں یہ سمجھنا کہ وہ ان ساری باتوں کے مزے لے رہی ہے کیونکہ توجہ اور تعریف کسے بری لگے گی۔ مزید گواہی یہ کہ گھر سے نکلتی ہی کیوں ہے اور وہ بھی بن ٹھن کر۔ آخر یہ توجہ حاصل کرنے کی کوشش نہیں تو اور کیا ہے۔

اور پھر یہ مسئلہ کچھ چھوٹا نہیں کیونکہ پاکستان میں لگ بھگ دس کروڑ عورتیں رہتی ہیں۔ جنسی ہراسانی کتنی بری چیز ہے اور کیسے ایک انسان کو توڑ کر رکھ دیتی ہے یہ ہمارے معاشرے کی عورتیں، لڑکیاں، لڑکے اور خواجہ سراء ہی جانتے ہیں۔ یہ جنسی ہراسانی کا خوف ہی ہے کہ آپ اپنی بیٹی یا بہن کو اپنے چھوٹے شہر سے لاہور یا اسلام آباد کی یونیورسٹی میں چھوڑنے جاتے اور پھر لینے بھی جاتے ہیں جبکہ آپ کا بیٹا یا بھائی تو خود ہی آتا جاتا ہے۔

جنسی ہراسانی کے بارے میں مردوں کی سمجھ بوجھ حیران کن حد تک کم ہے۔ سینٹ کے فلور پر ہمارے سینٹر حضرات نے جنسی ہراسانی کے قانون کے خلاف تقریروں میں کہا کہ اگر یہ قانون بنانا بھی ہے تو بھی صرف ان عورتوں کو چھیڑنا جرم ہونا چاہیے جنہوں نے شرعی لباس پہن رکھا ہو۔ یعنی باقی عورتوں کو چھیڑنے کی تو اجازت ہونی چاہیے۔

ان حالات میں چند این جی اوز نے مل AASHA (www.AASHA.org.pk) کے نام سے ایک اتحاد بنایا اور سن 2000 میں جنسی ہراسانی کے خلاف قانون بنانے اور لوگوں میں شعور کی بیداری کی مہم شروع کی۔ اس کے نتیجے میں سن 2010 میں جا کر ایک جامع قانون پاس ہوا۔ اب پاکستان میں جنسی ہراسانی ایک جرم ہے۔ اس قانون کو ملک کے اندر اور باہر انسانی حقوق کی تنظیموں نے بہت سراہا اور پاکستان کی عزت میں اضافہ ہوا۔ پچھلے سات سالوں میں اس قانون کے سیکڑوں کیس رجسٹر ہوئے اور بہت سے مردوں کو سزا ہوئی۔ یہ این جی اوز کی پھیلائی ہوئی روشن خیالی کا ایک کارنامہ ہے کہ ہماری خواتین، بچوں اور ٹرانسجینڈرز کے خلاف ہونے والے جنسی ہراسانی جیسے گھناؤنے اور بہت ہی کامن جرم کا سدباب شروع ہو گیا ہے۔

عورتوں کو تشدد سے بچانے کے لیے آگہی اور شعور کی بیداری اور اس مسئلے پر بننے والے اور بھی آدھا درجن قوانین این جی اوز ہی کی کوششوں سے بنے ہیں۔ عورتوں پر تیزاب پھینکے کے خلاف قانون، عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کے خلاف قانون، عورتوں کی زبردستی شادی، ونی اور سوررا جیسے جرم کے خلاف قانون اور عورتوں کو ان کی وراثتی جائیداد سے محروم کرنے کے جرم کے خلاف قانون قابل ذکر ہیں۔ یہ قوانین اور اس سلسلے میں پھیلائی گئی آگہی عورتوں کے خلاف تشدد اور جرائم میں کمی لائے گی۔ یہ بات اہم ہے کہ اوپر بیان کی گئی ساری باتیں صرف ان لوگوں کے لیے اہم ہیں جو عورتوں کے خلاف ہونے والے تشدد کے خلاف ہیں۔ وہ لوگ جو عورت کو مارنا پیٹنا اپنا حق سمجھتے ہیں وہ ان قوانین اور ان کے بارے میں پھیلائی جانے والی آگہی کے بھی خلاف ہیں۔ وہی لوگ این جی اوز کے بھی خلاف ہیں۔

مزید یہ کہ تعلیم کے شعبے میں کام کرنے والی این جی اوز نے ہزاروں سکول اور غیر رسمی تعلیمی مراکز کھول رکھے ہیں۔ ان سکولوں میں لاکھوں بچیاں اور بچے فری تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ صحت کے شعبے میں کام کرنے والی این جی اوز نے سیکڑوں ہسپتال یا چھوٹے چھوٹے یونٹ کھول رکھے ہیں جہاں پر لاکھوں لوگوں خاص طور غریبوں کو مفت یا سستے علاج کی سہولتیں ملتی ہیں۔ پانی کی شعبے میں کام کرنے والی درجنوں این جی اوز ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی، استعمال شدہ پانی کی نکاسی اور ٹائیلٹ کی سہولیات حاصل کرنے میں مدد کرنے کے ساتھ ساتھ حفظان صحت کے متعلق معلومات بھی فراہم کرتی ہیں۔ کچھ این جی اوز معذور لوگوں کا خیال رکھنے کے لیے کام کرتی ہیں۔

یہ تمام اور بہت سے دوسرے کام جو ایک کالم میں نہیں سموئے جا سکتے بنیادی طور پر حکومت کے فرائض ہیں لیکن ہماری حکومتیں اپنی نا اہلی کی وجہ سے اپنے فرائض نبھا نہیں سکیں اور بہت سے لوگ زندگی کی ان بنیادی سہولتوں کے بغیر رہ رہے ہیں۔ این جی اوز سے جہاں تک بن پاتی ہے ان ضرورت مند لوگوں کی مدد کرتی ہیں۔

ان سارے کاموں کے لے لیے حکومت پاکستان ایک پیسہ بھی کسی این جی او کو نہیں دیتی۔ ان سارے کاموں کے لیے پیسے انٹرنیشنل این جی اوز دیتی ہیں۔ انٹرنیشنل این جی اوز کچھ پیسے اپنی حکومتوں سے لیتی ہیں اور باقی اپنے ملکوں کے عام لوگوں سے جمع کرتی ہیں۔ یہ انٹرنیشنل این جی اوز اپنے ملکوں میں ایک ایک پیسے کی ڈونیشن بھی شکریے کے ساتھ قبول کرتی ہیں۔

ہماری حکومت ان این جی اوز کو نیکی کے یہ کام کرنے پر شاباش دینے کی بجائے ان سے ہر طرح کے ٹیکس بٹورنے کی کوشش میں لگی رہتی ہے۔ کتنے شرم کی بات ہے کہ این جی اوز جو باہر سے غریب پاکستانی بچوں کی تعلیم اور صحت کے لیے ایک ایک پیسہ جمع کر کے لائے اور پھر یہ کام کرنے کے لیے حکومت پاکستان کو کروڑوں روپے ٹیکس بھی دے۔

بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ اب تو حکومت نے کوئی دو درجن انٹرنیشنل این جی اوز کو اس ملک میں اپنے کام بند کرنے اور اس ملک سے نکل جانے کے آرڈرز بھی جاری کر دیے ہیں۔ لیکن حکومت کو کون سی ان غریب اور بے بس لوگوں کی پرواہ جن کے لیے یہ این جی اوز کام کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ حکومت نہ غریبوں کے لیے خود کچھ کرتی ہے اور نہ کسی اور کو کچھ کرنے کی اجازت دیتی ہے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik