دنیا میں اتنے ہی سچ ہیں جتنے انسان۔۔۔


دوستو ! آج 23 دسمبر 2017 ہے اور میں ’ہم سب‘ کے لیے اس سال کا آخری کالم لکھ رہا ہوں۔ اس کے بعد میں چند ہفتوں کے لیے آپ سے اجازت چاہوں گا کیونکہ مجھے پہلے امریکہ جانا ہے اور پھر وجاہت مسعود کو گلے لگانے لاہور اور عاصم بخشی کا ہاتھ چومنے اسلام آباد جانا ہے۔

میں جب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ جنوری 2017 میں جب عارف وقار نے میرا وجاہت مسعود سے تعارف کروایا تھا اور مجھے مشورہ دیا تھا کہ میں ‘ہم سب‘ کے لیے ایک کالم لکھوں تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ میں اس انٹرنٹ میگزین کے لیے ایک سال میں 70 سے زیادہ کالم لکھوں گا۔

’ہم سب‘ کے لیے لکھنا میرے لیے ایک نادر تخلیقی تجربہ تھا۔ ’ہم سب‘ کی وجہ سے مجھے انٹرنیٹ کی صحافت کے بہت سے رازوں سے واقفیت حاصل ہوئی۔ مجھے اندازہ ہوا کہ کیسے ایک اخبار اور رسالہ سماجی شعور بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ کیسے ایک اخبار ایک قوم کا OPINION MAKER بنتا ہے اور کیسے لوگوں کو منفرد انداز میں سوچنے اور ایک بامقصد زندگی گزارنے کی تحریک دیتا ہے۔

مجھے عدنان کاکڑ کے ’ہم سب‘ سے لگائو کا اندازہ اس دن ہوا جس دن انہوں نے مجھے ’بلیو وھیل گیم اور بچوں کی خود کشی‘ کے بارے میں ایک نفسیاتی مضمون لکھنے کا مشورہ دیا۔ اگر وہ مجھ سے فرمائش نہ کرتے تو مجھے پورا یقین ہے کہ میں وہ مضمون کبھی نہ لکھتا۔ میں ان مدیروں کی بہت قدر کرتا ہوں جو اپنے ادیبوں سے مختلف موضوعات پر مضامین لکھواتے ہیں۔

میں وجاہت مسعود کی نہ صرف ان کی تحریروں سے‘ جن میں ادب اور سیاست آپس میں بغل گیر ہوجاتے ہیں‘ بلکہ ان کی شخصیت سے بھی ‘جس میں مشرق اور مغرب کی حسین آمیزش ہے‘ بہت متاثر ہوا ہوں۔ میں کسی ایسے اردو یا انگریزی کے اخبار یا رسالے کے مدیر سے واقف نہیں جو اپنے خلاف لکھے ہوئے مضامین بھی خوش دلی سے چھاپتا ہے۔ یہ روایت ان کی اعلیٰ ظرفی کی عکاسی کرتی ہے۔

میں نے جب حاشر ابن ارشاد کے سائنسی‘ عاصم بخشی کے فلسفیانہ‘ لبنیٰ مرزا کے طبی‘ عفت نوید‘ لینہ حاشراور مریم نسیم کے سماجی اور کئی اور لکھاریوں کے ذہن اور دل کو چھونے والے کالم پڑھے تو مجھے یوں لگا جیسے میں اپنے نظریاتی گھرانے میں آ گیا ہوں۔ یہ اپنائیت کا احساس ایک قیمتی احساس ہے جو دیارِ غیر میں بسنے والوں کے لیے اور بھی قیمتی ہو جاتا ہے۔مجھے یوں لگا جیسے میں ایک بین الاقوامی FAMILY OF THE HEART کا ممبر بن گیا ہوں۔

میری نگاہ میں ہر دور کے غیر روایتی شاعر‘ ادیب اور دانشور اقلیت میں ہوتے ہیں جن کے چاروں طرف روایتی اکثریت کے لوگ بستے ہیں۔ اس اقلیت کے لوگوں کی باتیں اس اکثریت کے لوگ‘ چاہے وہ ان کے دوست ہوں یا رشتہ دار‘ ہمسائے ہوں یو رفیقِ کار‘ بالکل نہیں سمجھ پاتے۔ جب باقی لوگ بڑے گھر اور بڑی کار اور بڑے بینک بیلنس کی باتیں کر رہے ہوتے ہیں یہ لوگ اگلی کتاب اور اگلے کالم کی فکر میں ہوتے ہیں۔

