ننگا ڈیوڈ، درازوں والی وینس اور شرم کا کلچر


”ہم سب“ کے صفحات پر کچھ دوستوں کی رائے میں ناشائستہ تصاویرلگانے پر اعتراض سے جو دلچسپ بحث شروع ہوئی تھی وہ چلتے چلتے ادب اور فنونِ لطیفہ میں عریانی و فحاشی تک جا پہنچی اور کئی رسمی و غیررسمی دائرے گڈمڈ ہو گئے۔ بحث ختم ہو چکی ہے اور کہنے کو کچھ ایسا نہیں بچا جو معلومات میں اضافہ کر سکے۔ سماجی مکالمے کی روایت میں یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ تمام فریقین نے نہ صرف خوش اسلوبی سے اپنی بات کہی بلکہ مناسب انداز میں اختلاف بلکہ شدید اختلاف بھی کیا۔ شاید یہ دعویٰ ہرگز مبالغہ آرائی پر مبنی نہیں ہو گا کہ اس قسم کے مباحث ہماری ثقافت میں رائے عامہ کی فطری تشکیل کی جانب ایک مثبت ارتقاء کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ہمیں اس ارتقاء کی سست رفتاری سے ہرگز پریشان نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ سست رفتاری کسی بھی ارتقاء کی ماہیت کا ایک لازمی خاصہ ہے۔ ہمارے لیے بس یہی اہم ہے کہ یہ ارتقاء جاری ہے اور غالباً اس کی سمت ایک مثبت سمت ہی ہے۔

ایسے میں ایک طرف سے یہ رائے پڑھنے کو ملی کہ جنوبی ایشیاء کا کلچر شرم کے تصور کے ارد گرد گھومتا ہے جو کہ ایک نہایت تکلیف دہ احساس ہے۔ یہاں لوگ اس طرح ایک دوسرے کی قید میں ہیں کہ ہاتھوں پاؤں میں شرم اور احساسِ گناہ کی بیڑیاں ڈال دی گئی ہیں۔ چونکہ یہ ایک بند معاشرہ ہے لہٰذا شراب پینے اور فحش نگاری سے محظوظ ہونے والے افراد بھی یہ کام کھلم کھلا نہیں کرتے بلکہ ایک خاموش منافق کے طور پر زندگی گزارتے ہیں۔ یہ منافقت ایک ناسور ہے جو اندر ہی اندر سے اس معاشرے کو کھا رہا ہے اور اسے صحیح معنوں میں ایک آزاد معاشرے کے طور پر پھلنے پھولنے نہیں دے رہا۔ یوں تویہ ایک عمومی طور پر دہرائے جانے والا مشاہدہ ہے لیکن بالخصوص عریانی و فحاشی کے سیاق و سباق میں یقیناً کسی حد تک منفرد ہونے کے باعث تفصیلی تجزیے کا متقاضی ہے۔

متاثرین ِ متن بخوبی واقف ہیں کہ راقم کی رائے میں کسی بھی مسئلے پر اتفاق یا اختلاف کی چنداں اہمیت نہیں۔ اتفاق یا اختلاف کی بجائے شنیدوفہم ایک زیادہ بامعنی قدر ہے اور تہہ در تہہ مسلسل تجزیے کو ممکن بناتی ہے۔ تجزیہ کبھی تو فطری طور پر اتفاق کی سمت بڑھتا ہے اور کبھی ایک ایسے اختلاف کو ممکن بناتا ہے جو متقابل نکتۂ نظر کی نفی کی بجائے اپنے نکتۂ نظر پر مسلسل نظرثانی کی دعوت دیتا ہے۔ یہاں بھی کم و بیش یہی صورتِ حال ہے۔ میرا پہلا تاثر تو یہی تھا جیسے محترم مصنفہ شرم کے کلچر کو لازمی طور پر ایک منفی قدر ہی مان رہی ہیں کیوں کہ اس کے ساتھ منافقت، زخم یا بیماری اور تنگ نظری جیسے اشاروں کو منسلک کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن بغور دیکھنے پر ڈاکٹر لبنی مرزا صاحبہ کے مضمون نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا۔ ذہن میں کئی حوالے بھی آئے جو مزید تحقیق کے متقاضی ہیں اور فی الحال وقت میسر نہیں کہ ذہن میں موجود ان اشاروں پر کوئی تفصیلی بحث چھیڑی جائے۔ لہٰذا ان گزارشات کو بس ایک غیررسمی تبصرہ ہی مان کر پڑھا جائے۔

