جب بی بی شہید ہوئی تو میں۔۔۔ چھت پر جا کر رو دیا!


ہمارے جیسوں کی سیاسی وابستگیاں نہیں ہوتیں انسانی وابستگیاں ہوتی ہیں۔ ہمارے گھر اور رشتہ داروں میں پاکستان پیپلز پارٹی سے ہمدردی کی گنجائش کم تھی۔ نوے کی دہائی میں جب بی بی کے خلاف کردار کشی مہم چلی تو پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ گنے چنے جاننے والے منہ چھپاتے پھرتے تھے۔ بی بی کے خلاف بازاری زبان میں شعر زباں زد عام تھے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ کسی بھی عورت جس سے ہم کسی بھی حوالے سے وابستہ ہوں اس پر کیچڑ اچھالا جائے جھوٹی کردار کشی کی مہم چلائی جائے اور سب جانتے بھی ہوں کہ یہ جھوٹ ہے تب بھی ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں جبکہ بی بی کے مقابلے میں نواز شریف تو بہر حال مرد تھے۔ مرد کی کردار کشی زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتی ہے کہ رنگ رلیاں مناتے ہوئے پکڑا گیا تو کیا ہوا مرد ہے شہزادہ ہے کچھ تو کرے گا۔ یہ میں آپ کو روایتی دیہی سوچ کے تناظر میں بتا رہاہوں۔ تو اس وقت ایک شہزادے اور ایک شہزادی۔۔ نہیں بلکہ ایک شہزادے اور ایک عورت کے درمیان سیاسی جنگ عروج پر تھی۔ اور ہمارا خاندان اور بیشتر گاؤں کی آبادی شہزادے کے ساتھ تھی۔ تو اس پس منظر کے حامل کو پیپلز پارٹی سے کیا ہمدردی ہو سکتی تھی؟

وقت ٹی وی نیا نیا لانچ ہوا تھا۔ میری ملازمت ان دنوں نیوز ڈیپارٹمنٹ میں تھی۔ میں ایک کیبن میں بیٹھا کوئی نیوز پیکج بنا رہا تھا۔ میرے سامنے مانیٹرنگ ڈیسک تھا جہاں 30کے قریب ٹی وی سیٹ لگے ہوئےجہاں قومی اور بین الاقوامی چینلز کی نشریات آ رہیں تھیں۔ ایسے میں کہ ابھی نو بجے کے بلیٹن میں کافی دیر تھی نیوز کا شعبہ قدرے پرسکون نظر آ رہا تھا۔ زیادہ تر رپورٹرز ابھی فیلڈ میں تھے۔ اینکرز بیٹھے گپ شپ لگا رہے تھے۔ کوئی ایک کاپی رائیٹر ٹہلتا ٹہلتا آتا اور کسی چینل کے ٹکر نوٹ کر کے چلا جاتا۔ اسی دوران مجھے ڈائریکٹر نیوز آغا صاحب انتہائی تیزی سے بھاگتے ہوئے دکھائی دیے۔ پر سکو ن ماحول میں وہ شدید ارتعاش پیدا کرتے ہوئے مانیٹرنگ ڈیسک کی جانب دوڑے چلے آ رہے تھے۔ میں نےانہیں شیشے میں سے حیرت سے دیکھا اور ہیڈ فون اتارے۔ اتنی دیر میں مانیٹرنگ ڈیسک کا دروازہ انہوں نے زور سے کھولا بلکہ کھولا نہیں ٹکر ماری اور چڑھتی سانس کے دوران صرف اتنا کہہ سکے۔۔۔ بے نظیر کو گولی مار دی گئی ہے۔۔۔

ان کا اتنا کہنا تھا کہ پورے نیوز ڈیپارٹمنٹ میں ہلچل مچ گئی۔ صرف شور تھا۔۔۔ ہر کوئی کچھ نہ جانتے ہوئے بھی کچھ نہ کچھ کہہ رہا تھا۔ اچانک پھر سب خاموش ہوئے اور پھر آغا صاحب پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی گئی۔ کیا لیاقت باغ میں گولی لگی ہے؟ کہاں گولی لگی ہے؟ ہسپتال کتنا دور ہے؟ اور کس کو گولی لگی ہے؟ کیا مارنے والا پکڑا گیا ؟ کیوں گولی لگی ہے؟ کیا کوئی دھماکہ بھی ہوا ہے؟ ان میں سے کسی سوال کا جواب آغا صاحب کے پاس نہیں تھا۔ وہ پھر الٹے قدموں اپنے دفتر کی جانب دوڑے۔ دوڑتے دوڑتے وہ کہہ رہے تھے۔۔ “رپورٹر نے بتایا ہے گولی لگی ہے لیکن لیکن ہولڈ آن۔۔ ابھی خبر بریک نہیں کرنی۔ مانیٹرنگ پر نظر رکھو جیسے ہی کوئی چینل خبر دے تو مجھے بتاؤ۔ ابھی ہم نے خبر نہیں دینی “

ہم سب منہ کھولے حیرت سے تمام چینلز کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے۔ بین الاقوامی چینل بھی ایسی کوئی خبر نہیں دے رہے تھے۔ ہم سب کے دل بری طرح دھڑک رہے تھے۔ لیکن میرا دل کیوں بری طرح دھڑک رہا تھا؟ میری تو پیپلز پارٹی کے ساتھ کوئی وابستگی نہیں تھی۔ شاید اس لیےکہ بے نظیر بچپن سے ہمارے ذہنوں کا حصہ تھی۔ ہمارے والدین بھٹو کا نام احترام سے لیا کرتے اور ہمیشہ بھٹو صاحب کہا کرتے۔ بے نظیر کے ساتھ کوئی سیاسی وابستگی نہیں تھی لیکن ہم یہ جانتے تھے کہ بڑے باپ کی بیٹی ہے۔ بھٹو صاحب بڑے آدمی تھے۔ بے نظیر بھٹو صاحب کی بیٹی ہے۔ بچپن سے سیاسی افق پر بے نظیر کو چاند کی مانند دیکھا تھا۔ روشن اجلا۔ تو بھلا۔۔ کیا چاند کو گولی لگ سکتی ہے؟ کیا۔۔۔ کیا۔۔ اللہ نہ کرے۔۔ چاند مر بھی سکتا ہے؟

بے نظیر ہمارے ذہنوں کا کچھ اس طور حصہ تھی کہ جیسے کوئی دیومالائی کردار ہوتا ہے۔ شاید اسی دیو مالائیت کا عنصر تھا کہ ہم کبھی تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ بی بی مر بھی سکتی ہے۔ بی بی کی مخالفت اپنی جگہ لیکن بحیثیت شخصیت اس کا پھیلاؤ بہت زیادہ تھا۔ میں اپنے سمیت باقی انسانوں کے مرنے کا تو سوچ سکتا تھا لیکن۔۔۔ بے نظیر کیونکر مر سکتی ہےیہ میرے تصور سے باہر کا معاملہ تھا۔ پیپلز پارٹی کے کردار یونانی دیومالائیت کا شاہکار ہیں۔ بھٹو کے دور کے نوجوانوں کے لیے جیسے آج بھی بھٹو کی پھانسی قابل یقین نہیں ہے بس کچھ ایسے ہی ہمارے خیال میں بی بی کبھی نہیں مر سکتی تھیں۔ بی بی اور سیاست ایک دوسرے کے لیے پیدا ہوئے تھے۔ بی بی کا مرنا تو ایسے ہی ہوا جیسے کوئی کہے سیاست مر گئی ہے۔

