شراب پر تنقید کیوں؟


بغضِ مُلا میں ہم بعض اوقات منظقئہ معتدلہ کی عقلی سرحد عبور کر کے جذبات کے منطقہ البروج میں جا کھڑے ہوتے ہیں ۔

پچھلے مضمون ”خوش رہنے کی پاکستانی کتاب“میں بذکرِ شراب کچھ دوست منغض ہوئے ‘کہ میں شراب پر تنقید کر کے ایک مثالی معاشرے کے”آزاد فرد“ کی آزادی پر بندش کا مرتکب ہوا ہوں۔۔

ان کو ”شک“ گزرا کہ میں شراب پر تنقید کر رہا ہوں ۔۔۔ ادھر میں ملول ‘ کہ ان کو شک کیوں گزرا ‘۔۔ یقین کیوں نہ ہوا؟

یہ مضمون اسی ”شک“ کو ”یقین “ میں بدلنے کی ایک کاوش ہے!!!

یہاں دی گئی تصویر میں آپ کو ایک Curve نظر آ رہا ہے ‘

بائیں جانب پوزیشن ’ اے‘ ہے جو ہیجان کو ظاہر کر رہاہے

درمیان میں پوزیشن ’بی ‘ ہے جو ”نارمل کیفیت‘ ‘ کوظاہر کرتا ہے

جبکہ پوزیشن ’سی ‘ غم ‘ غصہ‘ خوف کا مظہر ہے۔!

Curve کو عقل کا Curveفرض کر لیں۔۔۔!

پوزیشن بی یعنی نارمل کیفیت میں عقل کا Curve ‘ بلند ترین سطح پر ہے۔۔۔

تعریف کے اعتبار سے شراب کا شمار نشے کی قسم  Depressentsمیں ہوتا ہے ‘ یعنی پوزیشن بی سے سی کی جانب ۔۔۔جبکہ شراب پیے انسان کو آپ نے غل غپاڑہ اور گالم گلوچ کرتے بھی دیکھا ہو گا جس سے یہ Depressent سے زیادہ Stimulant دکھائی دیتا ہے ‘ اس کی کیا وجہ ہے؟؟

تمام نشوں کی تقسیم Depressent, Stimulant, Hallucingens اور Opiates میں کی جاتی ہے ۔۔۔مسئلہ یہ ہے کہ یہ تقسیم کوئی ایسی واضح نہیں ہے ‘ مثال کے طور پر ہیروئن جس کا شمار Opiates میں ہوتا ہے ‘ ہیروئن استعمال کرنے والا Opiates کے ساتھ Hallucingens کی علامات کا شکار بھی ہو سکتا ہے ۔۔۔!

(شراب اصل میں ایک عجیب شاطر نشہ ہے جو اپنی فطرت میں تو Depressent ہے لیکن ساتھ ہی دماغ کے Reward Centerمیں ڈوپامین کی مقدار بڑھا کر زبردست ہیجانی خوشگواریت میں اضافہ کر دیتا ہے )

مرکزی خیال کی طرف جانے سے پہلے ایک نکتے کی وضاحت گزشتہ مضمون میں رہ گئی تھی‘ پچھلے مضمون میں کہا تھا کہ خوف ‘ غصہ ‘ غم اور کراہت جیسے منفی جذبوں نے ارتقا کے دوران ہماری بقا کے لیے زبردست کردار ادا کیا ہے‘ وہاں میں اس بات کا ذکر کرنا بھول گیا تھاکہ ہیجان نے بھی ایک موثر کردار ادا کیا ہے‘ مثال کے طور پر گندم کی کٹائی کے موقع پر ڈھول ‘ نارمل کیفیت (B) سے ہیجان (A) کی جانب لے کر گیا جو دماغ کے حصے Nucleus Accumbens پر اثر انداز ہوا ‘ موٹر فنکشن بڑھ گیا ۔۔اورگندم کم وقت میں کاٹ لی گئی ۔۔۔

یا ایک بہت بڑا پتھر راستے سے ہٹا نا ہے ‘ لوگ گاﺅں کے طاقتور آدمی کے پاس گئے ‘ اس کے ماضی کے کارناموں کی روشنی میں اسکو باور کروایا کہ تم کس قدر طاقتور انسان ہو یہ کا م تم ہی کر سکتے ہو ۔۔طاقتور انسان تعریف سن کر بہت زیادہ خوش ہوا ‘ تکنیکی اعتبار سے نیورو ٹرانسمیٹر Dopamine کی مقدار بڑھ گئی جس نے Nucleus Accumbens پر اثر ڈالا اور نعروں اور ستائشی فقروں کے شور میں ”طاقتور انسان“ نے پتھر ہٹا دیا

میدان جنگ میں ہجو اور ڈرم کا استعمال یا۔۔۔ آج کل کی افواج میں بینڈ اور ملی نغمے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔اور ان گنت مثالیں ۔۔

بنیادی طور پر ایک نکتہ واضح کرنا تھا جو امید ہے ہو گیاہو گا۔۔!! کہ ہیجان کی کیفیت میں انسان کی نارمل صلاحیت سے زیادہ کام کرنے کی صلاحیت!!

