بندوقوں کی چھاؤں میں کرسمس کے رنگ


آئیے سرد موسم میں سرد جذبوں اور سرد رویوں کے ساتھ اپنے مسیحی ساتھیوں کو ’’ ہیپی کرسمس ‘‘ کہتے ہیں۔ وہ لوگ جنھیں کشادہ دلی سے اپنانے میں ہمیں ابھی بہت وقت درکار ہے۔ کرسمس کا تہوار جس کے منتظر چہرے، سال گزرنے کابے چینی سے انتظار کیا کرتے ہیں اور جب وہ دن آن پہنچتا ہے تو خوف کی کئی پرچھائیاں ان کے خوشیوں بھرے چہروں پر ثبت ہوئی جاتی ہیں۔ ایک ہی دھرتی پہ رہنے والے لوگ ایک دوسرے کو اجنبی اور عجیب نظروں سے دیکھنے لگتے ہیں۔ میں سوچتی ہوں کیا ہمارے دل کبھی اتنے کشادہ ہوں گے کہ ان میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہمارے ہی جیسے انسان سما سکیں؟

مجھے ’’الیون وازوف‘‘ کی کہانی ’’انتظار‘‘ میں سردی سے کانپتی وہ بوڑھی عورت ’’زینیا‘‘ اور اُسکے دو چھوٹے بچے یاد آتے ہیں، جو کرسمس کی شام اپنے بڑے بھائی ’’سٹوویان‘‘ کی آمد کے منتظر ہیں، جسے سربیاکے خلاف لڑنے کے لیے زبرستی بلغارین فوج میں بھرتی کر لیا گیا ہے۔ ممتا کی محبت سے مجبور ماں اپنے دو چھوٹے بچوں کی انگلیاں تھامے، سینے پر بڑا سا پتھر رکھے، اپنے لختِ جگر کو بے بسی سے فوجی دستے کے سنگ، جنگ پرجاتادیکھتی ہے، جس نے ابھی جوانی کی سرحدوں میں قدم رکھا ہے۔ وہ جانتی ہے اپنے ہی جیسے انسانوں سے مذہب اور قوم کے نام پر لڑی جانے والی جنگیں محض اپنے پیاروں کو کھو دینے کے سوا کچھ نہیں۔ جس وقت وراگومان کے پاس توپیں دھاڑتی ہیں تب یہ دکھی ماں اپنے خداوند یسوع مسیح کے سامنے سر جھکائے رو رو کر اپنے جگر گوشے کی زندگی کی دعا مانگتی ہے اور اُسی رات ایک خواب دیکھتی ہے:

’’ایک بہت بڑا بادل تھا، جس میں فوج کے دستے شامل ہو رہے تھے اور اس میں سٹوویان بھی تھا۔ پاک مریم بھی نظر آرہی تھیں۔ یہ ایک خوفناک نظارہ تھا۔ بادل گرجنے لگا، آسمان ٹوٹنے لگا، زمین ہلنے لگی۔ گھمسان کی جنگ ہو رہی تھی۔ سٹوویان بادلوں میں کہیں گم ہو گیا تھا۔‘‘

ماں کے کرب کو بڑھانے والا یہ خواب اسے ہمہ وقت بے چین کیے جاتا ہے۔ بوڑھی آنکھیں ہمہ وقت منتظر رہتی ہیں۔ اُس وقت بھی جب جنگ کے اختتام پر وہ سربیا سے آئے قیدیوں کو دیکھتی ہے اورتب بھی جب جنگ سے لوٹنے والے ہر شخص، شہر میں فاتح بن کر داخل ہوتا ہے، وہ بس ایک ہی چہرہ ڈھونڈتی ہے۔ کرسمس کے دن، دونوں ننھے وجود ماں کی بیقراری کو جانتے ہوئے، پہاڑوں کی یخ بستہ ہواؤں، برف سے سفید ہوتے میدان اور وادیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے، اپنے معصوم دلوں میں یہ خواہش سنبھالے کہ وہ اپنے بڑے بھائی کو سب سے پہلے شہرمیں خوش آمدید کہیں گے، شہر کے آخری کنارے جا پہنچے ہیں۔ جہاں سرد انتظار کے طویل لمحے ان کی ننھی جانوں پہ گراں گزرتے رہے :