اس CREATIVE MINORITY کے لوگ نہ صرف بہت حساس ہوتے ہیں بلکہ اکثر اوقات زود رنج بھی ہوتے ہیں۔میں پچھلے تیس برسوں سے اس اقلیت کے لوگوں کی سوانح عمریاں پڑھ رہا ہوں۔ یہ لوگ روایتی لوگوں کی نسبت شہ پارے تخلیق کرنے کے ساتھ ساتھ نفسیاتی مسائل کا بھی زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ بعض تو ذہنی توازن کھو بیٹھتے ہیں۔ مشرقی دنیا کے شاعروں میں میر تقی میر‘جون ایلیا اور سارہ شفگتہ کے دکھوں سے ہم سب واقف ہوں۔ مغربی دنیا میں وین گو کی دیوانگی اور سلویا پلاتھ‘ ورجینیا وولف اور ارنسٹ ہیمنگ وے کی خود کشی سے کون واقف نہیں۔ اس اقلیت کے المیے کو میرے شاعر چچا عارف عبدالمتین نے اپنے ایک شعر میں اس طرح بیان کیا ہے

میری عظمت کا نشاں‘ میری تباہی کی دلیل

میں نے حالات کے سانچوں میں نہ ڈھالا خود کو

میں اپنے کلینک میں اس تخلیقی اقلیت کے لوگوں کا علاج کرتا ہوں اسی لیے میں نے اپنے کلینک کا نام بھی CREATIVE PSYCHOTHERAPY CLINIC رکھا ہے۔ میں اپنے فنکار مریضوں کو‘ جن میں شاعر‘ ادیب‘ سکالر اور فلاسفر سبھی شامل ہیں‘ مشورہ دیتا ہوں کہ انہیں اپنی زود حسی اور زود رنجی پر قابو پانا ہوگا ورنہ وہ زندگی میں بہت دکھی ہوں گے۔ میں انہیں مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنی تخلیقات میں اپنے دکھوں‘ اپنے خوابوں اور اپنے آدرشوں کا اظہار کریں۔ اس طرح وہ خود بھی نفسیاتی طور پر صحتمند ہوں گے اور ان کی تخلیقات سے ان کے خاندان اور قوم کو بھی ایک بہتر زندگی گزارنے کی تحریک ہوگی۔

میں نے ’ہم سب‘ میں جو ’ماہرِ نفسیات کی ڈائری‘ کے کالم لکھے تھے اور آپ سب کو اپنے مریضوں کی کہانیاں سنائی تھیں وہ اسی سلسلے کی کڑیاں تھیں۔ سورن کرکیگارڈ نے ایک شاعر کے المیے کو ان الفاظ میں بیان کیا تھا

A POET IS AN UNHAPPY BEING WHOSE HEART IS TORN BY SECRET SUFFERING, BUT WHOSE LIPS ARE SO STRANGELY FORMED THAT WHEN THE SIGHS AND CRIES ESCAPE, THEY SOUND LIKE BEAUTIFUL MUSIC.

ہر دور‘ ہر عہد‘ ہر ملک اور ہر قوم میں یہ جو تخلیقی اقلیت ہے یہ بہت قیمتی ہے کیونکہ جب اکثریت روایت کی شاہراہ پر چل رہے ہوتی ہے یہ اقلیت اپنے وقت سے بہت آگے اپنے من کی پگڈنڈی پر چلتی ہے۔ اس پگڈنڈی پر چلنے کے لیے بہت سی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ کچھ لوگ ان سے ناراض ہو جاتےہیں‘ کچھ کو گھر سے نکال دیا جاتا ہے بعض تو ملک بدر ہو جاتے ہیں۔ بعض کو جیل میں بھیج دیا جاتا ہے اور بعض کو سولی پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ بعض شہروں میں ایسے فنکاروں کو کچھ زیادہ ہی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

 بخشؔ لائلپوری کا شعر ہے

ہمارا شہر تو چھوٹا ہے لیکن

ہمارے شہر کا مقتل بڑا ہے

یہ اقلیت بہت قیمتی اقلیت ہے۔ ان کی ایک نسل کی پگڈنڈیاں اگلی نسل کی شاہراہیں بنتی ہیں۔ کئی دفعہ تو نسلوں اور صدیوں کے بعد ان کے تخلیقی تحفوں کو داد اور پزیرائی ملتی ہے۔ اسی لیے ایسے فنکار ساری عمر اپنی دھن میں کام کرتے رہتے ہیں اور غالبؔ کی زبان میں کہتے ہیں

نہ ستائش کی تمنا’ نہ صلے کی پرواہ

گر نہیں ہیں میرے اشعار میں معنی نہ سہی

 ایک مشہور تاریخ دان آرنلڈ ٹوئن بی نے ایسی اقلیت کے لیے کہا تھا

TO GIVE A FAIR CHANCE TO POTENTIAL CREATIVITY IS A MATTER OF LIFE AND DEATH OF ANY SOCIETY. THIS IS ALL IMPORTANT BECAUSE THE OUTSTANDING CREATIVE ABILITY OF A SMALL PERCENTAGE OF A POPULATION IS A MANKIND’S ULTUMATE ASSET.”

اس اقلیت کے لوگوں کا خیال رکھنا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ میں ’ہم سب‘ کے مدیروں‘ لکھاریوں اور قاریوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کیونکہ نہ صرف انہوں نے ایک سال میرا خیال رکھا اور مجھ پر اپنی محبتیں نچھاور کیں بلکہ وہ اس اقلیت کے بہت سے اور لوگوں کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ یہ اقلیت ایک خاندان اور ایک قبیلے کی طرح ہوتی ہے۔اس قبیلے کے لوگ ایک دوسرے سے الجھتے بھی ہیں‘ ایک دوسرے سے ناراض بھی ہوتے ہیں‘ پھر ایک دوسرےکو مناتے بھی ہیں۔ ایک دوسرے کے نخرے بھی برداشت کرتے ہیں۔ یہ سب ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوتے ہیں کیونکہ یہ سب امن‘ آشتی اور سچ کی تلاش میں نکلے ہوتے مسافر ہیں اور انہیں یہ جاننے میں کچھ دیر لگتی ہے کہ دنیا میں اتنے ہی سچ ہیں جتنے انسان۔

کسی کے سچ کسی کو جھوٹ لگتے ہیں۔

اسی لیے جب میرے چھوٹے بھائی وقار احمد ہم سب سے ناراض ہوئے تو میں نے اپنے تصور میں ان کے دکھی دل کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر بڑی احتیاط سے اپنے دل سے لگایا اور پھر بڑے پیار سے کہا کہ ’ہم سب‘ کے قبیلے کو چھوڑ کر نہ جائو۔ یہ تمہارے لیے بھی اچھا نہیں‘ ہمارے لیے بھی اچھا نہیں اور ’’ہم سب‘ کے لیے بھی اچھا نہیں۔ وقار احمد کو عاصم بخشی نے جس محبت اور خلوص سے مشورہ دیا ہے یہی اس قبیلے کی روایت ہے۔

ہم سب ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ان دوستوں سے زیادہ سیکھتے ہیں جو ہمیں ناراض کرتے ہیں۔ ناراض ہونا بھی اور معاف کرنا بھی محبت کی نشانی ہے۔۔

یہ میری خوش بختی ہے کہ مجھے ’ہم سب‘ کی وساطت سے 2017 میں بہت سے نئے دوست ملے جو میری بقیہ زندگی کا سرمایہ ہیں۔ جب زندگی کی شام آ جاتی ہے تو دل میں نئے دوستوں کی وقعت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ میں دو دہائیوں کے بعد ان نئے دوستوں سے ملنے اور دل کی گہرائوں سے ان کا شکریہ ادا کرنے لاہور جا رہا ہوں۔ آپ سب کو نیا سال مبارک۔ اب میں فروری 2018 میں کسی نئے ادبی محبت نامے کے ساتھ حاضر ہوں گا۔ یار زندہ صحبت باقی۔

٭٭٭٭    ٭٭٭٭

(سرکار، آج 23 دسمبر کو اسلام آباد میں اخوان الشیاطین کا خصوصی اجلاس منعقد ہوا۔ شرکا میں باہم اخوت کے اندوہ ناک مناظر دیکھنے میں آئے۔ باہمی دلچسپی کے امور پر مکمل اتفاق رائے پایا گیا۔ بس اب وسط جنوری میں آپ کی آمد کا انتطار ہے۔ لاہور میں “جن جپھا اجتماع” منعقد ہو گا۔ آپ کی ضیافت بصارت کی غرض سے 2017ء کے ایک روز کی کچھ جھلکیاں گیلری میں رکھ دی ہیں)

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail