سوشل میڈیا پر جبر کے گھنے سائے اور نفرت کا یکطرفہ پرچار


6 جنوری کا دن میرے لئے تاریک رات کی مانند ہے۔ یہ دن ہماری آزادی پر کاری ضرب کی طرح ’غروب‘ ہوا۔ اس دن کے لئے طلوع کا لفظ استعمال نہیں ہوسکتا۔ یہ تاریک رات تھی جو اب طویل ہوچکی ہے۔ اس دن ہمیں خبر ملی کہ تین ایسے بلاگر جو پاکستان میں روشنی بکھیرنے کا بیڑا اٹھائے ہوئے تھے ’گمشدہ‘ کر دئے گئے ہیں۔ آج ہمیں ان کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے۔ سلمان حیدر، وقاص گورایہ اور عاصم سعید کا جرم یہ تھا کہ بیداد گر سے شکوہ بیداد کرتے تھے، شور حشر کی ایجاد کرتے تھے، روز عدل کی بنیاد رکھتے تھے!

ہمارے معاشرے میں گھٹن اپنی انتہاؤں کو پہنچ چکی تھی، بات کرنا گلا کٹوانے کے مترادف تھا۔ پرنٹ اور بعد میں الیکٹرونک میڈیا پر ایک خاص مکتبہ فکر سے وابستہ افراد کی اجارہ داری تھی، اور ہے۔ کیوں نہ ہو کہ اس مکتبہ فکر کی آبیاری ریاست نے فاشسٹ اصولوں پہ کی۔ اختلاف کرنے والوں کو بھوکوں مارا گیا۔ انہیں نوکریوں سے فارغ کیا گیا، ان کا پیچھا کیا گیا۔ بہت سے تاریک راہوں میں مارے گئے، کچھ نے لبوں کو سی لیا، اور بہت سوں  نے سنسر کی بیڑیوں میں جینا سیکھ لیا۔

ایسے میں سوشل میڈیا تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا۔ پہلے بلاگز آئے جن میں عام شہری اپنی رائے کا اظہار انٹرنیٹ کی دنیا میں کرنے لگ گئے جو ریاستی پہنچ سے نسبتاً دور تھی۔ یہ بلاگنگ پھر ٹویٹر کی صورت مائکرو بلاگنگ اور فیس بک کی صورت وسیع آبادی تک خیالات کے پہنچانے کا ذریعہ بنی۔ اظہار کی آزادی پر معاشرے میں جو بند باندھے گئے تھے سوشل میڈیا کی ماورا حقیقت دنیا کے آجانے سے وہ ایسے ٹوٹے کہ ہیجان کی سی کیفیت محسوس ہونے لگی۔ ایسا محسوس ہونے کی ایک وجہ تو یوں ہے کہ آنکھوں کو تاریکی اور کانوں کو خاموشی کی عادت ہوجائے تو روشنی چندھیانے کا اور گفتگو کانوں کے پردے پھاڑنے کا کام دیتی ہے۔ جن پر تنقید جرم ٹھہری تھی، سوشل میڈیا پر ان پر تنقید لازم ٹھہری تھی۔ پس عام شہری کی آواز وسیع عوام تک پہنچنا شروع ہوگئی۔ ذہنوں کے پٹ وا ہوئے اور اختلاف چلن ٹھہرا۔ ظاہر ہے ایسے میں جنہیں اختلاف گوارا نہ تھا انہیں بہت ناگواری محسوس ہوتی۔ ایک صاحب نے عرصہ پہلے کہا تھا، ’بوائز آر پیرانائڈ اباؤٹ سوشل میڈیا‘۔

تین برس پہلے انٹرنیٹ پر نفرت پر مبنی مواد پر ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا۔ شریکین اس امر پر گفتگو کر رہے تھے کہ ایسے مواد کے خلاف بند باندھنے کے لئے کس قسم کی قانون سازی کی جائے۔ کچھ ایم این اے اور باثروت سیاسی شخصیات بھی موجود تھیں۔ مجھے جب اظہار کا موقع دیا گیا تو میں نے کہا کہ یہ سوچ کر کہ سوشل میڈیا پر اظہار رائے پر قانون نافذ کیا جائے گا میں تو ڈر جاتا ہوں۔ قانون جیسا بھی بنے گا، اس کا نفاذ تو وہی ادارے کریں گے جو معاشرے میں قانون کے نفاذ کے ذمہ دار ہیں۔ جیسے معاشرے میں قوانین بنتے تو فرد کے تحفظ کے نام پر ہیں مگر استعمال سیاسی اختلاف کے دبانے کے لئے ہیں ایسے ہی سوشل میڈیا پر بھی ان کا استعمال ہوگا، پھر چاہے ان کے کتنے ہی خوشنما نام رکھ دیں۔ میرا کہنا تھا کہ اس سے بہت سی ایسی کمیونیٹیز جو انٹرنیٹ پر اپنی رائے کا اظہار کرتی ہیں خاموش ہوجائیں گی، اور ہمارے سوشل میڈیا کا بھی وہی حال ہوگا جو ہمارے معاشرے کا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ 8 جنوری کو جو رات شروع ہوئی ایسی ہی تاریک تھی جیسا تاریک ہمارا معاشرہ ہے۔ ہاں اس تاریک رات کی زد میں خصوصاً جو پہلے لوگ آئے وہ یہ تین بلاگرز تھے۔