ایک مشہور کہا نی ہے کہ ایک چوہے کا پاﺅں پھسلا اور وہ شراب کے ڈرم میں جا گرا‘ چند غوطے کھا کر بڑی مشکل سے ڈرم سے باہر آنے میں کامیاب ہو ا‘

جب باہر آیا تو اس کے منہ سے نکلنے والا پہلا جملہ تھا‘ ”بلی کہاں ہے؟؟“

کہانی کار یہاں کہانی ختم کر دیتا ہے ‘ اس امید کے ساتھ کہ کچھ لوگ یہاں ہنس دیں گے اور کہیں گے ۔۔”واہ واہ کیا شیر چوہا ہے“۔۔۔

کچھ لوگ علت و معلول کی مدد سے کہانی کو زور تخیل سے چوہے کے عبرت ناک انجام تک آگے بڑھائیں گے۔۔۔

کچھ لوگ چوہے کی دلیری پر واہ واہ کریں گے اور کچھ لوگ بلی اور چوہے کی مخاصمت اور بلی کی چوہے پر طاقت کے حوالے سے برتری کا تجزیہ کر کہ ‘ چوہے کے انجام کی پیش گوئی کر دیں گے۔۔

بلی چوہا کھا جائے گی ‘ ۔۔۔۔ اور چوہے کی ”نشے میں دُھت کیفیت“ میں نکلے جملے ‘ ”بلی کہاں ہے؟“ پر واہ واہ کرنے والے ایک طرف ہو جائیں گے۔۔۔!

اس سادہ کہانی میں ہمارے پاس سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔۔۔۔

نمبر 1۔ شراب سے دماغ کا حصہAmygdala جو جذبات کے حوالے سے کردار ادا کرتا ہے ‘ کا رابطہ عقلیت سے کمزور ہو جاتا ہے‘ شراب اس حصے کو کو شدید متاثر کرتی ہے ‘ یہاں تک کہ زندگی کی بقا کے لیے بنیادی جذبات جیسے خوف اور ڈر وغیرہ بھی شدید متاثر ہو جاتے ہیں ‘ خطرے کا تعین کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے ‘

چوہا ‘ بلی کے خدوخال ‘ تاثرات ‘ اوربلی کے حوالے سے خوفناک یادوں سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے ۔۔۔خود اعتمادی (Self Esteem) میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے ‘ چوہے کو بلی ایک بزدل سی چھپکلی دکھائی دے رہی ہے ۔۔۔عقل ماﺅف ہے اور۔۔۔شدید Stimulant کے نتیجے میں چوہا ‘ اپنے آپ کو بلی کے لیے بطور شاندار ضیافت پیش کر دیتا ہے۔۔۔(اُس بلی کا مقدر دیکھئے جس کو لذیذ شرابی چوہا کھانے کو مل گیا)

نمبر 2۔ چہروں کے تاثرات کا صحیح تجزیہ کرنے کے لیے دماغ بہت زبر دست کام کرتا ہے‘ Hippocampus کی مدد سے اس کے پاس ”تاثرات کی تکنیکی تفصیلات “ موجود ہوتی ہیں‘ شراب سے اس صلاحیت کو نقصان پہنچتا ہے‘ تصور کیجیے کہ آپ کا باپ یا ماں آپ کو ڈانٹ رہے ہیں ‘ ان کے چہرے پر شدید غصے کے تاثرات ہیں اور آپ کو یا تو وہ تاثرات نظر ہی نہیں آ رہے یا اس کے الٹ یعنی۔۔ ماں باپ کہ غصے سے بھرپور چہرے آپ کو ہنستے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں ‘ نتیجہ آپ کو معلوم ہی ہے کہ ماں باپ جنہوں نے شراب نہیں پی رکھی وہ سمجھنے سے ہی قاصر ہیں کہ ہماری ڈانٹ کے باوجود یہ ہنس رہا ہے یا مزید الٹی حرکتیں کیوںکر رہا ہے؟

نمبر 3۔مرکزی نروس سسٹم‘ خود کارنروس سسٹم کو متاثر کرتا ہے ‘ جس کا نتیجہ sympathetic nervous system کا شدید متاثر ہوناہے ‘ ظاہری حرکات و سکنات اور بول چال تو سست ہوتی ہی ہے ‘ اندرونی اعضائے رئیسہ پر بھی بہت منفی اثر پڑتا ہے ۔۔۔

