16 دسمبر 1971ء کا سبق


ہر سال ہم سب سولہ دسمبر کو 1971کے عظیم سانحہ کو یاد کرتے ہیں اور اس موقع پر دانشور اپنے اپنے طریقہ سے اپنا اپنا تجزیہ پیش کرتے ہیں مگر مجھے شروع میں ہی یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ تاریخ کا سب سے اہم اور بنیادی سبق یہ ہے کہ تاریخ سے کوئی سیکھتا نہیں ہے۔

لیکن اس کے باوجود سبق دہرانے میں کوئی ہرج نہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی اس وقت کی جنرل یحییٰ خان کی فوجی حکومت نے عوامی مینڈیٹ کی توہین کرتے ہوئے شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا اور مشرقی پاکستان پر فوج کشی کردی۔ یہ بھی بات سچ ہے کہ پیپلز پارٹی کے بانی چیرمین ذوالفقار علی بھٹو نے اس عمل میں فوج کا بھر پور ساتھ دیا اور بیان دیا کہ Thank God Pakistan is saved۔

بہرحال دوست ممالک کے سمجھانے جن میں چین سب سے آگے تھا ہمارے فوجی حکمرانوں نے اس مسئلہ کا سیاسی حل نکالنے کی بجائے طاقت کے بل پر مشرقی پاکستان کے بھائیوں کو دبانے کی کوشش کی جس میں انہیں ناکامی ہوئی۔ پاکستانی فوج کو ہتھیارڈالنا پڑے اور نوے ہزار پاکستانی جنگی قیدی بنا لئے گئے۔

اس پر بھی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جائے گا کہ راولپنڈی نے اپنے مشرقی پاکستانی بھائیوں کے مطالبات ماننے کی بجائے ہندوستانی جرنیل کے سامنے کیوں ہتھیار ڈالے!

میں اس سارے معاملہ کو اپنے خاص نقطہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ شاید کسی اور کو 1971کے حالات اور آج کے حالات میں کوئی مماثلت نظر آئے نہ آئے مگر میں سمجھتا ہوں کہ ایک طرح سے آج کے پاکستان میں 1971 جیسے حالات ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے حکمرانوں کو اپنے مشرقی پاکستانی بھائیوں سے اپنے جرائم اور گناہوں کی سر عام معافی مانگنی چاہئے تھی مگر ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوا اور اس کی وجوہات بھی صاحب علم لوگوں کو معلوم ہیں۔

جنرل محمد ایوب خان کے خلاف کامیاب عوامی تحریک چلانے کے بعد پاکستان کی اس وقت کی سیاسی قیادت نے جمہوریت قبول کرنے کی بجائے یحییٰ خان کے مارشل لا کو ترجیح دی۔ جنرل یحیےٰ نے کیونکہ جنرل ایوب خان کی حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لا لگایا تھا اس لئے اس نے اپنی ساری توجہ کنونشن مسلم لیگ کو دبانے میں صرف کیں۔ شیخ مجیب اور بھٹو اس وقت کے فوجی جنتا کے فیورٹ گھوڑے تھے۔ گو فوج کے ایک حصہ نے جن کی قیادت وزیر اطلاعات جنرل شیر علی کر رہا تھا جماعت اسلامی پر بھی ہاتھ رکھا ہوا تھا۔

ان کا خیال تھا کہ کوئی بھی پارٹی پورے پاکستان میں اکثریت نہیں جیت سکے گی اور الیکشن کے بعد وہ سیاسی پارٹیوں کے ساتھ جوڑ توڑ کرکے اپنا حصہ لے لیں گے یعنی وہ جنرل یحییٰ کو پاکستان کا صدر مان لیں گے۔ مگر اس میں وہ اس لئے کامیاب نہ ہوئے کیونکہ عوامی لیگ اس کے لئے راضی نہ تھی اور اس کے بعد جو کچھ ہوا ہمارے سامنے ہے۔