میں سوچتا رہا کہ کیا جنوبی ایشیا کا وسیع و عریض ثقافتی تنوع کسی ایسی نظری اکائی کو ممکن بناتا ہے جسے ہم جنو بی ایشیائی کلچر کا نام دے سکیں؟ اورکیا اس ثقافت سے حادثاتی طور پر منسلک ایک فرد کے طور پر میں لازماً کسی منافقت کا مرتکب ہو رہا ہوں؟ کیا اس بند معاشرے کو صحیح معنوں میں کھول دینے کے لئے مجھے اخلاقی طور پر ان تحریکوں کا حصہ بننا چاہیے جو فرد کو احساسِ گناہ سے آزاد کرانے کے لئے سرگرم ہوں؟ میں سوچتا رہا کہ فاضل مصنفہ کی نفسیات کیوں کر شراب اور فحش نگاری کو ایک ہی جملے میں اس طرح استعمال کرنے کی ترغیب دیتی ہے جیسے وہ خود بھی ان دونوں لطف اندوزیوں کے بارے میں کچھ مابعدالطبیعاتی اخلاقی مفروضوں کی قیدی ہوں؟ پھر کیایہ مفروضے عمومی طور پر اخلاقی ہیں یا پھر خاص مذہبی؟ فاضل مصنفہ کی نفسیات ان دونوں لطف اندوزیوں کا ایک ساتھ ذکر کیا اس لیے کرتی ہے کہ ان میں قدرِ مشترک خود مصنفہ کا ان سے اباہ ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس کی نفسیاتی وجوہ کیا ہیں؟

تحریر اختتام کو پہنچی تو ذہن گھومتے گھومتے ڈیوڈ کے مجسمے کی جانب چلا گیا۔ یہ ایک بہت دلچسپ موضوع تھا۔ میری رائے میں یہ ایک نہایت اہم سوال ہے کہ مائیکل اینجلو کا ڈیوڈ کیوں الف ننگا ہے؟ کہا گیا ہے کہ وہ بائبل کی ان تعبیرات سے ماخوذ ہے جن میں وہ طالوت کے دیے گئے جنگی پہناوے کا بوجھ نہیں سہار سکا اور جالوت سے لڑائی سے قبل اسے اتار پھینکا۔ اسے غور سے دیکھیے تو اس میں واحد خوبصورتی اس کے جسمانی خطوط ہیں۔ مجسمے میں ظاہری معانی محدود ہیں کیوں کہ جسم کی برہنگی کے علاوہ یا تو اس کی سحر انگیز وجاہت ہے یا پھر کاندھے پر رکھا گوپیا۔ میں خوش ہوں کہ محترم مصنفہ اسے تہہ بند پہنانے کے خلاف ہیں۔ اس سے معانی مزید محدود ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ مثلاًہم یہ غور نہیں کر سکتے کہ اس کے مکمل ختنے کیوں نہیں ہوئے جیسا کہ مختلف تعبیرات میں یہ سوال اٹھائے گئے ہیں۔

دوسری طرف ڈوناٹیلو کا ڈیوڈ ہیٹ اور بوٹ پہنے، ایک عجیب سے موڈ میں ہے۔ کیا اس کی نظریں شہوت انگیز ہیں؟ یہ تو صاف ظاہر ہے کہ اس کی جسمانی ساخت مائیکل اینجلو کے ڈیوڈ کے برعکس کچھ اور ہی دعوتِ تعبیر دیتی نظر آتی ہے۔ کیا وہ کسی خاص فلورنٹینی رویے کی عکاسی کرتا ہے گو اس زمانے فلورنٹینی کلچر بھی ”شرم کا کلچر“ تھا۔ کچھ اندازے آسان ہیں کچھ مشکل۔ تعبیرات متعدد ہیں۔

میں سوچتا رہا کہ ہماری نظروں اور ذہن کا آپس میں کیسا اور کس قدر تعلق ہوتا ہے؟ میں عریانی تنہائی ہی میں دیکھنے کا قائل ہوں تاوقتیکہ خود سےبھی شرم نہ آجائے۔ اسی لیے برنینی کا ڈیوڈ مجھ جیسے شرمیلے شخص کو پسند ہے۔ مادر زاد برہنہ نہ ہونے کے باعث نظر اس کے جسمانی خطوط سے اوپر اٹھنے کے لئے آزاد رہتی ہے۔ تہہ بند کا ایک سرا اس کی نچلی عریانی پر بس لطیف سا پردہ کر رہا ہے۔ منظر عین لڑائی کا ہےسو ایسے میں عریانی کی کیا فکر! اس کے ہونٹ بھنچے ہوئے ہیں، گوپیا تنا ہوا ہے، بس اگلی ہی ساعت ہدف پر حملے کی ہے۔ چہرے کے تاثرات اور جسمانی خطوط سے مردانہ وجاہت پر کسی قسم کا سمجھوتا ظاہر نہیں ہوتا۔ پیروں میں عقب کی جانب چوغہ پڑا ہے جو اس نے ذرا دیر پہلے ہی اتارا ہے۔ سامنے بربط بھی موجود ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ تقدیری واقعہ بس ایک استثناء ہے اور اس کا اصل کام سُر بکھیرنا ہے۔

میں سوچتا رہا کہ میرے معقول پسندیدگیوں، معنی کی وسعت پر مبنی ان ترجیحات اور یقیناً ”شرم“ سے جڑے یہ موضوعی احساسات جو سراسر انفرادی ہیں کیا کسی لاعلاج ثقافتی مرض کی علامت ہیں؟ اگر میں اپنے لیے ڈیوڈ کا مجسمہ خریدوں تو مائیکل اینجلو یا ڈوناٹیلو کے برعکس برننیی کو دی جانے والی ترجیح کوئی نفسیاتی مرض مانی جائے گی؟ کیا شکاگو انسٹی ٹیوٹ آف آرٹ میں سالوادور دالی کی تخلیق کردہ وینس ڈی مائیلو کے اندر سے برآمد ہوتے دراز دراصل میرے ذہن میں موجود وہ خفیہ خانے ہیں جو کسی فرائیڈین تشخیص کے ذریعے ہی کھولے جا سکتے ہیں؟ پچھلے سال دالی کی درازوں والی وینس کے سامنے کھڑے میرے پاس اتنی رقم تو نہ تھی کہ شکاگو سے اس کا مجسمہ لے آتا لیکن میں رہ نہ سکا اور پانچ ڈالر میں ایک کتابی فیتہ ہی خرید لیا۔ کل رات میں نے ایک بار پھر اس فیتے کو غور سے دیکھا تو دالی کے برعکس کوئی فوقِ حقیقت احساس تو نہ ہوا، ہاں خود سے سوال ضرورکیا کہ اگر میں جبلی طور پر اپنے ذہن میں موجود وینس کی عریاں شبیہہ کا تن ڈھاپنا چاہوں یا میری نظریں اس کی عریانی کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے پر خود سے شرمسار ہوں تو کیا یہ ایک مریضانہ خواہش ہو گی؟

میں اس بحث کے تناظر میں اپنے ذہن میں بکھرے ہوئے یہ تمام خیالات تاحال یکجا کرنے کے قابل نہیں۔ لیکن اتنا یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میں کسی بھی پیچیدہ ثقافتی تنوع کو کسی ایک دو یا چند عوامل تک محدود کر کے اس پر حکم لگانے والی تعبیر کو شک کی نگاہ سے دیکھنے پر مجبور ہوں۔ شرم کے کلچر کو ایشیائی یا مشرقی معاشروں تک مخصوص کرنے سے دوئی پسند قدامت پسند ذہنوں کو یہ تحریک دینا لازم آتا ہے کہ وہ مغربی معاشروں کو بے شرمی کا کلچر سمجھیں اور اس کے خلاف سماجی تحریکیں برپا کریں۔ کیا اس دوئی آمیز خاکے کی بجائے شرم یا بے شرمی، عریانی یا تن پوشی، اور فحش نگاری یا ادب میں ناگزیر حقیقت پسندی کو نقش و علامت یا تصویر و متن میں معنی کی ترسیل کے عمل اور مقصد سے مشروط کر دینا اور پھر اس اصولی شرط کے ساتھ انسانوں کی متنوع وجدانی و عقلی ترجیحات کو آزاد چھوڑ دنیا زیادہ معقول امر نہیں؟ یقین سے دعوٰی نہیں کر سکتا لیکن شاید شرم کی محدود و مبہم تعریفات کو قائم کرنے اور پھر ان کو ایک منفی ثقافتی قدر کے طور پر فرض کرنے سے ہم کچھ لاینحل اشکالات کو دعوت دےرہے ہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ متعدد کتا بیں ایک ساتھ زیرِ مطالعہ ہونے کے باعث کئی ایسی کتابیں ہوتی ہیں جو میں ایک طویل مدت تک ختم نہیں کر پاتا۔ عام طور پر ایسی کتابوں کے موضوعات فلسفے اور سماجیات سے تعلق رکھتے ہیں۔ مطالعہ دراصل مصنف یا متن کے ساتھ مکالمے ہی کا دوسرا نام ہے۔ ذہن کی تمام کھڑکیاں کھلی رکھنے کا مطلب یہ ہوتا ہے متن کی جانب اس طرح بڑھا جائے کہ حتی الوسع مصنف کے دلائل پر اعتبار کیا جائے اور ان دلائل کی تہوں میں موجود مفروضوں کا فہم یقینی بنایا جائے۔ لیکن کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ مصنف کے مفروضے ایک نیم عقلی یا نیم وجدانی کیفیت کے زیرِ اثر غلط یا نامکمل معلوم ہوتے ہیں۔ ہم اس کیفیت کو قاری کی چھٹی حس بھی کہہ سکتے ہیں۔ اگر با الفرض ایسا ہو تو میں مصنف پر پورا پورا اعتبار کرتے ہوئے خود کو غلط مانتا ہوں اور اپنے علم میں اضافے کی کوشش کرتا ہوں۔

علم میں یہ اضافہ اسی موضوع پر کچھ دوسری کتابوں، مضامین یا متعلقہ فلموں پر بھی مشتمل ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں زیرِ نظر کتب تکمیل کی منتظر پڑی رہتی ہے اور کبھی کبھار کئی کئی ماہ یا دو چار سال بھی گزر جاتے ہیں۔ ذاتی نوعیت کی یہ تمہید اس لیے باندھنی پڑی کہ جاپانی ثقافت پرامریکی ماہرِ بشریات روتھ بینیڈکٹ کی 1948ء میں منظرِ عام پر آنے والی کتاب ”گلِ داؤدی اور تلوار“ (The Chrysanthemum and the Sword)بھی ایک ایسی ہی کتاب ہے جو ایک عرصے سے زیرِ مطالعہ ہے۔ میں اب تک اپنے ذہن میں اس پر کوئی فیصلہ کن تبصرہ نہیں کر پایا۔ کہنے کا مطلب صرف یہی ہے کہ یہ ثقافتی مسائل نہایت صبر آزما تحقیق کے متقاضی ہیں۔ بینیڈیکٹ صاحبہ کو 1944ء میں امریکی حکومت نے اس نظریے سے جاپانی ذہن اور ثقافت کی تفہیم کی دعوت دی کہ آیا وہ جنگ میں ہتھیار ڈالیں گے یا یونہی لڑتے رہیں گے؟ عمومی طور پر مقصد یہی تھا کہ جاپانی نفسیات کے مطالعے سے مختلف نتائج اخذ کیے جا سکیں جن سے امریکی سمت کا کامیاب تعین ممکن ہو۔ جاپانی ثقافت کے دوسرے مآخذ کی روشنی میں بینیڈکٹ کی تحقیق اور اس کتاب پر تبصرہ ایک مکمل مضمون کا متقاضی ہے لیکن سرِ دست صرف ایک اشارہ مقصود ہے جو یقیناً مختلف سوالات اٹھانے میں مدد گار ثابت ہو سکے گا۔

روتھ بینیڈکٹ کا کہنا تھا کہ جاپانی اورامریکی نفسیات میں اساسی نوعیت کا اہم ترین فرق ”شرم“ اور ”احساسِ گناہ“ کا کلچر ہے۔ ان کے اس دعوے نے سماجی تھیوری میں ایک طرف تو اس نئی بحث کا آغاز کیا جو کسی بھی ثقافت کو سمجھنے میں اس تناظر کے اطلاق سے تعلق رکھتی ہے، جب کہ دوسری طرف سوالات بھی پیدا ہوئے کہ کیا شرم اور احساس گناہ لازماً کسی بھی نفسیات کے منفی پہلو ہیں؟ جاپانیوں نے اس نتیجے کو مختلف طرح سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ روتھ بینیڈکٹ کو ”روتھ لیس بینیڈکٹ“ بھی کہا گیا اور کچھ جاپانیوں نے ان سے جزوی اتفاق بھی کیا۔ بینیڈکٹ کا کہنا تھا کہ شدید شرم کا احساس غصے کو جنم دیتا ہے اور اپنی آخری حد میں قتل اور بدلے پر بھی ابھارتا ہے۔ لیکن پھر بات اس حد تک سادہ بھی نہیں۔ ”گلِ داؤدی اور تلوار“ کی ایک جہت امریکی نفسیات تک رسائی سے بھی تعلق رکھتی ہے۔ جب کسی ایک ثقافت پر خارج سے کلام کرتے ہوئے اس کی کچھ قدروں کو منفی گردانا جاتا ہے تو ضمنی طور پر کسی دوسری ثقافت کو اس کے مقابل ایک مثبت پیمانے کے طور پر رکھ کر ہی یہ پیمائش کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر بینیڈکٹ کا مشاہدہ یہ ہے کہ جہاں ایک امریکی ماں بچے کو اپنا دودھ پلانے میں تکلیف یا تنگی محسوس کرتی ہے وہاں جاپانی ماں کے لئے یہ ایک نہایت خوشی کا لمحہ ہوتا ہے۔ یہ مسرت نہ صرف نفسیاتی بلکہ ایک جسمانی پہلو بھی رکھتی ہےجس میں ماں بچے کے منہ سے اپنی چھاتیاں چُوسے جانے پر لذت محسوس کرتی ہے۔

جاپانی ثقافت میں خواتین زیادہ دودھ پلائی پر ایک دوسرے سے اس قسم کی چھیڑ چھاڑ بھی کرتی ہیں کہ فلاں کو دودھ پلانے میں بہت مزا آتا ہے۔ یعنی دودھ پلانے سے بہت سی نفسیاتی و ثقافتی جہتیں وابستہ ہیں۔ امریکی بچے کو کھلا پلا کربالکل وقت کے مطابق بستر میں گھسنے میں کا حکم دیا جاتا ہے تو اس کے غصے اور اشتعال کا سبب یہ حدود و قیود ہوتی ہیں۔ دوسری طرف جاپانی بچے کو بارہا ماں اپنے دودھ کا طعنہ دے کر سماجی حدود و قیود کے احترام پر مجبور کرتی ہے۔ قصہ مختصر صرف اس دودھ پلائی سے متعلق عوامل ہی ا یک ثقافت کو یکسر دوسری سے مختلف کر دیتے ہیں۔ امریکی غصے اور اشتعال آمیز بے بسی کی آخری حد بندوق لے کر ایک اندھا قتلِ عام ہو سکتا ہے جب کہ جاپانی غصے کی آخری حد خود کشی ہے۔ غرض میں نے شاید تین سال قبل ”گلِ داؤدی اور تلوار“ کو وہیں چھوڑ کر جاپانی ثقافت سے متعلق مزید جاننے کے لئے کئی ناول اور فلموں کا سہارا لیا۔ میری رائے میں کسی بھی ثقافت سے متعلق کسی بھی قسم کی اقدار مثبت اور منفی دونوں قسم کے پہلو رکھتی ہیں اور ان کو جدلیاتی طور پر دیکھنا ہی زیادہ سود مند ہے۔ جدلیاتی تفہیم بھی یقیناً مغالطوں سے پاک ہونے کا دعوی نہیں کر سکتی لیکن اس قسم کے تناظر میں ایک غیرجدلیاتی منطق تو سراسر مغالطےکے سوا اور کچھ نہیں۔ جاپانیوں اور امریکیوں کے احساسِ گناہ اور شرم میں فرق دیکھنے کے لئے تو ہیروشیما اور ناگاساکی کے قتلِ عام کے واقعے پر ان کے متقابل ردعمل اور اجتماعی یاداشت کے مظاہر ہی کافی ہیں۔

اسی طرح برصغیر کی ثقافت پر بھی شرم کے کلچر کا لیبل چسپاں کر کے اسے کوئی منفی قدر جاننا شاید تفہیم کے راستہ روکنے کے مترادف ہے۔ ہاں یہ یقیناً ثقافتی تفہیم میں ایک بامعنی قدر ہو سکتی ہے۔ کسی بھی ثقافتی نفسیات کی طرح برصغیر کی نفسیات میں بھی یقیناً کئی منفی محرکات ہوں گے لیکن ان کی پیمائش کا عمل کافی گہری نظر کا متقاضی ہے۔ میری رائے میں ہمیں یہ سوال اس طرح اٹھانا چاہیے کہ کیا ہندآریائی نفسیات کےبرعکس مغربی یونانی نفسیات میں شرم اور احساسِ گناہ کی جڑیں زیادہ گہری نہیں؟ ہومر سے لے کر سوفسطائی روایت، افلاطون اور ارسطو تک ان ثقافتی مظاہر کے خاکوں کی بنیادوں میں کونسے اخلاقی عوامل کارفرما ہیں؟ یہ اخلاقی عوامل فلسفۂ اخلاق کے کن مفروضوں پر منحصر ہیں؟ بادیٔ النظر میں تو یوں معلوم ہوتا ہے لاطینی میں pudere سے pudenda membra اور پھر وہاں سے pudendum تک کا سفر سترہویں صدی سے شروع ہونے والا ایک جدید سفر ہے جس میں تہذیب اور شائستگی کے پیمانے زبان و بیان میں کچھ ایسے لسانی محاوروں کو فروغ دے رہے ہیں جس میں کچھ جسمانی حصوں کو ظاہر کرنے پر شرم کا سوال پیدا ہو رہاہے۔ کیا شرم کا یہ سوال مہذب یا غیرمہذب معاشرتی طرزِ عمل کی کچھ شکلوں کو لازماً فرض نہیں کر رہا؟ اردو زبان میں شرم گاہ کا لفظ لسانی دائروں میں کیا کوئی ایسا نفسیاتی اشارہ کر رہا ہے جو مغربی ثقافت میں نہیں؟ میرا جواب تو نفی میں ہے۔

پھراس دعوے کی وہ کیا معقول بنیادیں ہیں جن کی رُو سے معاشرے میں فرد کے جسم کی نمائش پر کوئی سماجی قدغن نہیں لگائی جا سکتی؟ کیا ان معقول مانی جانے والی بنیادوں پر اعتراضات کو لازماً غیرمعقول طرزِ عمل مانتے ہوئے ان کو نفسیاتی مرض کی علامت قرار دیا جائے گا؟ اپنے اشکالات اور مغالطے خود پر واضح کرنے کے لئے ہمیں یہ سوال یوں اٹھانا چاہیے کیا اپنے جسم کی نمائش بنیادی انسانی حق ہے؟ اس سوال پر بحث ایک سراسر قانونی و سیاسی معاملہ ہو گا جس میں معاشرے کے تمام افراد کو اپنی ترجیحات متعین کرنے کا اختیار اس طور دینا چاہیے کہ انہیں ثقافتی اعتبار سے حقیر، کمتر یا تنگ نظر نہ جانا جائے اور ان کی ترجیحات سے اسی طور صرفِ نظر کیا جائے جس طرح ان سے یہ تقاضا کیا جا رہا ہے کہ وہ کسی ننگے جسم کو دیکھ کر فکری و اخلاقی دہشت گردی کے مرتکب نہ ہو۔


اسی بارے میں

فحاشی کی مین سپلیننگ

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi