اے ٹی ایم فراڈ سے کیسے بچیں اور فراڈ کے بعد کیا کریں؟


اس برس کے اوائل جنوری کے آخری ہفتہ کی ایک یخ بستہ شب میں اپنے بستر پہ محوِ استراحت خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا تھا۔ جب قریباً گیارہ بج کر پچپن منٹ موبائل فون پہ ہلکی سے میسج ٹون بجی اور بنک کی طرف سے ایک پیغام موصول ہوا کہ آپ کے اکاؤنٹ سے رقم فلاں اے ٹی ایم سے نکلوائی گئی ہے۔ اسی طرح کے یکے بعد دیگرے چھ پیغامات موصول ہوئے جن میں نکلوائی گئی رقم کی مالیت کُل ایک لاکھ روپے بنی اور کارڈ ایک ہی علاقہ میں آدھ کلومیٹر کے فاصلے پہ دو مختلف بنکوں کی اے ٹی ایم پہ استعمال ہوا۔

سویرے اٹھ کر جب میں بنک کیساتھ رجسٹرڈ موبائل پہ رقم نکلنے کے پیغامات دیکھے تو یہ سب میرے ہوش اڑا دینے کے لئے کافی تھا۔ کیونکہ اہم بات یہ تھی کہ میرا اے ٹی ایم کارڈ میری تحویل میں تھا جس کی تفصیل میں کبھی بھی گھر میں موجود اپنے بھائی، والدہ یا والد سے بھی نہ بیان کی تھی۔ کوئی دوست ابھی ایسا نہ تھا جس سے خفیہ معلومات کا کبھی تبادلہ کیا ہو۔

میں فوراً بنک کی ہیلپ لائن پہ کال کی اور کسٹمر کئیر کے نمایندہ کو سارا ماجرا بیان کیا۔ انہوں نے فوراً میرا کارڈ بلاک کیا اور مجھے اپنے بنکنگ نیٹ ورک کی مطلوبہ برانچ پہ رابطہ کر کے معاملہ آپریشنز مینجر کے علم میں لانے کو کہا۔ میں برانچ پہ پہنچ کر سارا قصہ ڈیوٹی پہ موجود افسر کے گوش گزار کیا جنہوں نے ابتداً میری بات پہ یقین کرنے میں تامل کا اظہار کیا، پس و پیش سے کام لیا اور بتایا کہ اس طرح کا ہیکنگ کا واقعہ انہوں نے اپنی بنکنگ کی نوکری میں کبھی نہیں سنا۔

میں نے مینجر صاحب سے معاملہ کی ان کوائری کی درخواست کی اور تعاون نہ کرنے پہ سٹیٹ بنک، بنکگ محتسب اور متعلقہ تھانے میں شکایت کی دھمکی دی جس پہ انہوں نے معاملہ کی نزاکت کو مدِنظر رکھتے ہوئے معاملہ کی ان کوائری کی یقین دہانی کروائی اور ایک فارم بھرنے کو دیا جس پہ ساری تفصیل درج کی۔

مینجر صاحب کے ابتدائی رویہ کو دیکھتے ہوئے میں غیر مطمئن وہاں سے چلا آیا۔ اگلے روز میں کچھ ذاتی دوستوں کی مدد سے ایک بنک کی اے ٹی ایم پہ پہنچا اور ان سے سی سی ٹی وی رکارڈ دکھانے کی درخواست کی۔ وڈیو رکارڈ کے مطابق دو نوجوان جن میں سے ایک باہر کھڑا رہا اور دوسرا نوجوان جس نے سر پہ ٹوپی اور منہ پہ رومال باندھ رکھا تھا اے ٹی ایم میں داخل ہوا اور انتہائی تسلی سے تین ٹرانزیکشنز میں رقم نکلوا کر جاتے ہوئے دیکھا گیا۔ اہم بات یہ تھی کہ انہیں بنک کے باہر لگے کیمروں کی وسعت کا اندازہ یا معلومات تھیں اس لیے وہ پیدل چل کر آئے اور پیدل نکل گئے کوئی گاڑی موٹر سائیکل یا اور سواری نہ تھی جس سے ان کی شناخت ہو سکے۔

اپنی محنت کی کمائی سے بچت کیے گئے پیسوں کو یوں جاتا دیکھنا میرے لیے ایک دردناک لمحہ تھا کہ میں بظاہر کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ مایوسی کو جھٹکتے ہوئے اس لمحے نہ جانے کہاں سے میرے ذہن میں یہ خیال کوندا کہ مجھے یہ پیسے ہر جائز طریقہ سے واپس لینے ہیں اور اگر ممکن ہوا تو ان مجرموں کو بھی سزا دلوانی ہے۔ میری خوش قسمتی کہ میں یہ سب کرنے میں کامیاب رہا۔

اگلے دن میں اپنے بنک کے ریجنل آفس چلا آیا اور کافی تگ و دو کے بعد فراڈ مینجمنٹ یونٹ میں موجود ایک افسر تک رسائی پانے میں کامیاب ہوگیا۔ متعلقہ افسر ایک فرض شناس افسر تھے جنہوں نے میرا سارا مسئلہ تفصیل کے ساتھ سنا اور اس سلسے میں میں اب تک جو اقدامات کیے ان کی تفصیل جانی۔ انہوں نے مجھے تعاون کا پورا یقین دلایا کیونکہ میں ان کے پاس پہنچنے والا پہلا شخص نہ تھا مجھ سے پہلے بھی کچھ متاثرین ان تک رسائی کر چکے تھے۔

چھ ہفتے کی ان کوائری کے بعد فراڈ مینجمنٹ یونٹ کے انہی قابل افسر نے ایک اہم نکتہ ڈھونڈ لیا جو مجرموں تک رسائی کا ذریعہ بنا۔ چھ اسکمنگ متاثرین کی بنک اسٹیٹمنٹس کی تفاصیل جانچتے وقت متعلقہ افسر نے دریافت کیا کہ سب متاثرین کا اے ٹی ایم کارڈ فراڈ ہونے سے پہلے آخری بارایک ہی جگہ شاپنگ کی ادائیگی کے لئے استعمال ہوا تھا۔ مجھے انہی افسر نے ایک ملاقات میں معاملہ ایف آئی اے تک لے جانے کا مشورہ دیا اور اس ضمن میں ہر طرح کے تعاون کا یقین دلایا۔ مجھ سمیت کُل چھ متاثرین نے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ میں باقاعدہ شکایت درج کروائی جس پہ ایف آئی اے نے بنک کے فراڈ مینجمنٹ یونٹ کی انکوائری کو آگے بڑھاتے ہوئے لاہور کے ایک شاپنگ مال سے دو ملازمین کو شک کی بنیاد پہ گرفتار کیا جن میں سے ایک نے دوران تفتیش اپنے جرم کا اقرار کیا۔

ان سب کوششوں میں قریباً چھ ماہ کا وقت صرف ہوا اور جولائی کے آخری ہفتہ بنک نے میری درخواست قبول کرتے ہوئے چرائے گئے میرے ایک لاکھ روپے مجھے واپس کر دیے۔ ایف آئی اے اور بنک فراڈ مینجمنٹ یونٹ والوں کی کارکردگی اور تعاون بہت حوصلہ افزا رہا جس پہ میں ان کا مشکور ہوں۔ اپنی جانب سے میں معاملہ میں ہونے والی تمام پیش رفت کا رکارڈ تحریری صورت میں محفوظ رکھتا رہا اور اپنے بنک کے کنزیومر بنکنگ ڈیپارٹمنٹ، اسٹیٹ بنک کے کنزیومر پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ اور بنکنگ محتسب کو بصورت ای میل آگاہ رکھتا رہا جس نے اس سب معاملہ کو تیز اور تہی انجام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔

مجرمانہ ذہنیت کے لوگ ہر معاشرہ میں ہوتے۔ ہیکرز کو اے ٹی ایم سکمنگ والی مشینوں تک بذریعہ انٹرنیٹ رسائی حاصل ہے چند ہزار ڈالر کے عوض حاصل کی جاسکتیں جو صارف کی اے ٹی ایم خفیہ معلومات با آسانی چرا سکتی۔ ان معلومات کو ہیکرز نئے کارڈ پہ منتقل کر کے صارفین کی رقم کسی بھی ملکی اور چند صورتوں میں غیر ملکی اے ٹی ایم مشینز سے نکلوا سکتے۔ ان سے بچنے کے لئے کچھ تجاویز ہیں جن پہ عمل کر کے محفوظ رہا جا سکتا۔

۔ اس بات کو اپنی عادت بنا لیں کہ ہر دو ہفتوں کے بعد اپنا اے ٹی ایم پاسورڈ تبدیل کریں۔
۔ شاپنگ مالز کی اے ٹی ایمز انتہائی ضرورت میں استعمال کریں اور اے ٹی ایم کا خفیہ کورڈ دیتے وقت کی پیڈ کو دوسرے ہاتھ سے چھپائے رکھیں۔
۔ بنکوں کی اے ٹی ایم استعمال کرتے وقت کارڈ داخل کرنے والی جگی کی تسلی کر لیں کہ کہیں کوئی چھوٹی سے چپ یا کوئی چھیڑ چھاڑ تو نیہں کی گئی۔
۔ پٹرول پمپ یا ریستوران پہ ادائیگی کرتے وقت محتاط رہیں اور اپنا کارڈ اپنی آنکھوں کے سامنے مشین سے سوائپ کروائیں۔

۔ شاپنگ کرنے کے لئے اور بچت کو محفوظ رکھنے کے لئے ایک سے زائد بنک اکاؤنٹس اور ہر دو مقاصد کے لئے علیحدہ علیحدہ اے ٹی ایم کارڈز استعمال میں رکھیں۔
۔ اپنے رشتہ دار، دوستوں اور کولیگز کو اے ٹی ایم فراڈ کے باری میں آگاہی دیں۔
۔ اگر کبھی کسی کو خدانخواستہ فراڈ والی صورتحال کا سامنا ہو تو تمام متعلقہ ادارے جن کا تحریر میں ذکر کیا گیا ان سے رجوع کریں۔

عام بنک صارفین کی طرح جو بات مجھے پہلے معلوم نہ تھی وہ یہ کہ ہمارے اے ٹی ایم کارڈ اور ڈپازٹس ایسے کسی ناخوشگوار واقعہ کی صورت میں بیمہ کمپنیوں سے انشورڈ ہوتے اور بنک متاثرین کو ان کی رقوم انہیں واپس لوٹانے کا پابند ہوتا۔

اس سب کے آخر میں یہ کہ بطور صارف اپنے حقوق سے آگاہی رکھیں۔ حوصلہ مت ہاریں۔ کسی بھی کام کو سر انجام دینے کے لئے جو بھی جائز رستے اور کوششیں ہو سکتیں وہ ضرور کریں نتائج حوصلہ افزا نکل آتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).