پاتال کہانی



دور پاتال کے اندھیروں میں ایک لٹی پٹی ٹارچ اپنی بچی کچی بیٹری کے سہارے جلتے بجھتے آگے کا سفر جاری رکھے ہوئے تھی۔ ٹارچ کا شیشہ ٹوٹ چکا تھا۔ جگہ جگہ سے اس کا جسم تار تار ہو چلا تھا۔ کئی دنوں کے اس سفر کی وجہ سے ٹارچ کو یوں محسوس ہونے لگا تھا جیسے کسی بھی وقت اس کی روح قبض کرلی جائے گی۔ وہ تو بس زمین کی زندگی، جو کہ موت سے بدتر ہو چکی تھی سے جان بچا کر کوئی پناہ گاہ ڈھونڈ رہی تھی۔ شاید اب اسے یاد بھی نہ ہو کہ اس نے اس سفر کا آغاز کب اور کیسے کیا تھا۔

ٹارچ کو یوں محسوس ہونے لگا کہ اس کا سفر تمام اور وہ کسی بھی لمحے لقمہ اجل ہوچلی۔ عین اسی وقت اس کا پاوں زمین پر پڑی لالٹین کی لاش سے ٹکرایا۔ لالٹیں کی لاش کو دیکھ کر ٹارچ پر سکتہ طاری ہوگیا۔ اسے وہ دن یاد آنے لگا کہ جس دن اسے بازار سے کسی مہربان نے خرید کر اپنا بنایا تھا ۔ جس دن اسے اپنے ہونے کا احساس ہوا تھا۔ کتنا عجیب احساس تھا اس دن۔ کسی کے ہوجانے کا احساس۔ کسی کے ہاتھوں خریدے جانے کا احساس۔ کس شان سے اسے میز پر رکھا گیا تھا۔ اور پھر۔ کتنی بے دردی سے لالٹین کو اس کے آنے پر گھر سے نکال دیا گیا تھا۔ چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی لالٹین۔ مجھے کسی کونے میں پھینک دو۔ مگر خدارا کونا گھر کا ہو۔ باہر تو لوگ مجھے اپنے پیروں تلے روند دیں گے۔ کوئی گاڑی والا میرے اوپر اپنا پہیا چڑھا جائے گا۔ کوئی جانور مجھ پر منہ مارے گا۔ رحم۔ کچھ تو رحم۔

مگر جس طرح دوسری بیوی کے آتے ہی پہلی بیوی ایک دم سے پرانی ہوجاتی ہے ٹھیک اسی طرح یہ لالٹین پرانی ہوچکی تھی۔ اب اس میں وہ ادا کہاں جس سے وہ مالک کا دل لبھا سکے۔ اس کو بڑی بے دردی سے گھر سے باہر پھینکا گیا تھا۔ ٹارچ کے کانوں میں آج بھی لالٹین کے گھر سے باہر پھینکے جانے پر ٹوٹ کر کرچھی کرچھی ہونے کی آواز گونج رہی تھی۔ اب اس کے سامنے لالٹیں کی لاش پڑی تھی۔ ٹارچ کو یوں لگا جیسے کچھ ہی پل میں اس کا بھی یہی انجام ہونے والا ہے۔ اس میں چلنے کی سکت باقی نہ رہی تھی۔ ٹارچ چپ چاپ لالٹین کی لاش کے برابر میں بیٹھ گئی۔

چند لمحے بعد اچانک دور کہیں ٹمٹماتی ہوئی شمع پر اس کی نظر پڑی۔ گرتے سنبھلتے۔ رینگتے۔ خود کو گھسیٹتے ہوئی ٹارچ اس شمع تک پہنچی۔ شمع ٹارچ کو سر تا پا دیکھنے کے بعد ایک افسردہ مسکراہٹ چہرے پر سجاتے اس سے مخاطب ہوکر ۔

شمع: مجھے معلوم تھا تم یہاں ضرور آؤ گی۔
ٹارچ: کیسے؟
شمع: تم سے پہلے یہ لالٹیں بھی یہاں آ کر میرے قدموں میں دم توڑ چکی ہے۔
ٹارچ: مگر آپ یہاں کیسے؟

شمع: جیسے لالٹین تمہارے آنے پر گھر سے پھینکی گئی ٹھیک اسی طرح لالٹین کے آنے پر میں گھر سے پھینکی گئی۔
ٹارچ: سب کے ساتھ یہی ہوتا ہے؟
شمع: ہاں! ۔ سب کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔ انسان بڑا خود غرض ہے۔ جس چیز سے اس کا غرض ختم ہوجاتا ہے وہ اسے خود سے دور کردیتا ہے۔
ٹارچ: مگر آپ تو نجانے کب سے انسان کے ساتھ تھیں۔ کچھ وفا نہیں کی انسان نے آپ کے ساتھ؟

شمع: کی۔ ضرور کی۔ جیسے تمہیں اور لالٹین کو ایک دم سے اٹھا کر باہر پھینک دیا میرے ساتھ ایسا نہیں کیا۔
ٹارچ: آپ کے ساتھ کیا کیا؟
شمع: میرے ساتھ سازش کی۔
ٹارچ: کیسی سازش؟

شمع: جیسے ہی لالٹین وجود میں آئی ایک سازش شروع ہوئی۔ سب سے پہلے مولوی نے فتوہ جاری کیا کہ شمع کو نقاب پہنایا جائے۔ روز رات کو ایک نامحرم پروانہ اس کے گرد رقص کرنے کے بعد خود کشی کرلیتا ہے۔ ایک ساتھ دو دو حرام عمل۔ دین میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ نہ رقص ہوگا نہ خودکشی۔ نہ بے حیائی نہ بے پردگی ۔ پروانے سے یہ بات برداشت نہیں ہوئی۔ اس نے مولوی کو دلیلوں سے قائل کرنے کی کوشش کی کہ میں اور وہ ایک دوسرے کے لیے لازم اور ملزوم ہیں۔ ہم پر رحم کیا جائے ورنہ ہم پاگل ہو جائیں گے۔ مولوی یہی چاہتا تھا۔ داد رسی تو دور کی بات الٹا مولوی نے پروانے کو بھی شلوار قمیض پہنا دیے۔ اب جو پروانہ میرے قریب آتا تو دونوں حجابوں میں تھے۔ میں جلانا چاہتی۔ وہ جلنا چاہتا۔ مگر دونوں بے بس ہوچکے تھے۔ میں برقعے میں اور وہ کپڑوں میں۔ مولوی نے اپنی محدود سوچ کے مطابق ایک بے پردہ شمع کو پردہ کرایا اور ایک برہنہ پروانے کو لباس دیا۔ جس سے پروانے کی موت کی بھی سبیل نکل آئی۔ کمبخت یہ کون سمجھاتا اس مولوی کو کہ پروانے کی حیات ہی موت میں تھی۔ سب پروانے آہستہ آہستہ دیوانے ہوگئے اور ہم نے ویرانوں میں آ بسیرا کیا۔ آج تک ہم ویرانوں میں ہی رہتی ہیں۔

ٹارچ: میرا کیا ہوگا؟
شمع: وہی جو لالٹین کا ہوا۔ زندگی کے ساتھ زبردستی مت کرو۔ اتنی ہی حیات تھی۔ انسا ن نے تمہاری جگہ کسی اور کو دے دی ہے۔ اب تم بھی سکون اختیار کرو۔

چند لمحے بعد شمع کی تمام موم پگھل جاتی ہے۔ وہ ٹمٹماتی ہوئی لو بھی انجام کو پہنچتی ہے۔ ماحول پر اندھیرا چاہ جاتا ہے۔ اسی اندھیرے میں ٹارچ کے زمین پر بے جان ہوتے گرنے کی آخری آواز سننے کو ملتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).