’’بچے وہاں یوں کھڑے رہے جیسے جڑیں زمین میں پھیل جاتی ہیں، گھنٹے گزر گئے۔ پہاڑوں سے آنے والی ہوا اور ٹھنڈی ہوتی گئی اور اُن کے چہروں پر طمانچے مارتی رہی، اُن کے لباس کو پھڑ پھڑاتی رہی۔ تیز ہوا میں اُڑتی برف اُن کے پاؤں میں جمع ہوتی رہی مگر انھوں نے حرکت نہ کی۔ اُن کی آنکھیں پہاڑی کے موڑ پر گڑی ہوئی تھیں اور وہ پلک بھی نہیں جھپک رہے تھے۔ ‘‘

ننھے دل شہر میں داخل ہونے والے ہر شخص کو دیکھ کر دھڑکتے اور اُس سے اپنے بھائی سٹویان کا پوچھتے، ہر انکار اُن کے دلوں پہ گراں گزرتا، وہ اپنی ماں کو کرسمس پر اُسکے لختِ جگر کی آمد کی مقدس خوشخبری دینا چاہتے تھے۔ شام کے اختتام پر جب آخری گھڑ سوار شہر میں داخل ہوئے تو انھوں نے روتے ہوئے پوچھا:
’’کیپٹن! کیا ہمارا بھائی آ رہا ہے؟ ‘‘
افسر مڑا اور حیرانی سے بولا، ’’تمہارا بھائی کون ہے؟ ‘‘

’’بھائی۔ سٹوویان، ہمارا بھائی سٹوویان‘‘۔ انھوں نے بے صبری سے چیختے ہوئے کہا۔ اُن کے ننھے ذہن کو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ اتنے خوبصورت لباس والا کیپٹن اُن کے بھائی کو نہیں جانتا۔
اور جب آخری انکار پر سخت سردی سے بغلوں میں ہاتھ دبائے، روتے ہوئے اُنکے قدم واپسی کے لیے اُتھے تب بھی اُن کے ذہن میں کرسمس اور ماں کا منتظر غمگین چہرہ ہی تھا۔

’’گیدڑ ہولناک آواز میں چیخ رہے تھے۔ یہ آوازیں دور مغرب کی جانب، میدانِ جنگ سے آرہی تھیں۔ جہاں پیرو کے قریب، انگور کے خوشوں کے نیچے سٹوویان کی قبر کو تیزی سے گرتی ہوئی برف ڈھانپتی جا رہی تھی۔ ‘‘

کہانی کا اختتام ویسا ہی دکھی کر دینے والاہے جیسا ہر جنگ کا انجام ہوا کرتا ہے۔ البتہ ایک کسک جو قاری کے دل میں اٹھتی ہے وہ اُس مذہبی تہوار کے حوالے سے بھی ہے جو ہر مذہب میں خوشیوں کی نوید لے کر آتا ہے جس دن ہر شخص خوشی سے اپنے پیاروں کے سنگ، اپنے مذہبی اعتقادات اور فرائض کی تکمیل میں کوشاں نظر ٓتا ہے۔ ذرا چشمِ تصور میں اپنے مذہبی تہوار تو لائیے، خوشیوں کے رنگ کیسے بکھرتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ جو قوم اپنے مذہبی تہوارات بھی بندوقوں کے سائے میں عافیت کی دعائیں مانگ کر گزارتی ہو وہ بھلا دوسرے مذاہب کی خوشیوں میں کیسے شامل ہو سکتی ہے۔

مقدس مذہبی عبادت گاہوں کے فرش اور دیواروں پہ نقش خون کی آرائش و زیبائش ہمارے مذہبی جنون کا پردہ چاک کیے دیتی ہے۔ بین کرتی ماؤں کی فریادیں ہمارے دل نہیں دہلاتیں۔ محض اپنے اپنے ذاتی مفاد و مسائل کے عَلم اُٹھائے، انسانی حقوق کے کھوکھلے نعرے لگاتے، ہم اپنے گردو پیش کے لوگوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے یکسر بے نیاز کسی لا یعنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں اور یہ بھول چکے ہیں کہ چمکتی دمکتی خوشیوں کے کئی رنگ ہوا کرتے ہیں، جو جہاں پھیل جائیں وہاں روشنیاں بکھیر دیتے ہیں، اور جہاں روٹھ جائیں وہاں تاریکیاں اپنا ڈیرہ ڈال لیتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).