نمبر 4۔ جنسی خواہش اور کارکردگی دو مختلف چیزیں ہیں ‘ ۔۔شراب کی وجہ سے Dopamine کی مقدار بڑھتی ہے جو جنسی خواہش Libido میں اضافہ کرتی ہے جبکہ sympathetic nervous system کے متاثر ہونے کی وجہ سے نظام سست روی کا شکار ہوتا ہے ‘ اگر کارکردگی” وقت میں اضافے“ سے تعلق رکھتی ہے تو نظام میں سستی کی وجہ سے وقت میں اضافہ ہو جاتا ہے لیکن ”خواہش “اور ”کارکردگی“ میں فرق کی وجہ سے جو انتشار پیدا ہوتا ہے وہ بعض اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔۔۔

لیکن ہوس جب عقل پر حاوی ہوتی ہے تو وہ اس طرح کی ”جان لیوا“ قسم کی جمع تفریق کو کہاں خاطر میں لاتی ہے!! ۔۔

اور یہاں میں نے لفظ” ہوس “۔۔بقائمیِ ہوش و حواس استعمال کیا ہے (رسید لکھ دی تاکہ سند رہے)

نمبر 5۔اور بہت ہی خطرناک صورتحال Impulse control disorder (ICD) کے حوالے سے ہے۔۔۔

یعنی کسی” اچانک خواہش“ کو حکمت یا مصلحت کے پیش نظر‘ نظر انداز کرنے کی صلاحیت۔۔

اور تصور کیجیے کہ یہ صلاحیت متاثر ہو جائے تو کیا کیاہو سکتا ہے؟

 اور یاد رہے کہ شراب کی وجہ سے جو زیادہ تر خواہشات پیدا ہوتیں ہیں Sensation سے تعلق رکھتی ہیں ۔۔مثال کے طور پر

۔۔خواہش بیدار ہو گئی کہ سامنے جو بوڑھا آ رہا ہے اس کو دھکا سے کر بھاگ جاﺅں یا کھمبے پر چڑھ جاﺅں

موٹر سائیکل یا گاڑی کو پوری قوت سے بھگانے کی خواہش۔۔کسی عورت کا پرس چھیننے ‘ یا دوپٹہ لے اڑنے کی خواہش۔۔

بھرے مجمعے میں گالیاں دینے کی خواہش۔۔۔یا اپنے ناپسندیدہ لوگوں کو سامنے دیکھ کر وہ گالیا ں دے دینی جو نشے کی غیرموجودگی میںدماغ بوجہ مصلحت دینے نہیں دیتا تھا۔۔۔

جرائم اور شراب کا تعلق کس قدر گہرا ہے ‘ آپ نے اندازہ لگا لیا ہو گا۔۔

نمبر 6۔نیورو ٹرانسمیٹر serotonin کے کم ہونے کا مطلب اب اور کچھ نہیں کہ یاسییت ‘ مایوسی اور برا مُوڈ آپ نے ہمیشہ کے لیے اپنا مقدر بنا لیا ہے ۔ آپ کے ارد گرد لوگ ‘

بالخصوص آپ کا خاندان ‘ آپ کے بچے اس سے براہِ راست متاثر ہوں گے ‘ آپ آنے والی نسلوں میں یہ مایوسی بذریعہ جینز منتقل کریں گے‘

نیوروٹرانسمیٹرز کی کمی بیشی کے شکار آپ نے ایسے بچے دیکھے ہوں گے جن کے چہرے پر بغیر کسی ناخوشگوار ماضی کے بھی غم کے آثار ہوتے ہیں ۔۔۔

عام معاشرے میں شراب کی اجازت انفرادی سطح پر اس حوالے سے تو دی جا سکتی ہے کہ۔۔ خود کو تباہ کر رہا ہے ‘ کرتا رہے۔۔۔

لیکن اگر اس کے استعمال سے معاشرے کے دوسرے لوگ متاثر ہو رہے ہوں ‘ کسی دُھت شرابی کی تیز رفتار گاڑی کے نیچے کوئی معصوم جاں سے ہاتھ دھو بیٹھے ‘ یا آپ اپنے کنبے کے ساتھ کہیں جا رہے ہوں اور کوئی دُھت گالیاں دے کر نکل جائے ‘ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔تو اس کی اجازت کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے۔۔

باقی رہا ”مناسب مقدار“ کا معاملہ تو یہ معاملہ بہت زیادہ نفسی اور موضوعاتی ہے ‘ کسی کو ایک چمچ بے ہوش کرنے کے لیے کافی ہے اور کسی کو جگ بھی شاید ناکافی ہو۔۔

جہاں تک خود کو تباہ کرنے کی آزادی کا اختیارکا تعلق ہے۔۔تو یہ بھی ایک ”مثالی معاشرے“ میں تو دینا مشکل ہی لگتا ہے!!

اور کسی تخلیق کار کی تخلیقات میں شراب کا کیا کردار ہے؟

کیا یہ کردار مثبت ہے یا منفی؟

 تو یہ ایک دلچسپ موضوع ہے جس پر آئندہ کبھی بات ہو گی!

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik