آج کے بنگلہ دیش میں ایک پاکستانی جاتا ہے


میں‌ نے سقوط ڈھاکہ کے بارے میں‌ کئی آرٹیکل پڑھے اور میں‌ نے سوچا کہ کچھ مہینہ پہلے اپنے بنگلہ دیش کے سفر کا ذکر کروں۔ میرا کالج کے زمانے سے ایک بہت پرانا بنگلہ دیشی دوست ہے۔ وہ کافی خوش شکل تھا اور لڑکیاں اس کو بہت پسند کرتی تھیں۔ وہ ڈیلاس میں کچھ عرصہ رہا جہاں‌ اس کے بھائی بھی رہتے تھے اور میری ان سے بھی دوستی ہوگئی۔

حال ہی میں اس کے چھوٹے بھائی کی شادی ہوئی جس کی ایک رسم ڈھاکہ میں‌ ہونے والی تھی تو میں‌ نے بھی ان کے ساتھ جانے کا پروگرام بنایا۔ میں‌ تو ویسے بیک پیک اٹھا کر کافی اکیلا گھوما ہوں جہاں‌ ہاسٹلوں‌ میں‌ رکا اور دوسرے مسافروں‌ سے ملا جو ساری دنیا سے آئے ہوئے تھے۔ ان سے بہت ساری جگہوں‌ کی باتیں‌ پتا چلیں‌ کہ وہ کہاں‌ سے آرہے ہیں‌ اور کہاں‌ جارہے ہیں۔ اوکلاہوما اسٹیٹ یونیورسٹی میں تمام دنیا سے لوگ پڑھنے آتے ہیں اور وہاں‌ میری بہت سے ملکوں‌ کے لوگوں‌ سے دوستی ہوئی۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ جہاں‌ بھی جانا ہو وہاں‌ کے لوکل لوگوں‌ کو جانتا ہوں اور یوں ٹورسٹ کی طرح‌ گھومنے سے زیادہ ایک مقامی تجربہ ہوتا ہے جو کہ اصلی زندگی سے قریب ہوتا ہے۔

ایک پاکستانی ہونے کے لحاظ سے میرے ساتھ بہت اچھا برتاؤ کیا گیا۔ بنگلہ دیش، پاکستان اور انڈیا دونوں‌ سے کافی مختلف ہوا۔ لوگ مختلف دکھائی دیتے ہیں، جگہیں‌ مختلف ہیں، لکھائی الگ ہے، ان کے کپڑے، ان کی سواریاں اور بہت سارے بائسکل رکشے سب منفرد ہے۔ ادھر ادھر کچھ قوم پرست جھنڈے دکھائی دیے، شیخ مجیب اور ان کی بیٹی کے پوسٹر ہر جگہ لگے تھے، کچھ جگہ گرافیٹی تھی اور پاکستان کے ہتھیار ڈالنے والی تصویر بھی جگہ جگہ لگی ہوئی تھی جیسے حسینہ اس فتح کا سہرا حالیہ حکومت کے سر باندھ رہی ہوں۔ قوم پرستی کو نئی برانڈ دے کر اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

دوستانہ ماحول میں‌ ہم ایک دوسرے کا مذاق اڑا کر ہنستے۔ میں‌ ان سے کہتا کہ میں‌ یہاں‌ پاکستان واپس لینے آیا ہوں اور وہ کہتے کہ ہم نے تمہیں‌ کیسی لات ماری اور ہم ہنسنے لگتے۔ کچھ جگہوں‌ پر وہ محتاط تھے جیسا کہ ہم ایک چھوٹے شہر میں‌ گئے جہاں‌ میرے دوست کا ایک کزن سیاست دان تھا۔ ہائی اسکول کے بچے اس کے گرد جمع ہوگئے اور قوم پرست نعرے بازی کرنے لگے تو اس نے میری طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ ہمارے پاکستانی دوست اور مہمان ہیں۔

میں‌ دھان منڈی میں‌ شیخ مجیب الرحمان کے گھر بھی گیا جس کو بنگابندھو بھابن کہتے ہیں۔ یہاں‌ ان کو ان کے بچوں‌ سمیت قتل کیا گیا تھا۔ آج کل کے معیار کے مطابق وہ ایک چھوٹا سا بنگلہ تھا، جس کو صاف ستھرا کرکے ٹائم کیپسول کی طرح بالکل اسی حالت میں‌ رکھا گیا ہے جیسا وہ چھوڑ گئے تھے۔ شیشے کے گلاس کے نیچے ان کے بیٹوں کے کمروں‌ میں‌ خون کے دھبے دیکھ سکتے ہیں۔ چھوٹے بیٹے کا کمرہ اوپر کی منزل پر تھا جس کے کمرے میں‌ ایک الیکٹرک پیانو تھا۔ وہاں‌ اس کی اپنی نئی دلہن کے ساتھ شادی کے جوڑے میں‌ تصویر لگی ہوئی تھی۔ پرانے ریڈیو، ٹیلی فون، شو کیس میں‌ سجی چائنا کی ڈشیں، لکڑی سے بنا ہوا ستر کی دہائی کا فرنیچر۔ سیڑھیوں‌ سے نیچے آتے گولیوں‌ کے سوراخ‌ دیکھ سکتے ہیں‌ جہاں‌ شیخ مجیب کو قتل کیا گیا تھا اور ان کا جسم پڑا تھا۔ دھان منڈی گلشن کے بعد ڈھاکہ کا سب سے امیر علاقہ ہے جہاں‌ کے فلیٹوں‌ کی کنسٹرکشن متاثر کن تھی۔ 1950 اور 1960 کی دھائیوں‌ میں‌ زیادہ تر گھر 20 مرلے کے پلاٹوں پر ایک خاص ڈیزائن کے ساتھ سنگل اسٹوری بنائے گئے تھے جن کے گرد باؤنڈری تھی اور بیچ میں مکان تھا۔ ان مکانوں کو گرا کر اونچی بلڈنگیں بنائی جارہی ہیں اور میں‌ نے ایک دو مکانات کو ڈھے جانے سے پہلے دیکھا۔

