ایک پھانسی اور تین قتل کا بدلہ، صرف ایک نام اور ایک سکہ


جب جب پاکستان میں جمہوری جدو جہد اور آمریت کے خلاف آواز بلند کرنے کی بات آتی ہے تب تب لوگ بھٹو خاندان کی ایک پھانسی اور تین قتل کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں بھٹو خاندان کے ناقدوں نے بھی یہ بات تسلیم کی کہ ملک کی سیاسی تاریخ میں ذوا الفقارعلی بھٹو کا عدالتی قتل، شاہنواز بھٹو کو زھر دے کر مارنا، مرتضیٰ بھٹو کا پولیس گردی کے نتیجے میں قتل اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا دہشتگردی کے واقعے میں قتل ہو جانا پاکستان کی اکائیوں اور جمہوری سوچ کو کمزور کرنے کے مترادف رہا ہے۔ اس کو وقت کی ستم ظریفی کہا جائے یا جمہوریت کی بقا کہا جائے کہ بے نظیر بھٹو اپنے دور حکومت میں بھی اپنے والد کی پھانسی اور بھائیوں کے بہیمانہ قتل کا بدلہ لینے سے قاصر رہیں۔

بڑے غور و فکر کے بعد محترمہ نے نعرہ لگایا کہ جمہوریت ہی سب سے بڑا انتقام ہے اور وہ اسی انتقام کی لمبی جدوجہد کے خواب کی تعبیر کے لیے طویل جلاوطنی کے بعد پاکستان آئیں۔ جمہوریت دشمن قوتیں واقعہ کارساز سے ان کا پیچھا کرتے ہوئے ان کو ڈرانے کی کوششیں کرتی رہیں مگر وہ سوات میں پاکستان کا جھنڈا لہرانے اور ملک میں آمریتی سوچ کے خاتمے کے خواب دیکھتی رہیں۔ اور جب وہ لیاقت باغ راولپنڈی سے جمہوریت کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے نکلیں تو دہشتگردوں نے انہیں شھید کر دیا اور کچھ گھنٹوں میں ہی جائے وقوع کو صاف کر دیا گیا اور جنرل پرویز مشرف کے اس وقت کی سیکورٹی ترجمان نے ایک پریس کانفرنس میں ایک ٹیپ کی ریکارڈنگ سنا کر بیت اللہ محسود کو قاتل قرار دے دیا۔ اور ان کے قریبی ساتھی اپنی عافیت کی خاطر بی بی کو بے یارو مدد گار چھوڑ گئے۔

اسکاٹ لینڈ یارڈ کی تحیقق ہو یا اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم ہو ان سے کسی نے تعاون نہیں کیا اور وہ ادھوری رپورٹس کچھ اشاروں ہی اشاروں میں کہانیاں سناتے سناتے سرد خانوں کی نظر ہو گئیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں ملوث کچھ مہرے بھی آخرکار آزاد ہوگئے مگر عدالتی کیس ابھی بھی جاری ہے۔ اب محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو دسمبر کی اداس شاموں اور تاریک راتوں میں صرف ان کی برسی کے موقع پر ہی یاد کیا جاتا ہے کہ بی بی ہم شرمندہ ہیں تیرے قاتل زندہ ہیں۔ اور آج پاکستان پیپلز پارٹی وہی محترمہ بےنظیر بھٹو والا بیانیہ دہراتی نظر آتی ہے کہ ہمارا سب سے بڑا انتقام جمہوریت ہے۔ آج تک کوئی ایسا پیدا نہیں ہوا جس کو حبیب جالب صاحب نے اس طرح خراج تحسین پیش کیا ہو۔

ڈرتے ہیں بندوقوں والے، ایک نہتی لڑکی سے
پھیلے ہیں ہمت کے اجالے ایک نہتی لڑکی سے
ڈرے ہوئے مرے ہوئے ہیں لرزیدہ لرزیدہ ہیں
ملّا، تاجر، جنرل جیالے، ایک نہتی لڑکی سے

ملک میں آمریتی اور جمہوری سوچ کی جنگ ابھی بھی جاری ہے جس کا ذکر بھٹو صاحب، محترمہ نصرت بھٹو اور بےنظیر بھٹو نے کیا تھا۔ آج بھی ذوالفقار علی کے عدالتی قتل کا ریفرنس ملک کی اعلیٰ عدالت کے پاس اس یقین کے ساتھ فیصلے کا منتظر ہے کہ کوئی تو منصف آئے گا جو انصاف کا بول بالا کرے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے نام سے کئی ادارے منسلک کیے گئے ہیں اور اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے نام پر اعزازی سکہ جاری کر کے اپنا فرض پورا کردیا ہے۔ کیا ایک نام اور سکہ ہی بھٹو خاندان کی قربانیوں کا صلہ ہے؟

وقت کی ستم ظریفی تو دیکھیں کہ سابق آمر جنرل مشرف اور اس جیسی سوچ رکھنے والے لوگ مرتضیٰ بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا الزام آصف علی زرداری پر لگاتے ہیں۔ یاد رہے کہ محترمہ بے بھٹو جب وزیر اعظم تھیں اس وقت مرتضیٰ بھٹو کو پولیس گردی کا نشانہ بنایا گیا تھا اور یہ بات آج تک معمہ ہے کہ گولی کہاں سے چلی اور اس کے بعد بے نظیر بھٹو کے قتل کا معمہ بنا۔ جس پر کبھی ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کبھی ممتاز بھٹو تو کبھی عزیر بلوچ جیسے طوطے تو کبھی جنرل پرویز مشرف بولتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا سب سے زیادہ فائدہ آصف زرداری کو ہوا مگر محترمہ بے نظیر بھٹو کے بچے اور ملکی سیاست کے داؤ پیچ سمجھنے والے اس فائدے کو رد کرتے ہیں کہ اگر فرض کریں کہ یہ سب کچھ آصف علی زرداری نے کروایا ہوتا تو ملکی جادوگر اب تک اس راز کو تہہ سے نکال کر آصف زرداری کو پھانسی پر چڑھا دیتے مگر آصف علی زرداری پر یہ الزام صرف اس لیے لگایا گیا کہ کسی طرح پیپلز پارٹی کو کمزور اور اس معاملے کو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے قتل کی طرح الجھا کر ایک معمہ بنا دیا جائے۔

ہزارہا تنقید کے باوجود بھی، آمریت کے خلاف جدوجہد اور پیپلز پارٹی کے جیالوں اور بھٹو خاندان کی قربانیوں کو تاریخ میں کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ کیوںکہ جتنی جدوجہد اور قربانیاں انہوں نے دی ہیں آج تک اس ملک میں ان کے مدمقابل کوئی سیاسی جماعت دے ہی نہیں سکی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).