جنوری کے اوائل میں گمشدہ کئے گئے یہ بلاگرز جنوری کے اواخر میں آزاد ہوئے۔ اس دوران بہت سے فیس بک پیجز بند ہوگئے، اور جو جاری رہے ان سے ہم خیال لوگ بھی دور بھاگنا شروع ہوگئے۔ آپ ریاستی دہشت کا اس سے اندازہ لگائیں کہ جنوری کے دوسرے ہفتے میں والد صاحب کے ایک دوست کے ہاں جانا ہوا۔ انہوں نے اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں تو اب ایسی پوسٹس جو ہیئت مقتدرہ (مذہبی و سیاسی) پر تنقید پر مبنی ہوتی ہیں کو لائک تک نہیں کرتا کہ کیا پتہ اسے بھی دیکھا جارہا ہو۔ یہ حال اگر باشعور لوگوں کا تھا تو خیال کیا جانا چاہئے کہ عام عوام میں اس سے کس قدر خوف و ہراس پیدا ہوا ہوگا۔

پچھلے برس کے دوران سوشل میڈیا پر ن لیگ کے ہی لائے ہوئے قانون کو استعمال کرتے ہوئے ن لیگ سے تعلق رکھنے والے یا ان کے ہمدرد بلاگرز اور ٹویٹرز کو ایف آئی اے نے ہراساں کیا۔ بہت سوں نے اپنے پرانے ٹویٹر اکاؤنٹ بند کر دئے، نئے شروع کئے اور اب ’حلال تنقید‘ کرتے ہیں۔ پچھلے برس وہ تمام نفرت کی مشینیں جنہیں سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے خوب پنپتی رہیں مگر متبادل آوازوں کو خاموش کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔

انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہوئے پاک بھارت دوستی کے ایک فورم کے لئے رضا کام کرتا تھا۔ آج رضا گمشدہ ہے۔ رضا کی یوں گمشدگی بہت سے لوگوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے پاک بھارت تعلقات کی بہتری کی کوششوں سے دور کردے گا۔ یہ واحد ذریعہ تھا کہ جہاں بارڈر کی تقسیم اور ویزا کی مشکلات لوگوں کو آپس میں باہمی تعلقات پیدا کرنے سے نہیں روکتی تھیں۔

اس سب کے بعد ایک انسانی پہلو بھی ہے جو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ جبری گمشدگی یا صحیح طور پر کہا جائے تو سیاسی قیدی بننے کے بعد جو نفسیاتی اور جذباتی گھاؤ ان تین بلاگرز کو جھیلنے پڑے، اور ساری زندگی جس اذیت کا انہیں سامنا کرنا پڑے گا اس کا کوئی مداوا نہیں ہے۔

آج جب ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ ان بلاگرز پر گستاخانہ مواد کا الزام غلط تھا اور اس کے کوئی شواہد نہیں ملے تو پوچھا جانا چاہئے کہ جن لوگوں نے ان کے خلاف مہم چلائی ان پر قانون کا اطلاق کب ہوگا۔ ڈیفینس پی کے کا پیج اور عامر لیاقت تو یہیں ہیں۔ ان پر نفرت کے پرچار کرنے پر کارروائی کب ہوگی؟

اہم تر سوال یہ ہے کہ اگر ان بلاگرز پر یہ الزام درست بھی ہوتا تب بھی انہیں ماورائے قانون قید کرنا اور متوازی قانونی نظام کے تحت سزا اور ٹارچر کے عمل سے گزارنے کا کیا جواز تھا؟ کیا ملک میں ایسے ہی متوازی قانونی نظام چلتے رہیں گے اور رضا اور صغیر جیسے لوگ ضمیر کے قیدی بنتے رہیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).