بنگلہ دیش دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آباد علاقوں‌ میں‌ سے ایک ہے لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وہ ایک اچھی سمت میں‌ رواں دواں ہے۔ میں‌ نے کچھ تبلیغیوں‌ کو بھی ادھر ادھر گھومتے دیکھا لیکن ایک فرق سب سے نمایاں‌ تھا اور وہ تھیں‌ خواتین جو ہر جگہ اپنے کام میں‌ مصروف تھیں۔ کچھ اسکول جارہی تھیں، کچھ کالج، کچھ پروفیشنل تھیں اور کچھ ٹریفک جام میں‌ رکشے چلانے میں‌ مصروف تھیں۔

بنگلہ دیش کپڑوں‌ کے ایکسپورٹر کی حیثیت سے ابھرا ہے۔ سارے ڈھاکہ میں‌ جگہ جگہ کپڑوں‌ کی فیکٹریاں‌ لگی ہوئی تھیں۔ میں نے بھی کچھ اچھے برانڈ کی ٹی شرٹیں خریدیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جن خواتین کو بھی پتا چلتا کہ میں‌ پاکستانی ہوں‌ تو وہ کہتیں کہ وہ پاکستانی فیشن اور کپڑوں‌ کی دلدادہ ہیں۔ خاص طور پر ان کو بوتیک کے وہ ملبوسات بہت پسند تھے جو پہلے سے کٹے ہوئے آتے ہیں اور سلائی کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ ایک آدمی نے بتایا کہ اس کی بیوی کی بھی بوتیک ہوتی تھی جہاں‌ پاکستان سے یہ ملبوسات درآمد ہوتے تھے۔ اب انڈیا نے بھی ان کی دیکھا دیکھی ویسے ہی ملبوسات بنانے شروع کردیے تو پھر وہ انڈیا سے آنے لگے لیکن ان کو پاکستانی زیادہ پسند تھے۔ مجھے تو یہی جان کر خوشی ہوئی کہ وہ پاکستانی اشیاء سے نفرت نہیں‌ کرتے۔

میں‌ نے وہاں‌ روز مچھلی کھائی جو کہ ایک صحت مند خوراک ہے اگر وہ بہت سارے تیل اور ناریل کے پانی میں‌ نہ پکائی جائے۔ میرے دوست کے ابو اصرار کرتے کہ کہ میں‌ ہر روز پیٹ بھر کر سفید چاول اور مچھلی کھاؤں، تین مرتبہ کھانا کھاؤں۔ میں‌ تو ویسے صرف صبح چائے پیتا ہوں‌ اور دن میں‌ ایک ہی دفعہ کھاتا ہوں، وہ میرے لیے بہت زیادہ تھا۔ اس پر کچھ چلتے پھرتے بھی نہیں‌ تھے۔ پانچ منٹ بھی چلنا ہو تو رکشہ پکڑ لیتے تھے۔ میں جرمن اور فرانسیسی کلب بھی گیا جہاں‌ مقامی اور بیرونی افراد کو مل بیٹھنے کا موقع ملتا ہے۔ میرے دوست نے مجھے اپنے دوسرے دوستوں‌ سے ملوایا جو بنگلہ دیشی مصنوعات اپنے ملکوں‌ میں‌ فروخت کرتے ہیں۔ ہم نے وہاں‌ ڈنر کیا اور سیاست، تاریخ سے لے کر سفر اور بزنس کے بارے میں گفتگو کی۔

میرے دوست کا آبائی گاؤں بحری جہاز کی ایک رات کی سواری کے فاصلے پر تھا۔ اس جہاز کا نچلا فلور ایک بڑا ہال تھا جس کا کرایہ ایک سو ٹکہ تھا اور لوگ اپنے ساتھ گدے اور کمبل لائے تھے تاکہ ٹھنڈی اور ہوادار رات کے سفر کو آرام سے کاٹ سکیں۔ وہاں‌ کچن میں‌ بہت سارا کھانا پک رہا تھا اور بہت سارے لوگ دال سیو اور مختلف کھانے پینے کی چیزیں بیچ رہے تھے۔ ہم نے زیادہ تر رات دریا کو تکتے گزاری، کبھی ہم اندر چلے جاتے اور تھوڑی دیر سو جاتے۔ ہم صبح سویرے پاٹو کھالی پہنچے۔ وہ ایک چھوٹا سا قصبہ تھا جس سے کچھ کلومیٹر دور ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جو 15 سے 20 گھروں‌ پر مشتمل تھا جو ایک دائرے کے گرد بنے ہوئے تھے۔ میرے دوست نے ایک گھر کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ میرے والد یہاں‌ پیدا ہوئے تھے۔ کون کہہ سکتا تھا کہ اس چھوٹے سے گھر میں‌ سے نکل کر وہ اتنا آگے جائیں گے اور اپنے بچوں‌ کو باہر ملکوں میں‌ تعلیم حاصل کرنے بھیجیں گے۔

ہم وہاں‌ دو دن ٹھہرے جہاں‌ ہم نے وہ اسکول اور یتیم خانہ دیکھا جسے ان کے بیٹے چلا رہے ہیں۔ بچے صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور وہ تمیز دار تھے۔ ان کو انگلش میں‌ بات کرنی بھی آتی تھی۔ ان کی مذہبی تعلیم اور غیر مذہبی تعلیم متوازن تھی۔ وہ ان پاکستانی مدرسوں‌ سے مختلف تھے جو میں‌ نے دیکھ رکھے تھے۔ وہاں‌ ہم نے بچوں‌ کے ساتھ کرکٹ کھیلی اور میں‌ یہ دیکھ کر خوش ہوا کہ ان کی متوازن تعلیم کے ساتھ ایک بہتر مستقبل کی امید کی جاسکتی تھی۔

اس کے بعد ہم کواکٹا ساحل پر ایک دن کے لیے گئے۔ وہ ایک پرسکون لیکن ٹھنڈا دن تھا لیکن میری ایک میزبان کے ساتھ شرط لگی اور ہم دو بیوقوف پانی میں‌ کود گئے تھے۔ اس کے بعد کپڑے بدل کر، سوکھ کر ہم ایک علاقے میں‌ گئے جہاں‌ تازہ مچھلی پکڑ کر پکائی جارہی تھی۔ وہ ہم نے خوب مزے سے کھائیں۔ اس کے اگلے دن ہم واپس ڈھاکہ گئے۔ میں‌ سلہٹ کے چائے کے باغات میں‌ گیا۔ وہاں‌ میرا اتنا کھا پی کر وزن بڑھ گیا تھا کہ میں‌ ایک چھوٹے سے ٹیلے پر چڑھتے ہوئے ہی ہانپنے لگا۔ وہاں‌ سے واپسی پر ہم شاہراہ کے کنارے ایک مکتی باہنی کی یادگار کے پاس رکے جہاں‌ وہ مارے گئے۔ لوگ وہاں پارک میں‌ گھومنے پھرنے اور کھانے پینے آتے ہیں۔ میں‌ نے اپنے دوست سے کہا کہ میں‌ ایک سنجیدہ جگہ کی توقع کررہا تھا لیکن یہ ایک پکنک اسپاٹ کی طرح‌ ہے۔ باتوں‌ باتوں‌ میں میرے دوست نے ایک بہت بڑی تعداد بتائی کہ پاکستانی فوجیوں نے اتنے قتل اور اتنے ریپ کیے تھے۔ لیکن وہ تعداد اتنی زیادہ تھی کہ اگر ہر دن کے ہر منٹ میں‌ بھی وہ یہ قتل وغارت گری کرتے تو ممکن نہیں‌ تھا۔ ہم نے مل کر اس بات پر اتفاق کرلیا کہ حقیقی تعداد شاید ان دو اندازوں‌ کے درمیان کہیں‌ ہے۔ ہم دونوں‌ کالج سے پڑھے لکھے ہیں‌۔ میں‌ سمجھتا ہوں‌ کہ بنگلہ دیشیوں‌ کی شکایات بجا ہیں اور کچھ ادھورے مقدمے ہیں‌ جو کبھی حل نہیں‌ ہوپائیں گے۔

آنے والے جنوری میں مجھے بنگلہ دیش سے ایک اور بلاوا آیا ہے۔ میرا دوست پہلے سے وہاں‌ پہنچ چکا ہے۔ میں سوچ رہا ہوں‌ کہ کچھ دن نیپال گھومنے جاؤں اور بھوٹان بھی دیکھوں‌ جس کی پارو ٹاکٹسانگ یا ٹائگر نیسٹ موناسٹیری دیکھنا میری بکٹ لسٹ میں‌ شامل ہے۔ میں‌ چاہتا ہوں‌ کہ اپنے بنگلہ دیشی دوست کے ساتھ ملکر کراچی جاؤں جہاں‌ ہمارا ایک کلاس فیلو رہتا ہے اور ہم تینوں‌ مل کر گلگت اور چترال کی وادیاں گھومنے جائیں۔

ترجمہ: ڈاکٹر لبنی مرزا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).