مانیٹرنگ ڈیسک خاموش تھا۔ ہم میں سے کچھ اپنے رپورٹر کو برا بھلا کہہ رہے تھے کہ خواہ مخواہ کی اڑائی ہے۔ رپورٹرز کے ٖغیر ذمہ دارانہ رویوں پر بات چلی ہی تھی کہ اسی اثنا میں ایک بار پھر آغا صاحب پہلے سے زیادہ رفتار اور بد حواسی کے ساتھ دوڑتے ہوئے دکھائی دیے۔ وہ ہماری طرف آ رہے تھے۔ آتے ہوئے انہوں نے تقریبا چیختے ہوئے کہا ، بے نظیر کو گولی لگ گئی ہے۔ سر پر لگی ہے۔ نیوز بریک کرو۔ لیکن صرف گولی کا ذکر کرو۔ سر پر گولی لگنے کی بات نہیں کرنی۔ ابھی صرف ٹکر چلانے ہیں صرف ٹکر۔۔۔ رپورٹر کہہ رہا ہے بے نظیر کا بچنا ناممکن ہے۔۔۔ وہ وہ۔۔ دیکھو۔ وہ دیکھو اس چینل نے ٹکر چلا دیے ہیں۔ ٹکر چلا دو۔

ہم نے ٹکر چلا دیے۔ لیکن بس ٹکر ہی چلائے۔ دل میں یہی تھا کہ گولی لگی ہو گی لیکن دیومالائی کرداروں کو کیا ہوتا ہے۔ کچھ نہ کچھ ہو جائے گا آخر کار وہ بے نظیر ہے۔ اور پھر تقریبا تمام چینل ہی ٹکر چلا رہے تھے۔ لیاقت باغ جلسے میں بے نظیر کو گولی مار دی گئی۔ ابھی تک دل کسی بری خبر کو سننے کو تیار نہیں تھاابھی کچھ عرصہ پہلے ہی تو کراچی میں بے نظیر پر اتنا بڑا حملہ ہوا تھا کس قدر نقصان ہوا لیکن بے نظیر بچ گئیں تھیں۔ اتنی تباہی دیکھنے کے باوجود دوسرے دن اعتماد سے ٹی وی پر نظر آ رہی تھیں۔ بے نظیر کو کچھ نہیں ہو سکتا۔ جب تک سیاست ہے بے نظیر ہے۔ پھر وہ قاتل لمحہ بھی آیا جب آغا صاحب پوری رفتار سے بھاگے آ رہے تھے۔ لیکن پاس آ کر وہ چپ ہو گئے۔ سانس درست کی اور قدرے رازدارانہ اور سرگوشی کے انداز میں بس اتنا کہا۔۔۔ ”بے نظیر کی ڈیتھ ہو گئی ہے” نیوز روم میں خاموشی تھی۔ کوئی سوال نہیں کر رہا تھا۔ صرف خاموشی تھی۔ آغا صاحب کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ وہ دیوار کے ساتھ سہارا لے کرکھڑے تھے۔ تھوڑی دیر بعد کہا۔۔ ہم نے نیوز بریک نہیں کرنی۔ شاید ہر چینل تک بے نظیر کے مرنے کی خبر پہنچ چکی ہو لیکن کوئی بھی نہیں کرے گا۔ اس خبر کو نشر کرنے کا مطلب ملک میں آگ لگانے کے مترادف ہو گا۔

ہم خاموش رہیں گے جب تک کے کم از کم دو چینل اس خبر کو بریک نہ کر دیں۔ میرے رپورٹر نے بتا دیا ہے۔ وہ ہسپتال میں ہے۔ خبر میں کوئی شک نہیں۔ بے نظیر از نو مور! ا۔ آغا صاحب کے یہ کہنے کے دوران ہی ایک قومی اور ایک بین الاقوامی چینل نے بے نظیر کی وفات کی خبر سنا دی۔ میں تمام چینلز کو دیکھ رہا تھا۔ صرف ایک ایسے چینل کی تلاش میں میری نظریں جا بجا سکرینوں پر بھٹک رہیں تھیں۔ کوئی ایک چینل جو تردید چلا رہا ہو۔ کوئی ایک چینل جو کہہ رہا ہو۔۔ کہ تمام چینل غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ ہم آپ کو حقیقت بتا رہے ہیں ہمارا رپورٹر اس کمرے میں ہے جہاں بے نظیر ہیں وہ بے ہوش ہیں زخمی ہیں لیکن وفات کی خبریں جھوٹی ہیں۔۔۔ لیکن ایسا نہ ہوا اور صرف پانچ منٹ میں تمام چینلز کی سکرینیں سرخ تھیں۔ بے نظیر شہید ہو گئیں۔ راولپنڈی میں بے نظیر شہید ہو گئیں۔ لیاقت باغ میں گولی لگنے سے بے نظیر شہید ہو گئیں۔ بے نظیر کو گولی لگی اسی دوران دھماکہ ہوا۔ بے نظیر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گئیں۔۔۔۔۔

