چاچا خرچی دے


اِس بار مطالعاتی دورے پر ہم ایسی جگہ جارہے تھے جہاں کے بارے میڈیا پر ہمیشہ بری خبر ہی سننے کو ملتی تھی۔ کبھی یہ علاقہ بروقت طبی سہولیات نہ ملنے کے سبب معصوم بچوں کی اموات کے حوالے سے اخبارات کی زینت بنتا تو کبھی خوراک کی کمی اور قحط سالی کے باعث حکومتی توجہ کا منتظر نظر آتا تو کبھی اِس علاقے میں مور جیسے نایاب پرندوں کی نسل کشی کے واقعات حکومتی بےحسی کی تصویر بنے دکھائی دیتے۔ 20 ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلے ضلع تھرپارکر کے بارے میں میڈیا سے جب بھی معلوم ہوا اِس کا منفی پہلو ہی سامنے آیا۔

لہذا جب ہم اِس صحرائی دنیا میں داخل ہوئے تو اِس کی جو تصویر ذہن پر نقش تھی حقیقت اُس سے یکسر مختلف نظر آئی۔ ریتلا میدان بنجر زمین اور میٹھے پانی سے محروم سمجھا جانے والا سندھ دھرتی کا یہ حصہ اپنے اندر کتنی خوبصورتی سمیٹے ہوئے ہے اور قیمتی ذخائر و معدنیات سے کس قدر مالا مال ہے اِس کا اندازہ تو یہاں آکر ہی لگایا جاسکتا ہے۔ جہاں ایک جانب صحرائے تھر کے مکین اور اُن کا رہن سہن اپنی مخصوص ثقافت کے رنگ بکھیرتے دکھائی دیے تو دوسری جانب یہاں کے بلند وبالا پہاڑ ہزاروں سالہ تاریخ کو اپنے دامن میں سمیٹے نظر آئے۔ میں حیران تھا کہ سندھ دھرتی کے اِس ٹکڑے کو بےکار اور بنجر سمجھنے والے اِس کی اہمیت اور اِس میں مدفن خزانوں کے بارے کس قدر لاعلم ہیں۔

تھرمیں نگرپارکر سے کچھ فاصلے پر کارونجھر پہاڑی سلسلہ ہے یہ علاقہ بھارتی سرحد سے کچھ ہی فاصلے پر ہے۔ جہاں ہمیں ایک جانب ہزاروں سالوں پر محیط قدیم تاریخی مقامات دیکھنے کا موقع ملا وہیں ہم نے قیمتی پتھر گرینائٹ کا ایک طویل اور بلند پہاڑی سلسلہ بھی دیکھا۔ جسے دیکھ کر مستقبل میں اِس علاقے کی اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ گرینائٹ وہ قیمتی پتھر ہے جسے دنیا بھر میں عمارتوں کی تعمیر اور آرائش کےلیے بکثرت استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ یہ پتھر مختلف طرز کے نوادرات بنانے میں بھی کام آتا ہے۔ حکومت توجہ دے تو یہاں موجود اِن قیمتی پتھروں کے ذخائر سے ملکی و بین الاقوامی سطح پر اچھا خاصا زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔ جبکہ فضائی آلودگی سے پاک اِس پرفضا اور خوبصورت کوہِ دامن کو جہاں کافی تعداد میں قدیم تاریخی مقامات موجود ہیں اِنھیں جدید سہولتوں سے آراستہ کرکے دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بھی بنایا جاسکتا ہے۔

سندھ میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے ہمیشہ پاکستان پیپلزپارٹی پر تنقید کی جاتی ہے اور شکوہ کیا جاتا ہے کہ وہ عرصہ دس سال سے مسلسل سندھ میں اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے لیکن سندھ کے شہری علاقوں سمیت اندرون سندھ میں کہیں بھی کوئی قابلِ ذکر ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے اقدامات اٹھاتی نظر نہیں آئی۔ تھرپارکر وزٹ کے بعد میں اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ سندھ کی حکمراں جماعت پاکستان پیپلزپارٹی نے بھلے ہی سندھ کے شہری علاقوں کو نظرانداز کر رکھا ہو۔ لیکن وہ اندرون سندھ میں کافی حد تک ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے اقدامات اٹھا رہی ہے۔ دورانِ سفر اندرون سندھ کے شہروں کو آپس میں جوڑنے کے حوالے سے پختہ سڑکوں کی تعمیر جگہ جگہ نظر آئی۔ بالخصوص تھر میں ترقیاتی کاموں کی رفتار کافی تیز ہے جس کی ایک وجہ تھر میں موجود کوئلے کے ذخائر سے بننے والی سستی بجلی کے وہ منصوبے ہیں جو تھر کول مائننگ پروجیکٹ کے تحت زیر تکمیل ہیں۔ جسے سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کے اشتراک سے مکمل کیا جانا ہے۔ جبکہ کہا جارہا ہے کہ اِس منصوبے کی تکمیل سے پاکستان توانائی کے بحران سے نہ صرف باہر نکل آئے گا بلکہ عوام کو سستی بجلی فراہم کرنے میں بھی کامیاب ہوجائے گا۔ اِن دعوؤں میں کتنی صداقت ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

خیر میں گھومتا پھرتا ایک پہاڑ کے اونچے ٹیلے پر کھڑا ہوگیا جہاں سے تھرپارکر کا وسیع رقبہ مجھے واضح نظر آرہا تھا۔ دور سے سرخی مائل پہاڑ اور زردی مائل مٹی کے رنگوں کا سنگم انتہائی دلفریب منظر پیش کررہے تھا۔ میں کافی دیر کھڑا اِس مٹی کی امیری پر خوش ہوتا رہا واقعی یہ کوئی زمین کا ٹکڑا نہ تھا ایک خزانہ تھا۔ کس قدر خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنھیں اللہ رب العزت نے اِس قدر معدنیات سے نواز رکھا تھا۔ ابھی اِسی سوچ میں گم تھا کہ اچانک مجھے ایسا لگا جیسے میری شرٹ کو پیچھے سے کسی نے زور سے کھینچا ہو۔

میں نے فوراً پیچھے مڑ کر دیکھا تو سامنے ایک دس سالہ بچہ اپنے ننھے ہاتھ میری جانب بڑھائے انتہائی معصومیت سے کہنے لگا ”چاچا خرچی دے“ اُس کے میلے کچیلے کپڑوں پر جنگلی گھاس کے کانٹے جسے چینٹو کہا جاتا ہے ایسے جڑے پڑے تھے جیسے کپڑوں میں کسی نے موتی جڑ رکھے ہوں۔ اُسے یقینًا اِن کانٹےدار جھمکو سے تکلیف ہورہی ہوگی۔ لیکن اُس معصوم کو اِس کی کوئی پرواہ نہ تھی اُس کی زبان سے تو بس ایک ہی بات جاری تھی ”چاچا خرچی دے“ میں نیچے بیٹھ کر اسے گھورتا رہا اور کچھ لمحے کےلیے سوچ میں پڑ گیا اتنے بڑے خزانے کا مالک اِتنا غریب۔ اب میری آنکھیں اشکبار تھیں۔ کیونکہ میں نے اُس معصوم کی آنکھوں میں تھر کا مستقبل پڑھ لیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).