میڈیا کے خود ساختہ جج ہار گئے، شاہ رخ جتوئی بچ نکلا!


شاہ زیب قتل کیس میں شاہ رخ جتوئی کی رہائی کے ساتھ ہی سندھ کی شہری کلاس کو مات ہو گئی۔ آج از خود جج بنے ہر شہری کے لیے سوگ کا دن ہے، آج مرضی کا انصاف ہار گیا، آج خودساختہ جج لال بجھکڑ بن گئے۔

شاہ زیب قتل کیس نے سندھ کے دیہی اور شہری سماج کی تقسیم کو واضح کیا تھا۔ میڈیا، سوشل میڈیا، عدالت اور پورا شہری معاشرہ مقتول شاہزیب کے ڈی ایس پی باپ کے ساتھ کھڑا تھا۔

سندھ پولیس دبئی فرار ہونے والے شاہ رخ جتوئی کو انٹرپول کے ذریعے گرفتار کرکے کراچی لائی، 2013 سے اب تک لگ بھگ چارسال وہ جیل میں رہا، 2013 میں ہی عدالت نے اس کی موت کا فیصلہ سنا دیا۔ ایک ذاتی جھگڑے کو دہشت گردی کا مسئلہ بنایا گیا، شاہ رخ کی عمر کو نظرانداز کردیا گیا کیونکہ میڈیا، سوشل میڈیا، عدالت اور طاقتور شہری معاشرہ ہر صورت میں شاہ رخ جتوئی کی موت کا فیصلہ کرچکا تھا۔

اور پھر ایک ڈرامائی موڑ آیا اور شاہ زیب کے والدین نے لگ بھگ مبینہ 35 کروڑ روپے لے کر شاہ رخ کو معاف کردیا، مبینہ طور پر سڈنی، دبئی اور کراچی میں پراپرٹی بھی لی اور معاہدہ کرنے کے بعد بظاہر شاہ رخ کی فیملی دباؤ میں نظر آئی کہ اس نے میڈیا میں شاہ زیب کی فیملی کا یہی مؤقف دہرایا کہ یہ معافی اللہ کی رضا کے لیے ہوئی ہے۔

اس معافی کو شہری کلاس نے دباؤ کا نتیجہ قرار دیا مگر ہر بار شاہ زیب کی فیملی عدالت کے سامنے جاتی اور کہتی کہ اس پر کوئی دباؤ نہیں، یہ معاہدہ شہری کلاس کے منہ پر طمانچہ تھا، گھر بیٹھے جج بنا ہر شخص بھنا گیا، یہ اس کے خواہشوں کے برعکس تھا کہ شاہ رخ بچ جائے، شاہ رخ جتوئی کی رہائی کے بعد دباؤ کے تحت معافی کا مفروضہ ہی دل کو تسلی دینے کا وہ بہانہ ہے کہ جس کے تحت شہری کلاس کے خود ساختہ جج اپنے رستے زخموں پر مرہم رکھ رہے ہیں۔

خون بہا کے قانونی نکتے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شاہ رخ کی رہائی ممکن ہوئی ہے، اس کیس پر کام کرتے ہوئے ایسے درجنوں نام نہاد اسلامسٹس کو سنا کہ جن کی خجالت انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ ضیاالحق کے قانون کو ضیاالحقیوں پر الٹ دینا انہیں باولا کر گیا۔ ایک نام نہاد اسلامسٹ اعتراض کرتا ہوا کہہ رہا تھا کہ صرف دیت کے قانون پر کیوں عمل ہوا، پورے اسلامی قوانین پر عمل کیوں نہیں ہوتا۔ ریمنڈ ڈیوس بھی اسی خون بہا کے قانون کے تحت بچ نکلا تھا، نام نہاد مذہبی اشرافیہ ضیاالحق کے دور میں دیت وقصاص کا قانون بنا کر خود ہی پھنس چکی ہے، اگر وہ اعتراض کرتی ہے تو یہ براہ راست شریعت پہ اعتراض ہے۔

امریکا میں مسلمان باپ نے بیٹے کے قاتل کو معاف کر دیا تو ہمارے اسی معاشرے نے واہ واہ کی انتہا کر دی مگر جب شاہ رخ جتوئی کو اللہ کے نام کا بتا کر معاف کیا جا رہا ہے تو یہ خود ساختہ منصف معاشرہ اچھل اچھل کر ہونق ہوچکا ہے، یہ حواس باختہ ہیں، چہرے کے رنگ اڑے ہوئے ہیں، یہ کافی دلچسپ صورت حال ہے۔

شاہ رخ جتوئی ایک رئیس زادے کی بگڑی ہوئی اولاد ہے، جس نے وکٹری کا نشان بنا کر شہری کلاس کو اور اتاؤلا کیا ہے۔ 18 برس کے لڑکے سے کسی میچیور عمل کی توقع تو نہیں کی جا سکتی تھی مگر 23 برس کی عمر میں جیل سے باہر آنے کے بعد اس کو عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ کسی کو زندگی گزارنے کا یوں دوسرا موقع نہیں ملتا، اس لڑکے کو چاہیے کہ معاشرے کا مفید انسان بنے۔

شاہ رخ جتوئی کوئی ایک ہی ہوتا ہے ورنہ ابھی ایسا ہی ایک اور قتل اسی جگہ ہوا مگر سب کو سانپ سونگھا ہوا ہے کیونکہ دوسری جانب دیہی کلاس کا کوئی فرد نہیں، ظالم ومظلوم دونوں اپنے شہری بچے ہیں، جج بنی یہ شہری کلاس انصاف نہیں، انتقام اور انا کی تسکین کی صورت میں مرضی کا انصاف چاہتی ہے۔

یہاں دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ شاہ رخ جتوئی صرف جتوئی ہونے کی وجہ سے شہری کلاس کے عبرت ناک انتقام کا نشانہ بنا ورنہ یہ کسی وڈیرے کا نہیں، بلکہ شہر کے ایک سرمایہ دار کی بگڑی ہوئی اولاد ہے۔

شاہ زیب قتل کیس سے جہاں سندھ کی شہری و دیہی تقسیم واضح ہوئی ہے، وہیں سماج کے لئے سبق بھی ہے کہ نفرتوں کی اس خلیج کو پاٹنا ہے، کشمور سے کراچی تک شاہ زیب ہو یا شاہ رخ سب ہمارے بچے ہیں، گو قانون کے تحت شاہ رخ کو سزا ہوئی اور ایسی کڑی سزائیں ملنی چاہئیں تاہم اگر کسی قانونی سہولت سے کسی بچے کی جان بچتی ہے اور متاثرہ فرد خون بہا کو قبول کرتا ہے تو ایک اور خون بہانا کیوں ضروری ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).