میں جناح سے شعوری محبت کرتا ہوں


گئے دنوں کی بات ہے جب اسلام آباد کے ڈرائنگ رومز میں بہت آنا جانا تھا۔ محافل میں بیٹھ کر سارے پاکستان کی سیاست کی ایسی تیسی پھیرے جاتے ہوئے دیکھنا بھی اک بہت دلچسپ تجربہ ہوا کرتا تھا۔ ان داستانوں کی کہانی پھر کبھی سہی، مگر تقریبا ہر محفل میں چار موضوعات لازم تھے کہ جن پر بات کی جاتی تھی: بحیثیت اک مملکت پاکستان کی تخلیق، اسلام کی تشریحِ نو، پاکستان میں فوج کا کردار اور بابا جناح۔ ان موضوعات پر گفتگو کے دورانیے بدلتے رہتے تھے، مگر یہ عموما ممکن نہ ہوتا تھا کہ ان چار موضوعات کو بھرپور طریقے سے “پُن” نہ لیا جائے۔

پہلے پہل میں بھی ان موضوعات میں نعرہ حیدری مار کر کود پڑتا تھا، مگر کچھ اپنی ملازمت کی تربیت اور پھر مطالعہ کی عادت کے علاوہ زندگی کی مسلسل پٹائی نے مجموعی طور پر اک Low Profile رویہ اپنانے کی ترغیب 2005 کے آس پاس دینا شروع کر دی تھی تو اس سال کے بعد، اگلے تقریبا پانچ سال سننے اور مشاہدہ کرنے کی عادت پر ہی قیام کیا، اور گزرنے والے بالخصوص یہ پانچ سال بہت سی یادوں، کہانیوں اور مشاہدات سے بھرے ہوئے ہیں۔ میری سیاسی ملازمت گئی، تو اسلام آباد کی دوستیاں بھی گئیں، اور ان دوستیوں کے ساتھ ان ڈرائنگ رومز میں بلائے جانے کی شرح بھی صفر پر آ گئی۔ رُک کر مڑتا ہوں، پیچھے دیکھتا ہوں تو شکر ادا کرتا ہوں کہ ایسا ہوا۔ نہ ہوا ہوتا تو سرابی تعلقات کو ہی دوستیاں بنائے ان کے پیچھے بھاگتا رہتا۔ زندگی کے دھکے، گھونسوں میں تبدیل ہوئے تو جانا کہ زندگی کے معاملات اک خواب نمائی میں نہیں چلتے۔

میرے قصباتی گاؤں، ملکوال میں بھی ان چار میں سے تین موضوعات کافی گرم موضوعات ہوتے تھے۔ اسلام کی تشریح پر اک سناٹا طاری ہو جایا کرتا تھا۔ میں شاید سات یا آٹھ برس کا تھا جب پہلی مرتبہ یہ سنا کہ جناح انگریزوں کا ایجنٹ تھا۔ پہلی مرتبہ سننے کے بعد یہ فقرہ اوائل جوانی تک سنتا رہا، اور چونکہ الفاظ کے دہراؤ کا جادو ہوتا ہے کہ جتنی مرتبہ بولے جائیں تو بھلے جھوٹ ہی ہو، اپنا اثر دماغ میں تراشے چلے جاتے ہیں۔ تو تقریبا 30 برس کی عمر تک، جناح میرے لیے انگریزوں کا ایجنٹ ہی تھا کہ جس نے اک عظیم جغرافیائی اور تہذیبی اکائی کو توڑ کر مسلمانوں کی عددی حیثیت کو بدلا تاکہ وہ ایک کے بجائے تین علاقوں میں منقسم ہو جائیں اور پھر بکھرے اور بٹے رہیں۔

جناح کے انگریزوں کے ایجنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ اک ثانوی موضوع پاکستان کے اک غیرفطری ملک ہونے کا بھی ہوتا تھا اور یہ کہ پاکستانی فوج کیسے کولونیئل روایت کی وارث ہے جس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ تو بہت بعد میں معلوم پڑا کہ جن معاشروں میں شہریوں کا ریاست سے سیاسی تعلق کمزور پڑ جائے، یا ختم ہو جائے تو شہری ایسی باتیں گویا اک انتقام کی صورت میں کرتے ہیں، اور ان باتوں کی عام طور پر کوئی جڑیں نہیں ہوتیں۔ مگر کیا کیجیے کہ مطالعہ اور گفتگو کی عادت سے محروم معاشروں میں تحقیق کے بغیر ہی کہی اور سنی جانے والی باتیں ہی “سچ” کا درجہ پا لیتی ہیں۔ چاہے وہ میرا جناح کو انگریزوں کا ایجنٹ مان لینا ہو، یا اک عظیم انقلابی رہنما کا اک ڈاکٹر صحافی کی اپنے کان میں پھونکی ہوئی بات پر “پنتیس پنکچروں” کا کوئی سفارتی تعلق تلاش کر لینا۔

میرا ذہن اگر ساتھ دے رہا ہے تو یہ سنہ 2005 ہی تھا کہ جب جناح کے بارے میں اک اسلام آبادی محفل میں بہت گرما گرم بحث ہوئی، اتنی کہ گفتگو کرنے والوں نے بےنقط اور مسلسل سنائیں۔ اتنی سنائیں کہ سوچ ابھری کہ کیوں نہ ان کے بارے میں پڑھا، جانا اور مزید معلوم کیا جائے تو تقسیم ہند پر موجود کتب کی جانب رجوع کرنے کا اک سلسلہ شروع کیا جو مسلسل تو نہ تھا، مگر چلتا رہا۔ آغاز Freedom at Midnight سے کیا۔ اس کے بعد جناب پروفیسر سٹینلے وولپرٹ کی تحریر کردہ کتاب Jinnah of Pakistan کے علاوہ، انہی کی تحریر کردہ کتب جو انہوں نے نہرو صاحب اور گاندھی صاحب پر تحریر کی تھیں، سے استفادہ حاصل کیا۔ اسی سلسلہ میں بھارت کے سابق وزیر خارجہ نے اپنی سوانح حیات Call to Honor – In Services of Emergent India تحریر کی اور اس کے کچھ عرصہ بات، جناح پر اک بھرپور، ضخیم، مگر مشکل سے پڑھی جانے والی کتاب تحریر کر دی جس کے نتیجے میں انہیں ان کی جماعت، بی جے پی نے جماعت سے نکال باہر کیا۔

کھوج کے اس رستے میں ڈاکٹر عائشہ جلال کی The Sole Spokesman پڑھی اور آس پاس سے اڑتے ہوئے کئی مضامین اور کتابی حوالوں سے بھی واسطہ پڑتا رہا۔ اس سلسلے میں آخری کتاب پچھلے سال جناب دلیپ ہِیرُو کی The Longest August پڑھی اور اپنے تقریبا بارہ سال کے اس کتابی سفر کے بعد میں پورے یقین سے یہ کہتا ہوں کہ مجھے جناح سے شعوری محبت ہے، اور وہ میرے لیے انگریزوں کے ایجنٹ نہیں، اپنے زمان و مکاں کے بہترین سیاستدان تھے جنہوں نے اپنی سیاست کو گلیوں اور بازاروں میں منظم کرنے کی بجائے انگریز کے ہی بنائے ہوئے قانون پر استوار کیا، اور اپنی زندگی میں آنے والے کئی سیاسی ادوار میں اس وقت کے حوالے سے سیاسی چالیں چلیں۔ میں ان کو شیروانی میں ملبوس اک “مسلمان فرشتہ” کے طور پر نہیں دیکھتا جیسا کہ مجھے میرے مطالعہء پاکستان یا ریاستِ پاکستان نے بتایا۔ میں انہیں اب اک زیرک، شدید محنت کرنے والے ایک قانون دان، سیاست کی شطرنج پر شاطرانہ چالیں چلنے والے سیاستدان اور ایک انسان کے طور پر دیکھتا ہوں جس کی شخصیت میں بہت سے مختلف رنگ تھے۔

اس موضوع پر مزید بھی تحریر کرون گا، مگر پڑھنے والوں کو سوچ کا اک زاویہ دئیے جاتا ہوں جس سے انہیں بابا جناح کو جاننے کے آغاز میں کچھ مدد ہو گی۔ تو تصور کیجیے کہ اک بچے کی سولہ برس میں اس کی مرضی جانے بغیر شادی کر دی جائے اور پھر اسے ملک سے باہر پڑھنے بھیج دیا جائے۔ اس کی غیر موجودگی میں اسکی والدہ اور بیوی، دونوں فوت ہو جائیں، اور بیرون ملک اس کی ظاہریت اور بول چال کی وجہ سے اسے شیکسپیرئین ڈراموں میں کردار نہ ملے، اس کے ساتھ برطانوی پولیس ہندوستانی ہونے کی وجہ سے امتیازی سلوک کرے اور وہ پھر قانون کی تعلیم کی جانب زیادہ زور لگائے۔ وہ واپس آئے تو والد کا کاروبار تقریبا ختم ہو چکا ہو، اور اسے چند سکے جیب میں ڈال کر کراچی سے بمبئی جانا پڑے جہاں وہ اپنی رہائش سے چند میل روزانہ پیدل چل کر عدالت جاتا ہو۔ اسے اتنی شدید محنت کرنا پڑے کہ وہ زندگی کی رعنائیوں سے ہی دور جا ہٹے۔ اسے ایک شدت کی حادثاتی محبت ہو، وہ بھی اس سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو جائے۔ وہ سیاست میں مذہب کی شمولیت کا قائل نہ ہو اور گاندھی کو ایسا کرنے سے مسلسل روکے اور خود پر تنقید بھی سہے۔ اس کی زندگی صرف قانون، سیاست اور ان سے جڑے کاموں پر ہی مشتمل ہو اور وہ خود کو اک بڑے مقصد کے لیے وقف کر ڈالے۔

آپ میں سے وہ لوگ جو شدت کی محنت کرنے والے ہیں، اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ تنہائی اور اکلاپا کیسے کیسے وار کرتے ہیں، تو انہی حملوں کی شدت کا اندازہ جناح کی شخصیت پر تو لگائیے کہ جنہوں نے سولہ برس کی عمر سے ہی ان دائروں سے لڑنا شروع کر دیا تھا۔

جناح اک خوبصورت، دلچسپ اور اپنے زمان و مکاں کے بہترین انسان تھے اور میں ان سے اک شعوری، گہری اور میٹھی محبت کرتا ہوں۔ مجھے بحثیت انسان اپنی کمیوں اور کجیوں کا اچھی طرح معلوم ہے تو میں انہیں فرشتہ یا مومن نہیں دیکھتا۔ میں انہیں انسان دیکھتا ہوں۔ جوں جوں دیکھتا ہوں، توں توں ان سے مزید محبت کیے چلا جاتا ہوں۔

سالگرہ مبارک ہو، بابا جناح!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).