اب آج کے حالات کی طرف آجائیں سوال کیا جا سکتا ہے کہ عمران خان اور اس جیسے سیاسی رہنما 2018 کے عام انتخابات کا کیوں انتظار نہیں کر سکے۔ نواز شریف کے خلاف ہیئت مقتدرہ کے ایک عنصر نے پہلے دن سے ہی اسے کمزور کرنے کے لئے کام شروع کر دیا تھا۔ اسلام آباد دھرنا اسی منصوبہ کا ایک حصہ تھا۔

اسمبلیوں سے استعفیٰ بھی اسی کا ایک حصہ تھا۔ چوہدری افتخار کے بعد یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ پاکستان کی عدلیہ کسی بھی سیاسی حکومت کے خلاف سازش کا حصہ نہیں بنے گی ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہت عرصہ تک عدلیہ نے اس کو resist  کیا مگر پتے لگانے والے بھی ایسے کاریگر ہوتے ہیں کہ بالآخر وہ عدلیہ سے ملک کے منتخب وزیر اعظم کو نااہل کروانے میں کامیاب ہو گئے۔

یہ کام تو انہوں نے کروا لیا مگر وہ اندرونی اور بیرونی حالات کا درست تجزیہ کرنے میں ناکام رہے۔انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ اس موقع پر ایک منتخب حکومت کو destablise کرنے کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

میں نواز شریف کو اپنا سیاسی لیڈر نہیں مانتا مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ آ ج پاکستان کی سیاسی بساط میں وہ واحد سیاسی لیڈر ہے جوسویلین بالا دستی کے لئے کوشش کر رہا تھا مگر بد قسمتی سے بندہ خاکی کو مفتی کی یہ بات پسند نہیں تھی۔ اس کوتاہ نظر نے اسے عدلیہ سے نااہل قرار دلوا کر یہ تصور کر لیا کہ اب ان کا مکمل کنٹرول ہو جائے گا مگر نواز شریف کی دانشمندانہ چالوں سے ایسا نہ ہو سکا اور آج بھی نواز شریف ملک کا سب سے مقبول لیڈر ہے۔

اب 1971 کے حالات کی مماثلت کی طرف آتے ہیں۔ خاکیوں کے ایک گروہ نے عمران خان کو باور کروا دیا ہے کہ وہی دلہا ہے اور سہرا اسی کے سر پر باندھا جائے گا۔ مگر دوسری طرف آج کے پاکستان کا سب سے شاطر سیاست دان آصف زرداری ہے جس کو خاکی کے ایک دوسرے گروہ نے یقین دلا دیا ہے کہ اگلا وزیر اعظم پیپلز پارٹی سے ہو گا۔ شہباز شریف کے کان میں بھی کوئی کھسر پھسر کر رہا ہے کہ اس تاریخی موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے۔

گو بار بار اس بات کی تردید ہو رہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ ملک میں ماشل لا نہیں لگے گا مگر آج حالات 1971سے بھی بدتر ہیں اس وقت سوائے بھارت کے سب پڑوسیوں سے ہمارے تعلقات بہت اچھے تھے مگر آج ایسا نہیں ہے۔

اگر ہیئت مقتدرہ واقعی جمہوریت پر یقین رکھتی ہے اور اسے گزند نہیں پہنچانا چاہتی تو سب سے پہلے اسے جنرل مشرف کے بلوچیوں کے خلاف جرائم پر معافی مانگ کر ناراض بلوچی بھائیوں کو ملکی قومی سیاسی دھارے میں لانا ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ بلوچی 1999تک یعنی جنرل مشرف کے مارشل لا تک قومی دھارے میں شریک تھے مگر ایک جنرل کی انا نے سب کچھ برباد کردیا۔

ہمیں ایک قوم بننے کے لئے ساری وفاقی اکائیوں کی امنگوں کا احترام کرنا ہوگا۔ یہی 16دسمبر 1971کا بنیادی سبق ہے۔ اور تاریخ کا اگلا سبق یہ ہے کہ کوئی تاریخ سے نہیں سیکھتا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).