بے نظیر کے ساتھ کچھ بھی ہوتا۔۔ چاہےکردار کشی مہم جاری رہی۔۔ چاہئے عجیب و غریب لاحقے بے نظیر کے نام کے ساتھ لگتے رہتے۔۔ لیکن بے نظیر کے ساتھ لفظ شہید۔۔۔ کیا وہ واقعی نہیں رہیں ؟کیا بے نظیر مر بھی سکتی ہیں؟ بے نظیر کیسے مر سکتی ہیں ؟ کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ بے نظیر زخموں کی تاب نہ لا سکیں؟

میں چھت کی جانب دوڑا۔ یہ ایک اضطراری حرکت تھی۔ سگریٹ سلگایا۔ میری بے نظیر کی پارٹی سے وابستگی نہیں تھی۔ بچپن میں تو میں بچوں کی اس منڈلی کا حصہ تھا جو بے نظیر کے نام کے ساتھ بھانت بھانت کی گالیاں جوڑتی تھیں۔ عورت کسی اسلامی ملک کی حکمران ہو ہی نہیں سکتی۔۔ یہ قرب قیامت کی علامت ہے۔ یہ باریک نکات ہمیں مسجد کے مولوی صاحب نے بتائے تھے جن سے ہر وقت عطر کی خوشبو آتی تھی۔۔ میں چھت پر تھا۔۔ مجھے نہیں معلوم کب سگریٹ سلگایا کب ختم ہوا۔ آنسو تھمنے کا نام نہیں لیتے تھے۔ گلے میں کسی نے کڑواہٹ انڈیل دی تھی۔ دل مجھ سے۔۔ میری سیاسی وابستگیوں سے باغی تھا۔ دل میرا تھا کمبخت مجھ سے ہی باغی تھا۔ میں اور دل اس دن جدا تھے۔ دل روتا تھا اور صرف ایک جملہ بار بار سنائی دیتا۔۔ کتو ، خنزیرو۔۔ وہ ماں تھی۔۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کی ماں تھی۔ وہ چلتی تھی تو ساتھ تین ننھے بچے انگلی پکڑ کر چلتے تھے۔۔ کتو کس کو مار دیا۔۔ بے نظیر کو مار دیا۔۔ ماں کو مار دیا۔۔ اس کے معصوم ننھے بچے تھے۔ وہ ماں تھی۔ میں چپ تھادل باغی تھا۔ دل اس دن بادشاہ تھا۔ آنکھیں معاملے کی سنگینی دیکھتے ہی دل کے ساتھ ہو لیں۔ تمام سیاسی وابستگیوں کا جنازہ نکل چکا تھا۔ وہ بچہ جو بے نظیر کے خلاف نعرے مارتا تھا کسی کونے کھدرے میں چھپ چکا تھا۔ وہ نوجوان جو پیپلز پارٹی کو پسند نہیں کرتا تھاکہیں دبک گیا تھا۔ اس دن دل کا راج تھا۔ دل سرخ تھا۔ دل پیپلز پارٹی تھا۔ دل دلیر تھا۔ دل جیالا تھا۔ جیالے کب کسی کے روکنے سے رکے ہیں۔ جیالا روتا تھا اور ہچکیوں کے دوران صرف اتنا کہتا تھا۔۔ کتو ، خنزیرو۔۔ وہ ماں تھی۔۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کی ماں تھی۔ وہ چلتی تھی تو ساتھ تین ننھے بچے انگلی پکڑ کر چلتے تھے۔۔ کتو کس کو مار دیا۔۔ بے نظیر کو مار دیا۔۔ ماں کو مار دیا۔۔ اس کے معصوم ننھے بچے تھے۔ وہ ماں تھی۔ وہ بے نظیر ماں تھی۔

Dec 24, 2017

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik